• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کرکٹ کے عالمی کپ کے سیمی فائنل میں سازش ہار گئی اور مقدر جیت گیا۔ مقدر کی اس جیت نے سازش کی تیار کردہ تمام کشتیاں ڈبو دیں۔ پاکستان کو باہر کرنے کے لئے بھارت نے ہر وہ کھیل کھیلا جو کھیل کے میدان میں زیب نہیں دیتا۔ بھارتی چالباز کھیل کے میدان میں سیاست لے آئے تھے، یہ تمام چالیں ان کے گلے پڑ گئیں۔ آپ کو اچھی طرح یاد ہوگا کہ بھارتی ٹیم کس طرح برطانیہ کے ہاتھوں جان بوجھ کر ہاری تھی۔ اس ہار پر پورا ہندوستان خوش تھا کہ اس نے ہار کر پاکستان کو ورلڈ کپ سے باہر کردیا ہے، ہمارے ساتھ بھی قسمت نے کیا کھیل کھیلا کہ ویسٹ انڈیز سے ہار آخری وقت تک گلے پڑی رہی، ہم تو قسمت کے مارے باہر ہو گئے تھے مگر بھارتیوں کو اپنی چالوں پر بڑا مان تھا لیکن پھر قسمت ان کی سازش بھری چالوں پر غالب آگئی۔ بھارتیوں کے تمام جادو ہار گئے اور مقدر جیت گیا۔

ورلڈ کپ کا سیمی فائنل اس لحاظ سے منفرد تھا کہ ایک روزہ میچ کو بارش نے دو روزہ بنا دیا۔ پہلے دن نیوزی لینڈ کی ٹیم کے اسکور کو دیکھ کر بیس بائیس گھنٹے بھارتی بڑے خوش رہے، ان کا خیال تھا کہ یہ اسکور تو راہول اور روہت شرما اکیلے بنا لیں گے مگر تقدیر نے یہ آرزو رد کردی۔ خوشی کی اس انتہا کو اسی وقت نظر لگ گئی تھی جب گراؤنڈ میں چند سکھ نوجوانوں نے خالصتان کے نعرے بلند کرنا شروع کر دیے تھے۔ یہ نعرے اس قدر جان دار تھے کہ شکایت کرنا پڑی۔ اس شکایت پر انگلینڈ کی پولیس کو مداخلت کرنا پڑی۔ خیر بھارتی ٹیم نے جب بیٹنگ شروع کی تو سنچریاں بنانے والا روہت شرما ایک اوور بھی نہ کھیل سکا۔ خود کو ٹاپ بیٹسمین سمجھنے والا ویرات کوہلی جو بائولنگ مشین پر ایک گھنٹہ پریکٹس کرتا ہے یہاں اس کی مشینی پریکٹس بھی کام نہ آ سکی۔ کوہلی بہادر نیوزی لینڈ کی تیز بائولنگ کے سامنے ایک پر ڈھیر ہو گئے، پھر وکٹیں پتوں کی طرح گرنا شروع ہوئیں۔ شاید بہت کم لوگوں کو پتا ہو کہ کوہلی روزانہ بائولنگ آٹو مشین پر ایک گھنٹہ پریکٹس کرتے ہیں، ایک کروڑ مالیت کی اس مشین پر ہر طرح سے باؤلنگ ہو رہی ہوتی ہے، پتا نہیں یہ مشین نیوزی لینڈ جیسی بائولنگ کیوں نہ سمجھا پائی۔ لوگ قسمت کے کھیل کو نہیں سمجھتے، ہارنے کے بعد کوہلی نے کہا کہ ’’پینتالیس منٹ کے کھیل نے پانسہ ہی پلٹ دیا‘‘۔ ویرات کوہلی کو کون سمجھائے کہ 45منٹ تو بہت زیادہ ہیں قسمت تو پل دو پل میں سب کچھ بدل دیتی ہے۔ اس میچ میں پانڈیا بھی رنز کی ’’پنڈ‘‘ نہ بنا سکے۔ جدیجا کو چھکے چوکے لگانے کا موقع ملا مگر جب اس نے نصف سنچری کے بعد غرور سے بلا گھمایا تو قسمت کی بے رحم لہروں کو اس کا یہ تکبر پسند نہ آیا، رہے مہندر سنگھ دھونی تو اس سے تیز نہ بھاگا جا سکا، دھونی کی کہانی بھی ختم ہوئی۔ یوں انڈیا اٹھارہ رنز سے ہار گیا۔ بلے بازئوں کی مضبوط دیوار سیمی فائنل میں ریت کی ثابت ہوئی۔ میچ کے دوران اور بعد میں بھارتیوں کے چہرے دیکھنے والے تھے، قسمت سے ہارے ہوئوں کے چہرے ایسے ہی ہوتے ہیں۔ میں نے ایک ایک ’’چہرہ‘‘ دیکھا ہے، اس پر مایوسی کی برستی ہوئی پھٹکار بھی دیکھی ہے۔ بھارت کے کئی شہروں میں مایوسی کے اس عالم میں توڑ پھوڑ ہوئی، مقبوضہ کشمیر میں جشن منایا گیا، کشمیری نوجوانوں نے خوشی میں پاکستان زندہ باد کے نعرے لگائے۔ مشرقی پنجاب، برطانیہ اور کینیڈا میں سکھوں نے پاکستان اور خالصتان دونوں کو زندہ باد قرار دیا۔ پاکستانی قوم بھی نیوزی لینڈ کی خوشیوں میں پوری طرح شریک ہوئی۔ سوشل میڈیا پر پاکستانی نوجوانوں نے بھارت کو خوب لتاڑا، انوشکا اور کوہلی کی تصویروں کو بھی یادگاری روپ عطا کر دیئے۔

کوہلی کو یہ بات یاد رکھنا چاہئے کہ سازش وقتی خوشی تو دے سکتی ہے مگر تقدیر سے نہیں جیت سکتی۔ لوگ یہ باتیں نہیں سمجھتے، لوگ حالات کو دولت کی آنکھوں سے دیکھتے ہیں، کاش لوگ تقدیر کی منشا پر راضی ہو جایا کریں۔

چار دن پہلے ٹی وی اینکر مرید عباس کو کراچی میں قتل کر دیا گیا۔ قاتل نے خودکشی کی کوشش بھی کی۔ مرید عباس کی کہانی بڑی عجیب ہے۔ مرید عباس کھر پپلاں ضلع میانوالی کا رہنے والا تھا، ویسے تو کھروں کی بستیاں زیادہ تر کوٹ ادو ضلع مظفر گڑھ میں ہیں مگر یہ پپلاں کا تھا جہاں کا سبطین خان آج کل نیب مقدمے کی وجہ سے کوٹ لکھپت جیل میں ہے۔ مرید عباس دس سال کا تھا جب پپلاں چھوڑ گیا تھا۔ وہ کراچی گیا، وہ لوگوں کے گھروں میں کام کرتا تھا پھر ایک دن وہ ایک ایسی فیملی کے ہاں کام پہ لگ گیا جنہیں خوفِ خدا تھا۔ یہی دن مرید عباس کی تبدیلی کا باعث بنا۔ اس خاندان نے مرید عباس کو کام کے ساتھ تعلیم دلوانا شروع کی۔ یہ ذہین تھا سو پڑھنے لگ گیا، اس خدا خوفی رکھنے والے خاندان نے مرید عباس کا پورا خیال رکھا۔ وہ پڑھ لکھ کر نیوز اینکر بن گیا۔ تین چار ٹی وی چینلز کے ساتھ وابستہ رہا اور بالآخر جس مٹی کا تھا، اسی مٹی میں مل گیا۔ پانچ چھ برسوں سے اس نے عاطف زمان کے ساتھ ٹائروں کے بزنس میں سرمایہ لگا رکھا تھا۔ عاطف زمان کو سمجھنے کے لئے آپ ڈبل شاہ کی کہانی پڑھ لیں۔ مرید عباس کے کہنے پر میڈیا سے وابستہ کچھ اور لوگوں نے بھی اس بزنس میں پیسے لگائے۔ اسی دوران مرید عباس نے ایک نیوز اینکر سے شادی بھی کی۔ اس پوری کہانی میں جگہ جگہ دولت کا کھیل نظر آتا ہے۔ میں نے پچھلے کالم میں بھی لکھا تھا کہ دولت کے حصول کی آرزو انسانوں کو اندھا کر دیتی ہے، وہ اس راستے پر قتل کرتے ہیں، قتل کرواتے ہیں اور بہت کچھ ناجائز کر جاتے ہیں۔ دولت کے کھیل میں جانے سے پہلے ضرور سوچ لینا چاہئے کہ دولت کا انجام رسوائی ہے۔ دولت کی حیثیت کی وضاحت کے لئے حضرت علیؓ نے ہتھیلی پہ تھوڑی سی خاک رکھ کے پھر اسے پھونک سے اڑا کر لوگوں سے کہا ’’بس دولت کی یہی حیثیت ہے‘‘۔ تاریخ بہت سبق سکھاتی ہے مگر لوگ سمجھتے نہیں۔ لوگوں نے کپڑوں، گھروں اور گاڑیوں کی عزت کرنا شروع کر دی ہے، لوگوں نے انسانوں کی عزت کو چیزوں کا محتاج بنا دیا ہے مگر لوگ سمجھتے کہاں ہیں، بقول نوشی گیلانی ؎

اس شہر میں کتنے چہرے تھے کچھ یاد نہیں سب بھول گئے

اک شخص کتابوں جیسا تھا، وہ شخص زبانی یاد ہوا

تازہ ترین