• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
برطانیہ میں گینگ کلچر بہت طاقتور ہوچکا ہے۔ اس کا کسی ایک نسلی گروہ کو ذمہ دار نہیں ٹھہرایا جاسکتا۔ نہ ہی یہ جدید دور کی پیداوار ہے۔ اس موضوع پر میں چند ماہ پیشتر بھی کالم لکھ چکا ہوں۔ لیکن آج مجھے اپنے دوست کے بیٹے کو ایسے ہی گینگ کا نشانہ بننے پر اس ایشو کو اجاگر کرنا ضروری محسوس ہوا۔ یہ حملہ گزشتہ دنوں سترہ سالہ ریان باری پر ہوا۔ اس جی سی ایس سی کے طالبعلم کو حملہ آور اپنی طرف سے جان سے مار کر بھاگ گئے تھے۔ گینگ کے آٹھ سے دس افراد پر مشتمل ماسک پہنے ہوئے نارتھ لندن میں فنچلی سے تعلق رکھنے والے اس گروہ نے بارینٹ کے علاقے میں ریان باری پر چاقوؤں سے حملہ کیا۔ سینے پر وار کرکے اس کا دل گھائل کر دیا اور مردہ سمجھ کر برف سے ڈھکے بارینٹ کے پارک میں پھینک کر فرار ہوگئے۔ دن دیہاڑے رونما ہونے والے اس واقعہ کی 999 کو اطلاع پر ائیر ایمبولینس ایسے وقت وہاں پہنچی جب ریان باری موت سے صرف چند سیکنڈ دور تھا۔ اس کی حرکت قلب بالکل سست ہوچکی تھی۔ سارا خون سینے کے اندر بہہ جانے اور فوراً جم جانے کی وجہ سے دل جکڑا جاچکا تھا۔ خوش قسمتی سے ائیرایمبولینس میں ایک ہارٹ سپیشلسٹ موجود تھی جس نے وہیں پارک کے اندر ہی ریان کے دل کا آپریشن کیا۔ اور بند ہوچکے دل کو بجلی کا شاک دے کر دوبارہ حرکت پر بحال کیا۔ یوں میرے دوست کا بیٹا زندگی کی بازی ہارتے ہارتے ترقی یافتہ سائنس کے کرشمے سے جیت میں بدلنے میں کامیاب ہوا۔ وہ ابھی ہسپتال میں روبصحت ہے۔ برطانیہ میں اس قسم کے واقعات روز مرہ کا معمول بن چکے ہیں جس کی وجہ سے پبلک نوجوانوں کی گرتی ہوئی اخلاقی اقدار اور پرتشدد رحجان سے خوف زدہ ہے۔ یوں تو پبلک کے اندر اس خطرناک رحجان سے لڑنے کا عزم بھی زور پکڑ رہا ہے۔ اس گینگ کلچرمیں گورے، سیاہ فام اور ایشیائی نوجوان سبھی شامل ہیں۔ اس لئے اس کلچر کے رحجان کو اگر دانائی سے کنٹرول نہ کیا گیا تو وہ وقت قریب ہے جب برطانیہ میں رہنے والی ہر فیملی کا کوئی نہ کوئی نوجوان اس کلچرکی بھینٹ چڑھ جائے گا۔ اس وقت برطانیہ میں 10 فیصد نوجوان جن کی عمریں 10 سے 19 سال کے درمیان ہیں وہ کسی نہ کسی گینگ سے منسلک ہیں۔ ان میں سے کچھ گینگ کمیونٹی کے امن کے لئے سنگین خطرہ ہیں۔ ان کی ممبر سازی میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے۔ یہ گینگ غیر قانونی سرگرمیوں کو اپنے گینگ کی شناخت اجاگر کرنے کے لئے جاری رکھنا ضروری خیال کرتے ہیں۔ ان میں چند گینگز ایسے بھی ہیں جو دوسرے گینگز کو اپنی طاقت دکھانے اور دھاک بٹھانے کے لئے قتل جیسی وارداتوں میں ملوث ہونا ضروری خیال کرتے ہیں۔ سنگین جرائم کو جاری رکھنا نہ صرف ان کی دھاک قائم رکھتا ہے بلکہ ان کی مالی ضروریات بھی انہی جرائم پیشہ سرگرمیوں سے پوری ہوتی ہیں۔ ڈاکہ، رہزنی، منشیات کا دھندہ ، لڑکوں کو جنسی کاروبار کی طرف راغب کرنا اس کلچر کی زندگی کے اظہار ہیں۔ اس وقت پولیس کے اعداد و شمار کے مطابق صرف لندن میں 170 گینگز متحرک ہیں۔ شہر میں ہونے والے جرائم کا 20 فیصد ان گینگز سے منسوب ہے۔ چاقو کا استعمال ان گینگز کے باہمی علاقائی حد بندیوں کے جھگڑے سے جڑا ہوا ہے۔ کسی ایک محلے کے گینگ کا ممبر دوسرے گینگ کے زیر اثر علاقے میں داخل نہیں ہوسکتا ایک دوسرے کے محلے ان گینگز کے لئے No Go Areas ہیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ہمارے نوجوانوں کی تربیت میں ایسی کونسی کمی رہ جاتی ہے کہ وہ اس قسم کے گینگز میں شامل ہوجاتے ہیں۔ گزشتہ صدی سے اس حقیقت کا نہ صرف اعتراف کیا جارہ اہے۔ بلکہ یہ بھی خیال کیا جارہا ہے کہ ہم نہ صرف بطور سوسائٹی اس کلچر کے عادی ہوچکے ہیں۔ بلکہ اسے سوسائٹی کا لازمی حصہ بھی ماننے لگے ہیں۔ اسباب پر تحقیقی کام کرنے والے گھریلو تشدد کو اس کا سبب مانتے ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ بچہ جب گھر میں تشدد دیکھتا ہے تو باہر اس کا اظہار بھی کرتا ہے۔ عورت کا جنسی استحصال بھی گینگ کلچر کو جلا بخشتا ہے۔ تاہم یہ بات بھی سروے کرنے والے اداروں کے نوٹس میں آئی ہے کہ اب لڑکیاں بڑی تعداد میں گینگز میں شامل ہورہی ہیں۔ ان گینگز کا ایک چوتھائی ایسے ہیں جو قتل جیسی وارداتوں میں ملوث ہیں۔ ماہرین کا خیال ہے کہ ان جرائم کی روک تھام کے لئے قانون اتنا نرم ہے کہ مجرم بچ نکلنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں۔ دوسرا مسئلہ مالی ہے۔ اگر قانون کسی مجرم کو سزا دلانے میں کامیاب ہو بھی جاتا ہے تو ایک سال میں ایک نوجوان قیدی پر 70 ہزار پونڈ سے لے کر ڈیڑھ لاکھ پونڈ تک کے اخراجات آتے ہیں۔ اگر اتنی رقم ان مسائل کے نفسیاتی اور سماجی پہلوؤں کو بہتر کرنے پر خرچ کی جائے تو اس سے ایک فرد نہیں بلکہ پورے معاشرے پر بہتر اثرات مرتب کئے جاسکتے ہیں۔ اس مسئلے کو محض قانون کی سختی سے طویل مدت کے لئے حل نہیں کیا جاسکتا۔ بلکہ جبر اور تشدد مزید تشدد کو جنم دیتا ہے۔ کچھ سماجی تنظیموں نے اس کی اصلاح کے لئے چرچ پر بھی ذمہ داری عائد کی ہے۔ اسی طرح مساجد کو بھی اس کلچر کی اصلاح کے لئے اپنا رول ادا کرنے کو کہا گیا ہے۔ ساتھ ہی یہ بھی کہا گیا ہے کہ یہ مذہبی ادارے نوجوانوں کو ایسا مذہبی درس نہ دیں جس سے بچے کا ذہن سماجی طور پر Isolation کا شکار ہو۔ کیونکہ اپنا علیحدہ مذہبی کلچر بنانے کی کوشش میں وہ معاشرے سے متصادم رویہ بنا بیٹھتے ہیں اور کچھ نوجوان ردعمل میں اسی گینگ کلچر کا حصہ بن جاتے ہیں۔ یوں تو اس ماحول میں سوشل پسماندگی بھی پائی جاتی ہے۔ وہاں بچے اپنے والدین اور دیگر فیملی کو اس قابل نہیں سمجھتے کہ انہیں اپنے باہر کے ماحول کے بارے میں اعتماد میں لیں اور فیملی کو بہت کم یا بہت دیر سے پتہ چلتا ہے کہ ان کا بچہ باہر کس قسم کے خطرناک ماحول میں وقت گزار رہا ہے۔ یا اس کے دوستوں کا حلقہ کس قسم کا ہے۔ گورے اور سیاہ فام فیملی کے بچے تو اس کلچر میں مبتلا ہی اس لئے ہوتے ہیں کہ ان کے گھر کے ماحول میں انہیں وہ Involvement نہیں ملتی جو انہیں اس کم عمری میں ملنی چاہئے۔ جبکہ ایشیائی پس منظر کے خاندانوں کے بچے والدین کی عدم دلچسپی کے باعث معاشرے میں طاقتور بنانے کے لئے اس کلچر کی طرف دھکیلے جاتے ہیں۔ اب گزشتہ دھائی میں کسادبازاری کی وجہ سے نوجوان جرائم کی طرف زیادہ راغب ہورہے ہیں۔ کیونکہ تعلیم پر مختص فنڈز کے اجرا میں کمی کی جارہی ہے اور مزید سے مزید تر CUTS غیر معیاری سرگرمیوں کا سبب بن رہے ہیں۔ ایسے میں والدین اور معاشرے کے بڑوں پر زیادہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ کمیونٹی کی سرگرمیوں میں خود کو زیادہ شامل کریں۔ اور ہر فرد اس ماحول میں دھکیلے جانے کے اسباب کے خاتمے کے لئے ذمہ داری اور حساسیت کا مظاہرہ کرے تاکہ اس گینگ کلچر کا ذہن بننے سے نوجوان بچ سکیں۔
تازہ ترین