• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

جس طرح ایک پھل جب درخت پر پک جائے تو وہ توڑنے کے قابل ہوجاتا ہے، اسی طرح جب ٹیکس واجب الادا ہو جائے تو اس کی ادائیگی کارِ سرکار چلانے کیلئے ضروری ہوجاتی ہے، حکومت کو ٹیکس کی وصولی اس طرح کرنی چاہئے جیسے ایک شہد کی مکھی پھول سے رس بغیر کوئی تکلیف پہنچائے نکالتی ہے۔ یہ قابلِ غور نصیحت آج سے دو ہزار سال قبل ہماری ہی سرزمین میں بسنے والے اس عظیم ہندو فلسفی نے کی تھی جسے دنیا کوٹلیا چانکیہ کے نام سے جانتی ہے، قدیم ٹیکسلا سے تعلق رکھنے والے چانکیہ جی کی تعلیمات پر عمل کرتے ہوئے ایک کنیز کا بیٹا چندر گپت موریا اپنے زمانے کی سب سے طاقتور ریاست کا بانی حکمراں بن گیا، چندر گپت کا دور حکومت آج بھی تاریخ میں اچھے الفاظ سے یاد کیا جاتا ہے تو اس کی بڑی وجہ چانکیہ جی کا ساتھ تھا جو قدم بقدم بادشاہ کے امورِ سلطنت بخوبی چلانے کیلئے رہنمائی کرتے رہے۔ قدیم مقدس زبان سنکسرت میں تحریر کردہ ارتھ شاسترانسانی تاریخ کی پہلی کتاب کا درجہ رکھتی ہے جس میں پبلک فنانس، پبلک ایڈمنسٹریشن اور فسکل لا ز سمیت دیگر اقتصادی معاملات کے بارے میں مفید معلومات درج ہیں،کتاب کے پہلے باب میں ’’کوشو مولوڈنڈا‘‘کی تلقین کی گئی ہے جس کالغوی مطلب ہے کہ ایڈمنسٹریشن کیلئے ریونیو ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے، دیوناگری کی یہ تحریرہمسایہ ملک انڈیا کے انکم ٹیکس ڈیپارٹمنٹ کے سرکاری لوگو کا بھی حصہ ہے۔چانکیہ جی ارتھ شاستر میں لکھتے ہیں کہ کسی بھی مقصد میں کامیابی کیلئے فنانس کی موجودگی بہت ضروری ہے، ایک بادشاہ کو اپنے دورِ حکومت میں مختلف مشکلات کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے لیکن سرکاری خزانے کی وافر تعداد تمام بحرانوں سے نجات کا باعث ہوتی ہے، دولت سے بھرے خزانے کی حفاظت کیلئے محافظ ضروری ہیں لیکن دولت کی موجودگی خزانے اور محافظوں دونوں کیلئے ضروری ہے، ایک کامیاب حکمراں کی نشانی ہے کہ وہ قومی خزانے کو بھرنے کیلئے مختلف اقدامات مسلسل کرتا رہے۔ چانکیہ جی نےقومی خزانے میں اضافے کیلئے ٹیکس کی مختلف اقسام بھی بیان کی ہیں،ارتھ شاستر کے مطابق حکومت کیلئے صنعتی پیداوار پر پروڈکشن ٹیکس (بھاگا)چھٹا حصہ قرار دیا گیا ہے، چانکیہ جی اپنی کتاب میں جنرل سیلز ٹیکس، کسٹم ڈیوٹی، ڈیفنس ٹیکس، ٹرانسیکشن ٹیکس، سرچارج وغیرہ جیسے مختلف موضوعات کو زیربحث لاتے ہوئے نصیحت کرتے ہیں کہ ٹیکس اکٹھا کرنے کا طریقہ کار عوام کیلئے کسی صورت تکلیف دہ نہیں ہونا چاہئے، ٹیکس کی شرح کم ترین جبکہ ٹیکس نیٹ وسیع ترین ہونا چاہئے، ٹیکس کی وصولی کیلئے باقاعدہ ٹائم ٹیبل کا اعلان کرنا بہت ضروری ہے اورٹیکس اکٹھا کرنے والے سرکاری عملے کا رویہ دوستانہ ہونا چاہئے،چانکیہ جی کا یہ بھی کہناہے کہ ٹیکس اکٹھا کرنے والے عملے کی جانب سے کام چوری، کوتاہی، غفلت، نااہلی، لالچ اور بدتمیزی کا مظاہرہ قومی خزانے کو متاثر کرسکتا ہے۔آج اکیسویں صدی میں عالمی تجارت زوروں پر ہے لیکن چانکیہ جی نے دو ہزار سال قبل عظیم ہندو شہنشاہ چندرگپت موریا کو دوسری ریاستوں کے ساتھ تجارتی سرگرمیوں پر ٹیکس لگانے کی تجویز پیش کی تھی، چانکیہ جی کے مطابق امپورٹ اور ایکسپورٹ ڈیوٹی کی شرح چار سے بیس فیصد کے درمیان ہونی چاہئے۔ اسی طرح وہ سمجھتے تھے کہ عالمی تجارت یک طرفہ ٹریفک کی مانند نہیں ہونی چاہئے،ان کے مطابق غیرملکی ماہرین اور صنعتکاروں کو خصوصی سہولتیں فراہم کرنی چاہئے،انہوںنے خبردار بھی کیا کہ امپورٹ اور ایکسپورٹ کے مابین توازن برقرار نہ رکھنے والے ملک آخرکار اقتصادی بحران کا شکار ہوجاتے ہیں، ایک حکمراں کو اپنے دن کا آغاز تین اہم ترین قومی معاملات پر رپورٹ لینے سے کرنا چاہئے، اول ڈیفنس، دوئم ریونیو اور نمبر تین اخراجات۔ارتھ شاستر کی ٹیکس تعلیمات کا لب لباب یہ ہے کہ حصولِ ٹیکس کااصل مقصد عوام کی فلاح و بہبود ہوتا ہے ، اس کی خاطر رعایا کا استحصال نہیں ہونا چاہئے،زیادہ لوگوں کا کم شرح کا ٹیکس ادا کرنا کم لوگوں کا ٹیکس کی بھاری شرح ادا کرنے سے زیادہ بہتر ہے، مستحق اور نادار لوگوں کو ٹیکس میں چھوٹ دی جائے، اسی طرح عوام کو سمجھنا چاہئے کہ ٹیکس ہی وہ واحد ذریعہ ہے جس سے ملک و قوم کی ترقی و سربلندی کیلئے منصوبوں کو عملی جامہ پہنا یا جاسکتا ہے۔ اس حوالے سے شہد کی مکھی کی مثال سامنے رکھنی چاہئے جو پھول کو نقصان نہیں پہنچاتی جبکہ پھول کے رس سے مفید شہد تیار کرلیتی ہے، عوام کو بھی پھول کی مانند ہنسی خوشی ٹیکس ادا کرنے میں کوئی دقت محسوس نہیں کرنی چاہئے۔ میری نظر میںایسی زبردست سمجھ بوجھ رکھنے والے فلسفی قدرت کا انسان کیلئے تحفہ ہوتے ہیں، ہر وہ علم دوست انسان جو اپنا دماغ انکی باتوں کو سمجھنے میں استعمال کرے اور عمل پیرا ہو، اسے کامیابی سے کوئی دنیاوی طاقت نہیں روک سکتی۔وزیراعظم عمران خان کی زیرقیادت موجودہ حکومت ملک کی خوشحالی کیلئے جو نظامِ ٹیکس وضع کرنے کا ارادہ رکھتی ہے، اس کی کامیابی کیلئے ضروری ہے کہ ہر پاکستانی شہری ٹیکس کو مذہبی فریضہ سمجھ کر ادا کرے ، دوسری طرف حکومت کوبھی عوام کے جائز تحفظات کو سنجیدگی سے لینا چاہئے، اس حوالے سے عوام کا اعتماد جیتنے کی ضرورت ہے کہ ٹیکس سے حاصل کردہ آمدنی حکمراں طبقے کی عیاشی کیلئے نہیں بلکہ عوامی فلاح و بہبود میں استعمال کی جارہی ہے۔ میری نظر میں ٹیکس کسی صورت عوام کی قوت برداشت سے باہر نہیں ہونا چاہئے بصورت دیگر کچھ عناصر ٹیکسوں کو جواز بناتے ہوئے لوگوں کو سڑکوں پر لانے میں کامیاب ہوسکتے ہیں۔چانکیہ جی کے مطابق کسی بھی حکومت کیلئے یہی وہ نازک لمحات ہوتے ہیں جب ایک معمولی سا غلط فیصلہ دھڑن تختہ کردیتا ہے۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین