• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
گزشتہ کچھ عرصہ سے ملک کے سیاسی حلقوں میں یہ بحث چل رہی ہے کہ پارلیمانی نظام کی بجائے صدارتی نظام لایا جانا چاہئے جس میں ایک صدر مکمل انتظامی اختیارات کے ساتھ حکومت کرسکے۔ پارلیمانی اور صدارتی نظام دونوں ہی جمہوری ہیں اور اس بحث میں کوئی حرج نہیں کہ ہمارے ملک کو کون سا نظام زیادہ بہتر نظام حکومت دے سکتا ہے لیکن عمومی مسئلہ یہ ہے کہ ہمارے ہاں بحث سطحی اور عمومی رہتی ہے اور اس طرح کے سنجیدہ موضوعات کے لئے جس انہماک اور گہرائی کی ضرورت ہے وہ ندارد ہے۔ مثلاً اگر آپ صدارتی نظام لانا چاہتے ہیں تو پہلے یہ دیکھنے کی ضرورت ہے کہ کیا موجودہ نظام پارلیمانی ہے؟ پارلیمانی نظام میں وزیر اعظم کی حیثیت First among the equalsکی ہوتی ہے، کیا ہمارے ہاں وزیر اعظم اس اصول پر کام کرتے ہیں؟ دیکھا جائے تو ہمارا نظام پہلے ہی عملاً صدارتی نظام ہے جہاں وزراء کی حیثیت جوکر سے زیادہ نہیں، گزشتہ سات ماہ سے کابینہ کی میٹنگ بھی نہیں ہوئی۔ وزیر اعظم کے پرنسپل سیکرٹری وفاقی کابینہ کے ایک آدھ وزیر کو چھوڑ کر سب سے طاقتور ہیں۔ وزیر اعظم ہائوس عملی طور پر صدارتی محل ہی ہے۔وزیر اعظم سیکرٹریٹ بھی، وفاقی حکومت بھی اور پارلیمان بھی، پارلیمانی نظام میں اختیارات کا جو تعین آئین نے طے کیا ہے عملی طور پر موجود ہی نہیں ہے۔ پارلیمانی نظام کے دو اہم ترین ادارے یعنی پارلیمنٹ اور کابینہ عملی طور پر بے وقعت ہیں۔ ان کی اہمیت صرف وزیر اعظم کو ضرورت کے وقت سیاسی حمایت دینا ہے۔ پچھلے سال میں لندن سے پاکستان آرہا تھا تو اسپیکر قومی اسمبلی ایاز صادق بھی ہم سفر تھے۔ان سے میری پارلیمان کے کردار پر تفصیل سےگفتگو ہوئی ،لمبا راستہ تھا اور کاٹنا تھا ، سپیکر صاحب نے کافی باتوں سے ہم رائے ہونے کا اظہار کیا، خوش فہمی میں، میں نے انہیں ایک طویلPaperبھی لکھ کر بھیجا کہ دنیا میں پارلیمان کی کمیٹیاں فنکشن کس طرح کرتی ہیں لیکن سپیکر صاحب کی پارلیمان کو طاقتور بنانے کی خواہش صرف سفر کاٹنے کا وسیلہ ہی ثابت ہوئی اور اصلاحات کا معاملہ منڈے کیا چڑھنا تھا اس پر کنڈی ہی لگی ہے۔
یہ معاملہ صرف موجودہ حکومت تک محدود نہیں ، پیپلز پارٹی کی حکومت میں وزراء اعظم تو بالکل صدارتی محل کے دھاگوں سے بندھی تتلیاں تھے۔ تمام فیصلے صدر مملکت کے سیکرٹری سلمان فاروقی اور ہم نوا کرتے تھے اور وزراء اعظم سے صرف دستخط لئے جاتے تھے۔ دریں حالات یہ کہنا کہ ملک میں پارلیمانی نظام ہے خود کو دھوکا دینے والی بات ہے، ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ انتخابی نظام ہمارا پارلیمانی ہے لیکن حکمرانی کا نظام بہرحال صدارتی ہے، اگر سویلین حکمرانی کے ڈھانچے کا جائزہ لیں تو معلوم ہوگا کہ سویلین حکمرانی نظام کے چاروں ادارے یعنی کابینہ، پارلیمان، عدلیہ اور بیوروکریسی چاروں ہی عملی طور پر ناکارہ یاNon functionalہیں۔ زیر نظر مضمون چونکہ پارلیمان اور صدارت کے موضوع پر ہے اس لئے عدلیہ اور بیوروکریسی کا معاملہ آئندہ کے لئے اٹھا رکھتے ہیں، صرف یہ ذہن نشین کرلیجئے کہ نظام پارلیمانی ہو یا صدارتی اگر اس کے تمام کل پرزے کام نہیں کررہے یعنی Functionalنہیں ہیں تو وہ امیدوں پر پورا نہیں اتر سکے گا، لہٰذا عدلیہ اور بیوروکریسی میں بڑی اصلاحات کے بغیریہ بحث ادھوری ہی رہے گی کہ نظام کو چلایا کیسے جاسکتا ہے۔
اب آجائیے صدارتی نظام کی طرف دنیا میں جدید ترین اور ماڈرن خیال کیا جانے والا صدارتی نظام امریکہ کا ہے لیکن امریکی نظام کو کامیابی کے جو عوامل امریکہ میں میسر ہیں کیا پاکستان میں ایسا ہی ہے؟ جواب ہے کہ ایسا نہیں ہے، صدارتی نظام کے لئے پہلی شرط یہ ہے کہ ملک ایسی ریاستوں یا صوبوں میں منقسم ہو جو انتخابی نظام میں ایک توازن(Fair play)قائم کرے۔ کیلفورنیا امریکہ کی سب سے بڑی ریاست ہے لیکن وہ اتنی بڑی نہیں کہ طاقت کا توازن بھی اس میں ہو۔ پاکستان میں60فیصد آبادی کا مسکن پنجاب ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ پنجاب بھی صدارتی امیدوار طے کرے گا، ظاہر ہے اس طرح کا نظام ایک وفاق میں لامحدود عرصے تک چلنا ناممکن ہے لہٰذا اگر آپ صدارتی نظام لانا چاہتے ہیں تو پہلی بنیادی شرط نئے صوبے ہیں، اگر پاکستان میں24ڈویژنز کو نئے صوبے قرار دیا جائے تو آپ آبادی کا ایک نیا توازن قائم کرسکیں گے۔ صدارتی نظام میں ایک فائدہ جو بار بار بتایا جاتا ہے وہ یہ ہے کہ صدر اپنی کابینہ میں اہل، پڑھے لکھے اور ماہر لوگوں کو لے سکتا ہے جو کہ پارلیمانی نظام میں ممکن نہیں ،کیونکہ وزراء کو اراکین اسمبلی سے لگانا ہوتا ہے، دوبارہ عملی طور پر دیکھیں تو نواز شریف صاحب ہوں یا آصف علی زرداری کبھی بھی منتخب اراکین کو اہم ذمہ دار یاں نہیں دیتے۔
دونوں کے اصل مشیران زندگی میں کونسلر بھی منتخب نہیں ہوئے ویسے یہی ہمارا آئین وزیر اعظم اور وزراء اعلیٰ کو کہنا ہے کہ پانچ مشیران جو کہ عملی طور پر منتخب وزراء جیسے بھی طاقتور ہوں گے مقرر کئے جاسکتے ہیں لیکن دلچسپ بات یہ ہے کہ ہمارے وزراء اعظم اپنے اصل مشیروں کو سامنے نہ لانا کہیں بہتر خیال کرتے ہیں۔ میری نظر میں اہم یہ نہیں ہے کہ صدارتی نظام ہو یا پارلیمانی نظام ، اہم یہ ہے کہ آ پ کیا کریں کہ آپ کے چار سویلین حکمرانی کی مشینیں یعنی پارلیمان ، کابینہ، عدلیہ اور بیوروکریسیFunctionalادارے بن جائیں۔ میری نظر میں اگر آپ نئے صوبے بناسکتے ہیں تو صدارتی نظام بھی لے آئیں کوئی حرج نہیں لیکن موجودہ نظام میں رہتے ہوئے بھی اصلاحات کی گنجائش ہے۔ ہمیں سب سے اہم اصلاح سیاسی جماعتوں میں چاہئے جہاں جمہوریت نام کی کوئی چیز موجود نہیں۔ آرٹیکل63-Aنے سیاسی جماعتوں میں آمریت کی نئی شکل کو باقاعدہ آئینی تحفظ دیا ہے لہٰذا سیاسی جماعتوں میں جمہوریت لانا ایک بڑا چیلنج ہے۔
اسی نظام میں ہم دوسری اصلاح یہ کرسکتے ہیں کہ سینٹ کو براہ راست ووٹوں سے منتخب کیا جائے یہ وفاق کی طاقت میں اضافہ کرے گا ۔ چھوٹے صوبے بنانا ایک اہم قدم ہوگا۔ پارلیمان کی کمیٹی اسٹرکچر کو موثر بنانا انتہائی اہم ہے۔ لب لباب یہ ہے کہ صدارتی اور پارلیمانی نظام کی بحث اتنی اہم نہیں جتنی یہ بات ا ہم ہے کہ ہم کیا کریں کہ کا بینہ، پارلیمان، عدلیہ اور بیوروکریسی ایکWell oiled machineryبن جائیں۔ ان چاروں اداروں کی کارکردگی پاکستان کی ریاست کی کامیابی اور ناکامی کا تعین کرے گی۔
تازہ ترین