• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
برطانیہ میں ایک گمنام سا اخبار نکلتا ہے جس کا نام ہے پازیٹیو نیوز یعنی مثبت خبریں۔ اس اخبار کی رائے ہے کہ دنیا میں بہت سی اچھی، امید افزا اور حوصلہ افزا خبریں بھی ہوتی ہیں جنہیں یہ عام اخبار اہمیت نہیں دیتے۔ اس بے چارے اخبار کی شہرت اور مقبولیت کا یہ عالم ہے کہ بی بی سی کی تاریخی عمارت بُش ہاؤس کی اے ٹی ایم مشین کے پاس کوئی شخص اس کی سو ڈیڑھ سو کاپیاں چھوڑ جاتا تھا۔ کچھ آتے جاتے لوگ اٹھا کر دیکھتے تھے اور واپس اسی جگہ ڈال جاتے تھے۔ باقی نسخے ویسے ہی کورے کے کورے رکھے رہ جاتے تھے یہاں تک کہ اگلا شمارہ چھپ کر آ جاتا تھا اُسی بے رخی کے ایام بھگتنے کے لئے۔ایک بار کسی بہت بڑے ایڈیٹر نے کہا تھا کہ بدقسمتی سے اچھی خبر بڑی خبر نہیں بنتی۔ یہ سچ ہے۔ میں دل کے ایسے مریضوں کو جانتا ہوں جنہیں ڈاکٹروں نے مشورہ نہیں بلکہ حکم دیا ہے کہ اخبار پڑھنا چھوڑ دیں۔ ایک بار برطانیہ کے ٹیلیویژن کے ایک نیوز ریڈر نے یہ کہہ کر استعفیٰ دے دیا تھا کہ مجھے ایسی خبریں پڑھتے پڑھتے قے آنے لگی ہے جن کو پڑھ کر اور سن کر دل ڈوبنے لگتا ہے اور کیا دنیا سے اچھی خبریں اُٹھ گئی ہیں، لہٰذا میں اپنے اس منصب سے مستعفی ہوتا ہوں۔
اس میں کوئی شک نہیں ۔ ذرا سوچئے کہ پاکستان کے اخبار لفظ ’ہلاک۔ ہلاک‘ لکھتے لکھتے تنگ آگئے ہیں اور اس تکرار سے اُکتا کر وہ اس کی بجائے ’ جاں بحق‘ لکھنے لگے ہیں۔ تو آج یوں کرتے ہیں کہ فضاؤں میں کوئی تازہ خوشگوار جھونکا ڈھونڈتے ہیں۔ ذرا سا دھیان ہٹے تو تھوڑا سا دل ٹھہرے اور سارے وجود پر اترنے والے اندھیروں میں کوئی کرن پھوٹے اور اس بلا کے سنّاٹے میں کہیں کسی نے کی ایسی لے سنائی دے جو کسی نالے کی پابند نہ ہو۔
پچھلے دنوں عجب واقعہ ہوا۔ کراچی سے برادرم شریف اعوان اور ان کی اہلیہ ملاحت اعوان اعلیٰ اور نفیس کلاسیکی موسیقی سے بھری جھولی لے کر لندن آئے اور پاکستان کے سفارت خانے میں ایک محفل آراستہ کی جس میں انہوں نے سُروں اور تانوں کی یہ جھولی انڈیل دی۔ وطن سے آیا ہوا تو ہوا کا جھونکا بھی عزیز ہوتا ہے۔ لوگوں نے اس شام کے لطف کو ہاتھ سے جانے نہ دیا۔ دونوں اعوانوں کے قائم کئے ہوئے ادارے ’تہذیب فاؤنڈیشن‘ نے انڈس راگ کے عنوان سے جو بارہ سی ڈی ترتیب دیئے ہیں ان میں سے راگ راگنیوں کا خزانہ ابل پڑا۔ اس میں کیسے کیسے گلوکار اور ایک سے بڑھ کر ایک سازندہ یوں صف آراء ہیں کہ برصغیر میں کلاسیکی موسیقی کی تمام عظیم روایات جاگ اٹھیں اور کیا خیال اور کیا درت، کیا ٹھمری اور کیا دادرا، سارے کے سارے جی اٹھے۔انڈس راگ کا ذیلی عنوان ہے ’سرحدوں سے پرے‘ اور حقیقت بھی یہی ہے کہ انہوں نے فتح علی خان سے لے کر وشوا موہن بھٹ تک ایسی ایسی ہنرمند ہستیاں یکجا کردی ہیں کہ عرصہ دراز تک فضاؤں میں ان کی تانیں گونجا کریں گی۔
موسیقی کا قصہ تو سیدھا سادہ ہے۔
جولیس سیزر نے کہا تھا کہ موسیقی روح کی غذا ہے، بادشاہ سے بھول ہوئی روح کا دوسرا نام موسیقی ہے۔
یہ جو سینے میں سازینہ بج رہا ہے، یہ جو نبض میں تھاپ سنائی دے رہی ہے، یہ جو کائنات کے ذرّے ذرّے میں کچھ دھڑک رہا ہے، اسے آپ چاہیں تو روح کی علامت قرار دے دیں اور چاہیں تو موسیقی کہہ لیں۔
ایک آسمانی صحیفے میں لکھا ہے کہ جب کائنات میں کچھ نہ تھا تو لفظ تھا۔ ہم بھی مانتے ہیں کہ وہ لفظ ادا کیا گیا تو کائنات بنی۔ مگر ذہن تسلیم نہیں کرتا کہ وہ لفظ سپاٹ اور بے سُرا ہو گا۔ جو کوئی اُس لفظ کا خالق ہے، اگر وہی پرندوں کا بھی خالق ہے، اگر دریا اسی نے بہائے ہیں، اگر جھرنے وہی گراتا ہے اور اگر زمین کی سطح سے لگی ہوا وہی چلاتاہے تو اُس کا تخلیق کیا ہوا لفظ کسی نہ کسی سُر سے وابستہ ضرور ہوگا۔ ہمارے ارد گرد جیسے ہوا متحرک ہے اور جیسے فضا رقصاں ہے بالکل اسی طرح ہم محسوس کریں یا نہ کریں، کوئی نہ کوئی سُر ہمارے اطراف میں موجود ہے جس کاایک خفیف ساجھونکا ہم سے چھو جائے تو روح میں سرور سا بھر دیتا ہے اور زندگی کی ساری علامتیں جھومتی ہوئی محسوس ہوتی ہیں۔ وہ عالم ہوتا ہے جب عشق میں غرق صوفی رقص میں محو ہو جاتا ہے۔ وہ اپنے قدم نہیں اٹھاتا، یہ قدم آپ ہی آپ اٹھتے ہیں۔ ہمارے بزرگوں نے اس میدان میں جو کارنامے انجام دیئے ہیں اُن کا کوئی شمار ہے؟ انہوں نے راگ ایجاد کئے، راگنیاں سجائیں، ساز بنائے اور ان میں شیرینی بھری ۔ محفلوں کے آداب وضع کئے، گائیکی کے سلیقے طے کئے اور جس فن کو دل بہلانے کا ذریعہ سمجھا جاتا تھا اس کو علم کا درجہ دے کر جو اس سے بھی بڑا کمال کیا وہ یہ کہ اپنا یہ فن آنے والی نسلوں کو سونپ گئے۔ اس علم کو کانوں کے راستے سینوں میں یوں اتارا کہ نہ کسی ٹیپ ریکارڈر کی ضرورت رہی نہ کسی ڈیجیٹل ریکارڈنگ کی حاجت رہی۔ سب موجود ہے ، ثابت وسالم، جوں کا توں۔اب جو دنیا سمٹ رہی ہے تو ہماری موسیقی نے اپنا اعجاز دکھایا ہے اور وہ یوں کہ یہ سرحدوں کو پھلانگ رہی ہے، علاقوں کی پابندی توڑ رہی ہے، کیا مشرق اور کیا مغرب ، اس نے سارے امتیاز مٹا دیئے ہیں۔ دنیا لالہ موسیٰ سے لاس اینجلس تک اس سے محظوظ ہو رہی ہے، دو شہروں کے نام آئے ہیں تو یہ بھی سن لیجئے کہ دونوں مقامات پر پرانے استاد نوجوانوں کو تعلیم دے رہے ہیں۔ لاس اینجلس میں تو سرود ، ستار اور طبلہ سکھانے کے ادارے کھلے ہوئے ہیں اور یوں یہ جادو سر چڑھ کر بول رہا ہے۔
اب جو بات کہنے کی ہے وہ یہ کہ سُروں اور تانوں کو چاردانگ عالم میں پھیلانے میں بڑاہاتھ چند ایک دیوانوں کا ہے۔ عام طور پر کہا جاتا ہے کہ دنیا میں کچھ نیک لوگ موجود ہیں جو دنیا کا نظام چل رہاہے۔ اس جملے میں ایک ذرا سی ترمیم کی ضرورت ہے اور وہ یہ کہ دنیا میں کچھ دیوانے موجود ہیں جو اپنی دھن میں مگن اپنے کام سے کام رکھے ہوئے ہیں اور جنہیں نہ صلے کی پروا ہے نہ کسی اعزاز کی تمنا۔ اس مقام پر پہنچ کر میں کتنے ہی نام لے سکتا ہوں جن کو سن کر جبینِ عقیدت جھک جاتی ہے۔ ان میں سے کئی ایک ہماری دنیا سے سدھار گئے ہیں لیکن ہمارے دل و دماغ میں ان کے قدموں کی چاپ آج تک سنائی دیتی ہے۔
آج کا ذکر مخصوص ہے شریف اعوان کے لئے جنہوں نے خاموشی سے ایک ایسا بڑا کارنامہ انجام دیا ہے کہ وہ عرصہ دراز تک یاد رکھا جائے گا۔ شریف اعوان نے تہذیب فاؤنڈیشن قائم کی ہے جس کا ایک ہی مقصد ہے: موسیقی ، ادب اور فنون ِ لطیفہ کی ترقی اور ترویج۔ انہوں نے اپنی بے مثال ریکارڈنگز محفوظ کردی ہیں۔ اب صورت یہ ہے کہ مجھے نہ پٹیالہ گھرانے سے غرض ہے نہ آگرہ گھرانے سے ، نہ مجھے شام چوراسی گھرانے کی فکر ہے نہ دہلی گھرانے کی کیونکہ خیرسے یہ سارے گھرانے سمٹ کر میرے گھرانے میں آگئے ہیں۔ کیا راگ مشرا پیلو اور کیا راگ جھنجوٹی، کیا بہاگ اور کیا درباری، کیا ایمن اور کیا شیام کلیان، یہ سارے کے سارے میری چھوٹی سے اسٹڈی میں آراستہ ہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ اپنی نا سمجھی پرمجھے ہنسی بھی آتی ہے۔ کومل سُرکیا ہوتا ہے اور تیور کس بلا کا نام ہے،میرے فرشتوں کو بھی خبر نہیں، اس کے باوجود جھوم رہا ہوں ۔ بعض ٹریک بار بار چلا کر سن رہاہوں اور سوچ رہا ہوں کہ گانے اور بجانے والے نے میری روح کی گہرائی میں جس ٹھکانے تک پہنچنا چاہا تھا، وہ تو بڑی چابک دستی سے پہنچ گیا، اب مجھے اس سے کیا کہ وادی سُر کیا ہوتا ہے اور سموادی سُر کیا؟
یہی کلاسیکی موسیقی کا سحر ہے۔ ویسے بھی جس موسیقی کو ہم کلاسیکی کہتے ہیں اس کو سراہنا ہر ایک کے لئے ممکن نہیں مگر اس میں شک نہیں کہ اسی زمین پر ہمارے نغموں کے گل و گلزار سنوارے جاتے ہیں۔برادرم شریف اعوان نے اس شاندار موسیقی کے جو سی ڈی تیار کئے ہیں ان کو میں خزانہ یوں کہتا ہوں کہ بڑے بڑے استاد اور ماہر ان میں موجود ہیں جنہیں عام حالات میں سننا ممکن نہیں لیکن اب تو یوں ہے کہ ہم انہیں اپنے گھر لے آتے ہیں اور اپنی سہولت سے سنتے ہیں۔ اعوان صاحب کے تیارکئے ہوئے البم میں استاد رئیس خان کے ستار سے لے کر حامد علی خان کی ٹھمری تک اتنی نایاب چیزیں اکٹھا کر دی گئی ہیں کہ عقل بھی حیران ہوتی ہے اور ذوقِ لطیف بھی۔
اس البم کی دو تین باتیں ذرا سی توجہ چاہتی ہیں۔ اس میں کہیں بھی،کسی بھی خاتون کی آواز شامل نہیں۔ کیا روشن آراء بیگم کے بعد تاریکی ہی تاریکی ہے؟ البتہ اس میں ایک حیرت انگیز کام بھی ہوا ہے اور وہ یہ کہ بنجو جیسے ساز کو، جسے عموماً غریب لوک فنکار بجایا کرتے تھے، سنوار کر اُس میں ستار کی خوبیاں ڈال دی گئی ہیں اور یہ کارنامہ ممتاز علی سبزل نے سرانجام دیا ہے۔ اس کو سراہا اور فروغ دیا جائے تو کتنا اچھا ہو۔ تیسری بات یہ کہ شاید ہم نے جل ترنگ کو بھلا دیا ہے۔ پانی سے بھرے اُن چینی کے کٹوروں سے کیسے کیسے سُر نکالے جاتے تھے، مجھے یاد ہے۔ جل ترنگ پورے ہی جنوبی ایشیاء سے رخصت ہو رہا ہے۔اسی طرح قدیم دلّی والوں سے ہم پکھاوج کا اور بڑے بڑے پکھاوجی استادوں کا ذکر تو سنتے ہیں مگر خود پکھاوج لاپتہ ہے۔ روہیلوں کی چاربیت کی طرح بہت کچھ وقت کے دھندلکوں میں گُم ہو رہا ہے۔
شریف اعوان سے ہمیں امید ہے کہ وہ اس کی بھی کوئی نہ کوئی راہ ڈھونڈ نکالیں گے ۔ وہ سرکاری افسر ہیں۔عام طور پر خیال یہی ہوتا ہے کہ ایسے لوگوں کا اعلیٰ موسیقی سے کیا کام۔ مگر عشق ان باریکیوں میں نہیں پڑا کرتا۔ اسی عشق نے ان سے یہ کام کرایا ہے جس میں محبوب کا کردار ان کی شریکِ حیات ملاحت نے ادا کیا ہے ۔ وہ نہ ہوتیں تو ایسا ہی ہوتا جیسے کھانا تو ہو، اس میں نمک نہ ہو۔
تازہ ترین