• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ایک مچھلی سارے ’’جل ‘‘(تالاب) کو گندا کر دیتی ہے‘ اسی طرح ایک نفرت بھرے دل کا نفسیاتی مریض اگر بدقسمتی سے اقتدار تک پہنچ جائے تو پوری قوم کو پراگندہ اور دنیا کا امن تباہ کر سکتا ہے۔ بہت دن نہیں گزرے جب تاریخ کے نازک موڑ پر قدرت نے امریکہ کو انتہائی بہادر اور بیدار مغز قیادت سے نوازا۔ اگرچہ وہ پیشہ ور اداکار تھا لیکن فطرت نے اسے اولو العزم قائد اور بیدار مغز سیاستدان کی خوبیوں سے بھی نواز رکھا تھا۔ امریکہ کا سب سے بڑا حریف اور طاقت ور دشمن روس صدر کارٹر کی کمزور شخصیت کا فائدہ اٹھا کر دنیا پر اپنی برتری قائم کرنے کی صدیوں پرانی خواہش کی تکمیل کیلئے افغانستان پر حملہ آور ہو گیا۔ اب وہ پاکستان کے راستے بحیرۂ عرب تک پہنچ کر نہ صرف امریکہ پر فوجی اور اقتصادی برتری کا خواہش مند تھا بلکہ مسلمانوں پر نظریاتی یلغار کا بھی ارادہ رکھتا تھا‘ جس کے ایک حصے پر پہلے ہی قبضہ کر کے ان کے نظریات کو بدل دینے کی کامیاب کوشش کر چکا تھا۔ قدرت اس وقت امریکہ پر مہربان تھی اور شاید اسے پاکستان اور افغانستان کی سلامتی بھی منظور تھی۔ اسی لئے یک بیک دنیا بھر کے مسلمانوں کی ہمدردیاں بیدار ہو گئیں اور افغانستان کے مزاحمت کار مجاہدین کے پشت پر آن کھڑے ہوئے۔ امریکہ میں انہی دنوں بہترین صدور میں سے ایک کو اقتدار حاصل ہو گیا ’’رونلڈ ریگن‘‘ جس پر بجا طور پر امریکی قوم فخر کرتی ہے۔ چنانچہ امریکہ پاکستان اتحاد‘ جس نے مسلم دنیا اور یورپ کی مدد سے روس کے ارادوں کو خاک میں ملا دیا۔ اس عبرتناک انجام نے روس کو علاقائی سیادت سے بھی محروم کر دیا۔ اب امریکہ دنیا کی واحد ’’سپر پاور‘‘ تھا‘ اس کا کوئی ثانی تھا نہ مقابل۔ ریگن کا عہد صدارت ختم ہونے تک امریکہ تن تنہا ’’نیو ورلڈ آرڈر‘‘ جاری کرنے لگاتھا۔ ریگن کا مدت صدارت ختم ہوئے چار برس گزرے تھے کہ امریکہ کو پھر ایک اچھے منتظم اور ہردلعزیز صدر کی قیادت میسر آ گئی‘ یہ صدر ’’بل کلنٹن‘‘ ہی تھے جنہوں نے آٹھ سال کی مدت میں ملک کو خوشحال بنا دیا‘ اب امریکہ فوجی طاقت اور اقتصادی خوشحالی کا بہترین زمانہ دیکھ رہا تھا۔ بجٹ منافع میں تھا‘ بیروزگاری کی شرح کمترین درجے میں چلی گئی تھی‘ خزانے میں اتنے ڈالر جمع تھے کہ اگلے تیس برس کیلئے راوی چین ہی چین لکھتا تھا۔ صرف دو افراد کی سولہ سالہ مدت صدارت نے امریکہ کو دنیا کی واحد ’’سپر پاور‘‘ ہونے کا اعزاز دلایا اور خوشحالی کے دروازے بھی کھول دیئے۔ پوری دنیا کا ہر ملک امریکہ کے حلقہ اثر میں داخل ہو چکا تھا‘ حتیٰ کہ روس اور چین بھی۔ یہی سولہ سال امریکی قوم کا نقطہ عروج ہے۔ عقل یہ بات(راز) جاننے سے قاصر ہے کہ ایک چیمپئن کو جبکہ وہ دنیا کا سب سے بڑا اور اچھا کھلاڑی ہونے کا اعزاز حاصل کر چکا ہو‘ اسے طاقت بخش ادویات کھانے کی ضرورت کیوں پیش آتی ہے؟ جبکہ اس کے استعمال میں بڑے خطرات ہیں‘ سب سے فوری خطرہ سارے اعزاز اور چیمپیئن شپ چھن جانے کا ہے۔ پھر بھی مزید کے لالچ میں عزت و وقار کیساتھ کھیل کے میدان سے بھی رسوائی کیساتھ نکالے جاتے ہیں۔ یہی صورتحال امریکہ پر بھی صادق آتی ہے۔ اکلوتی ’’سپر پاور‘‘ ، خزانہ بھرپور‘ قوم خوشحال‘ عالمی سیادت حاصل ہے‘ کمیونسٹ حریف زیر ہو چکے ہیں‘ مسلم ملکوں کے حکمران بندۂ بے دام‘ مغربی یورپ پہلے ہی دم چھلا تھا‘ اب مشرقی بھی نیاز مندوں میں آن شامل ہوا ‘ایسی بے بدل قوت اور عالمی اقتدار کے بعد وہ کیا تھا جس کو حاصل کرنے کیلئے امریکہ نے افغانستان کے میدان جنگ کو گرم کرنے کا فیصلہ کیا؟ بنیاد پرست ’’نیو کون‘‘ سراپا سازش ‘ سی آئی اے اور احمق جارج بش کی ٹرائیکا نے پوری دنیا جو خوشدلی سے زیر اثر تھی‘ طاقت اور جبر کے ذریعے اسے غلام بنانے کی سازش کی۔ اس اتحاد ثلاثہ کے نزدیک افغانستان بہترین میدان جنگ تھا کہ روس نے حال ہی میں یہاں شکست کھائی‘ اس پر بزور قبضہ پوری دنیا پر فاتحانہ برتری ثابت ہوگا‘ وہ گزرگاہیں بھی قبضے میں آ جائیں گی جن کی آرزو روس کو تین صدیوں سے قدم بہ قدم اس طرف لا رہی تھیں۔ اس طرح چین کے گرد گھیرا تنگ ہوگا‘ روس کے مشرقی ہمسائے امریکہ کی جاگیر بن جائیں گے‘ مسلمانوں کے خلاف ’’تہذیبوں کی جنگ‘‘ شروع ہونے سے پہلے ہی جیت لی جائے گی‘ بنیاد پرست عیسائیوں اور منہ زور خفیہ ایجنسی نے امریکی فوج کو اس دلدل میں لااتارا جو عالمی طاقتوں کا قبرستان کہلاتی ہے‘ اس سے پہلے کہ اس قبرستان میں ایک ’’نوگزے‘‘ کی قبر کا اضافہ ہوتا‘ ایک دفعہ پھر خوش قسمتی نے امریکہ کے دروازے پر دستک دی‘ اب کے بار افریقن نژاد عیسائی ماں اور عرب مسلمان کا بیٹا ’’باراک حسین اوبامہ‘‘ تھا جو اس لنڈورے چوہے کی جان بچا لایا‘ یہ دانش مند امریکی صدر اپنی مدت صدارت ابھی ختم نہیں کر پایا کہ پھر سے ’’بدقسمتی اور ستاروں کی نحوست‘‘ نے امریکہ کو آن گھیر اہے۔ اب کے بار یہ نحوست ایک جاہ طلب ارب پتی‘ نفسیاتی مریض کی شکل میں ظاہر ہو رہی ہے‘ جس کے جسم میں ’’ہٹلر‘‘ کی روح نے حلول کیا ہے۔ وہ امریکی انتخابات میں صدارت کا امیدوار بن کر آیا ہے ‘ ابھی ابتدائی مراحل بھی طے نہیں ہوئے کہ ’’ملکوں ملک‘‘ امریکہ سے بدظن ہونے لگے ہیں‘ قریبی اتحادی بھی تشویش میں مبتلا ہیں اور ہمسایوں کیساتھ تو باقاعدہ جنگ کا سماں بنتا نظر آتا ہے۔ بات یہیں پر ختم نہیں ہوگی بلکہ ملک کے اندر انتشار پھیل جائے گا‘ مختلف گروہ‘ نسلوں‘ رنگوں اور قومیتوں میں کشیدگی پید اہونے لگی ہے۔ سب سے پہلے مسلمانوں کے خلاف نفرت انگیز بیانات دیئے‘ پھر میکسیکو اور دیگر ہمسایہ ملکوں کی سرحدوں پر دیوار تعمیر کرنے کا نعرہ بلند کر کے ’’سپینش‘‘ بولنے والوں کو للکارا‘ انڈیا کے بارے میں کہا کہ انہیں بھی نکال باہر کیا جائے گا کیونکہ ان لوگوں نے امریکیوں کے روزگار ہتھیا لئے ہیں۔ یہ بھی فرمایا کہ اگر میں کھلے عام قتل کر کے آ جائوں تب بھی لوگ مجھے ووٹ دیں گے۔ انڈیا کی انتہا پسند تنظیم ’’شیوسینا‘‘ اور ان کے لیڈر بال ٹھاکرے کی طرح موصوف کا سارا زور ’’سفید فام‘‘ عیسائیوں کو رام کرنے تک ہے‘ باقی ساڑھے سینتیس فیصد(37½ فیصد) اقلیتیں قابل گردن زنی قرا رپائیں۔ اس کی ان انتہا پسندانہ اور غیرذمہ دارانہ تقریروں سے ’’ریپبلکن پارٹی‘‘ میں بھی اضطراب شروع ہوا تو اس کو بھی دھمکا ڈالا۔ گزشتہ روز اپنے خطاب میں کہا کہ ’’اگر میری نامزدگی کو روکا گیا تو شہر شہر خون ریز ہنگامے شروع ہو جائینگے۔‘‘ الیکشن کے ہنگام ایسا خطرناک رویہ ہٹلر نے بھی اختیار نہیں کیا تھا‘ جس کی یہ ابتدا ہے اس کی انتہا کا اندازہ بخوبی لگایا جا سکتا ہے۔
ڈونلڈ ٹرمپ کی نفرت انگریز تقریروں کی وجہ سے شکاگو‘ کلیولینڈ‘ اوہائیو کے جلسے ہنگامہ آرائی کی نذر ہو گئے ‘ جس پر ڈیموکریٹک صدارتی امیدوار ’’ہیلری کلنٹن ‘‘نے کہا ہے کہ ’’ماچس سے کھیلو گے تو ایسی ہی آگ لگے گی‘ مگر یہ آگ امریکہ کے امن و آشتی کو تو بھسم کر ہی ڈالے گی۔‘‘ امریکی پوری دنیا میں سب سے زیادہ غیرمتعصب اور سادہ اطوار لوگ ہیں۔
ان کے دلوں میں خوف اور سوچ میں زہر اتارنے والے امریکہ کے دوست ہیں نہ عالمی امن کے خیرخواہ۔
امریکہ کی حکومت اور خفیہ اداروں کو چوکس رہنا چاہئے کہ کوئی بیوقوف دوست یا چالاک دشمن ’’ٹرمپ‘‘ پر حملہ آور ہو سکتا ہے‘ جس کی وجہ سے امریکہ میں خطرناک ہنگامے پھوٹ پڑیں گے۔ خود ریپبلکن پارٹی کسی مرد معقول کو جلد انتخاب میں اتارنے کا اہتمام کرے‘ اس سے پہلے کہ بہت دیر ہو جائے۔ایک مچھلی سارے ’’جل‘‘ کو گندا کر دیتی ہے‘ امریکہ کا شفاف ’’ساگر‘‘ ایک مچھلی کے دم سے بدبو دینے لگا ہے۔
پس تحریر : نیویارک اور ایریزونا میں ڈونلڈ ٹرمپ کے خلاف احتجاجی ریلیاں نکالی گئیں‘ سنجیدہ حلقوں نے ان کی نفرت آمیز تقریروں اور غیرذمہ دارانہ طرز عمل پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔ خیال کیا جاتا ہے کہ ریپبلکن پارٹی کی طرف سے موصوف کی نامزدگی کے امکانات کم ہوتے جا رہے ہیں۔
تازہ ترین