• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
کراچی جل رہا ہے، روزانہ 10 سے 15 افراد ٹارگٹ کلنگ کے نام پر موت کے گھاٹ اتار دیئے جاتے ہیں، بھتہ خوری پر آئے دن تاجر وصنعت کار مظاہرے کررہے ہیں، اغوا برائے تاوان کی وارداتیں بڑھ رہی ہیں،کارخانے کراچی سے دوسرے شہر منتقل ہورہے ہیں، لوگ اپنی حفاظت کے لئے سیکورٹی گارڈز کی خدمات حاصل کررہے ہیں، عام آدمی حتیٰ کے خواتین بھی اس تذبذب کا شکار رہتی ہیں کہ ان کے بچے کل اسکول جائیں گے کہ نہیں جبکہ طالب علم اس بات کے شک میں گھرے رہتے ہیں کہ کل ہونے والا ان کا امتحان ہوگا کہ نہیں، تاجر حضرات ہروقت اسی خوف میں گھرے رہتے ہیں کہ کب بھتے کی پرچی آجائے یا پھر ہڑتال کی کال آجائے اور کاروبار بند نہ کرناپڑے۔ ٹرانسپورٹرز کو ہروقت یہ خوف رہتا ہے کہ اچانک کہیں فائرنگ نہ شروع ہوجائے اور کچھ شرپسند آکر ان کی بسیں اور ویگن کو نہ جلادیں ہرطرف افراتفری ہے ہر آدمی کے چہرے پر ایک انجانہ ساخوف ہے کہ پتہ نہیں کب کیا ہوجائے۔ آخرایسا کیوں ہے اور کیوں ہورہا ہے، اسی پر پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا نے بہت بحث کی۔ سپریم کورٹ نے بھی اس کا نوٹس لیالیکن بدقسمتی سے کراچی میں امن وامان کی صورتحال میں بہتری نہ آسکی بلکہ ہر دن گزرنے کے ساتھ ہی یہ صورتحال اور ابتر ہوتی جارہی ہے ایسا لگتا ہے کہ شہر میں اندھا قانون ہے قاتلوں کو، ڈاکووٴں کو، بھتہ خوروں، لینڈمافیا کو اور اغوا برائے تاوان کی وارداتوں میں ملوث بڑے ملزمان کو روکنے والا کوئی نہیں پورا شہر ان کچھ شرپسندوں کے حوالے کردیا ہے جوجب چاہے شہرکا امن برباد کردیتے ہیں۔
ایک جمہوری دور میں جب ملک کی سب سے بڑی سیاسی جماعت برسراقتدار ہو، جس کو عوام کا مینڈیٹ بھی حاصل ہو تو پھر شہرکی صورتحال کیوں خراب ہے اور امن وامان کو خراب کرنے والے ٹارگٹ کلرز کو گرفتار کیوں نہیں کیاجارہا۔ بھتہ خور آزاد کیوں پھر رہے ہیں۔ اس طرح کے اور کئی سوالات ہیں جو نہ صرف میرے ذہن میں بلکہ کراچی میں بسنے والے ہر آدمی کے ذہن میں یہی سوال ہے اور وہ اس کے جواب کا منتظرہے لیکن یہ جواب کب آئے گا اس بارے میں کچھ نہیں کہاجاسکتا تاہم ایک سوال جو میرے ذہن میں بار بار آتا ہے کہ کراچی کس کا شہر ہے۔ کراچی ملک کاواحد شہر ہے یہاں پورے ملک کے لوگ بستے ہیں اور ہر کوئی اس کو بے حد پیار کرتا ہے لیکن اس پیار کرنے والے شہر کو کس کی نظرلگ گئی، آئے دن 10 سے 15/افراد کیوں مار دیئے جاتے ہیں، بھتہ خوری کیوں ہورہی ہے، زمینوں پر قبضے کیوں ہورہے ہیں ، ہر آدمی بے یقینی کا کیوں شکارہے، کیاایسا کسی باقاعدہ منصوبے کے تحت کیاجارہا ہے، کیا جان بوجھ کر کراچی کو جلایا جارہا ہے ، وہ کون لوگ ہیں جو ایسا کررہے ہیں اور ان کو روکنا کس کی ذمہ داری ہے، یقینا حکومت اور پولیس ہی کی ذمہ داری ہے کہ جس کو پورا کرنے میں وہ اب تک ناکام رہی ہے۔یہاں پر یہ سوال جنم لیتا ہے کہ کیا کراچی کا امن تباہ کرنے والے حکومت اور قانون نافذ کرنے والے اداروں سے زیادہ طاقتور ہیں، یقینا ایسا نہیں ہے توپھرکیا وجوہ ہے کہ کراچی کے حالات کو بہتر بنانے میں حکومت ناکام ہے۔
میرے خیال میں کراچی کا اصل مسئلہ اس کی اونر شپ Owner Ship کاہے کراچی کو کوئی اون نہیں کرتا اسی لئے ایسا لگتا ہے یہ شہر لاوارث ہوتا جارہا ہے، اس کی خوبصورتی ختم ہوتی جارہی ہے۔ ایک زمانے میں روشنیوں کا شہر کہلانے والے کراچی کے شہری اب شہر میں آزادی اور بے خوفی سے گھومنے کے خواہاں ہیں کیونکہ اب ایسا دور نہیں ہے ، کسی سنسان گلی اور ویران راستے پر چلتے ہوئے ہر آدمی ڈرتا ہے کہ اس کو لوٹ نہ لیا جائے،پونے دو کروڑ کی آبادی کے اس شہر میں امن کب بحال ہوگا، ملک کی تمام بڑی سیاسی جماعتوں کی سرگرمیاں یہاں جاری ہیں لیکن شہر کو امن کا گہوارہ کوئی نہیں بنا رہا۔ کچھ سیاسی مبصرین کا کہنا ہے کہ کراچی کا مسئلہ سیاسی ہے اس کا حل سیاسی ہے، اگر تمام سیاسی جماعتیں چاہیں تو صورتحال بہت تیزی سے بہتر ہوسکتی ہے لیکن پھر بھی ایسا نہیں ہورہا ہے۔
ایسا کرنے کے لئے تمام سیاسی جماعتوں کو اپنے اختلافات بھلانے ہوں گے اور بھلا سیاسی جماعتیں اپنے اختلافات کیوں ختم کریں اگر وہ ایسا کردیں تو کیا 65 سالہ آپس میں اختلافات کی تاریخ کو ایک بڑا دھچکا لگ جائے گا ۔ اگر ان میں آپس میں اتفاق ہوجائے تو کراچی کیا پورا پاکستان ترقی کرنے لگے گا اور اگر ایسا ہوا تو پھر یہ سیاسی جماعتیں اپنی سیاسی دکان کیسے چلائیں گی، ان کا سارا کا سارا سیاسی کاروبار ختم ہوجائے گا، ظاہر سی بات ہے ان کو اپنا سیاسی کاروبار چلانا ہے تو آپس میں اختلافات کو برقرار رکھنا ہوگا لیکن کراچی سمیت پورے پاکستان کے عوام ملک میں امن وخوشحالی کے خواہاں ہیں لیکن وہ ان کو کب ملتی ہے اس کا جواب توہمارے سیاستدان ہی دیں گے لیکن کب؟
تازہ ترین