• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

میرے نزدیک کسی بھی قسم کے واقعہ، حادثہ یا تخلیق کی اہم وجہ اور بڑی خوبی کوئی ہوتی ہے تو وہ یہی کہ یہ واقعہ یا تخلیق پڑھنے یا سننے والے کو متحرک کردے کہ مجھ جیسے شخص کیلئے یہی زندہ رہنے کا جواز ہے۔ پاکستان میں وسیع الذہنی، کشادہ دلی ،تحمل و بردباری میں تو اضافہ نہیں ہوا البتہ ہمارا سماجی رویہ اور کردار انتہائی تنگ ہوتا گیا ۔ کتنی تعجب خیز بات ہے کہ ہم اپنی تنگ نظری اورکمزوریوں کو یہ کہہ کر نظر انداز کردینا چاہتے ہیں کہ ہمارے اسلاف بڑے لوگ تھے۔ ماضی کی درخشندگی کا احساس اقوام کےتشخص کیلئے ضروری تو ہے لیکن تیزی سے بدلتے ہوئے تہذیبی، تعلیمی اور سماجی منظر نامے میں ماضی کی یہ عظمتیں کسی قوم کے تشخص کی واحد پہچان نہیں ہوسکتیں، قوموں کا مجموعی تشخص تب تک نہیں بنتا جب تک عصری اور جدید علوم فکر و عمل کا حصہ نہ بن جائیں۔

موجودہ دنیا مختلف قسم کے اسباب اور احوال سے بھری پڑی ہے یہ اسباب و احوال ہم سے الگ اپنا وجود رکھتے ہیں اور آپ اپنے زور پر قائم ہیں ہم ان سے ہم آہنگ ہوکر اپنا مقصد حاصل کرسکتے ہیں ان کو نظرانداز کرکے منزل مقصود پر پہنچنا ہمارے لئے ممکن نہیں۔ اس کے لئےضروری ہے کہ آدمی میں مسئلے کا حل نکالنے کی طاقت فہم اور جرأت ہو، میرے حساب سے صرف تعلیم نہیں بلکہ اس تعلیم کا ایک ارفع ، ہمہ گیر، روشن خیال، وسیع اوردوررس تصور بھی ضروری ہے، تعلیم ایک سماجی پہلو، ایک ضابطہ حیات مقصدیت اور افادیت کی حامل ہے۔کوئی چیز اس سے زیادہ خطرناک نہیں کہ آدمی اپنے دل و دماغ میں صرف ایک ہی تصور رکھتا ہو۔ ون بک لائبریری تسخیر کا پیش خیمہ نہیں بن سکتی۔ دانشوروں اور تجزیہ نگاروں کی رائے یہ ہے کہ عصری تعلیم و تربیت ہی سے دہشت گردی کے جن کو قابو کیا جاسکتا ہے ۔ تعلیم دنیا میں امن قائم کرنے کے لئے اہم ہے کہ دہشت گر ی اور انتہا پسندی کو کتاب اور قلم سے ہی شکست دی جاسکتی ہے۔ آج دنیا کے سامنے سب سے بڑا مسئلہ تشدد کا پھیلتا ہوا دائرہ ہے۔ جس سے پاکستان بھی بری طرح متاثر ہورہا ہے۔ برصغیر کی تاریخ گواہ ہے کہ یہ ہمیشہ سے امن کاگہوارا رہا ہے اور دنیا کو بھائی چارے اور انسان دوستی کا سبق دیتا رہا ۔ آج اس برصغیر کے ایک حصے یعنی پاکستان کے سامنے ایک بڑا چیلنج ہے کہ کس طرح ملک میں تشدد کی چنگاری جو کہ شعلہ بن چکی ہے پر منوں پانی ڈالے۔ یہ سوال بہت پہلے اور کئی بار اٹھ چکا ہے کہ آخر ملک میں امن کی بحالی اور تشدد کے خاتمے کے لئے کونسا راستہ اپنایا جائے اس مسئلے پر ہمارے دانشوروں نے الگ الگ اپنی رائے دی ہیں لیکن میرے حساب سے ملک میں تشدد، انتہا پسندی اور دہشت گردی کے خاتمے کے لئے سب سے ضروری ہے کہ تعلیمی نصاب کو آلہ اور ہتھیار بناکر نئے سرے سے نافذ اور رائج کیا جائے۔ اس معاملے میں میر ی رائے بالکل صاف اور واضح ہے کہ قومی اور بین الاقوامی سطح پر اگر اسکول کے نصاب میں اخلاقیات، تحفظ انسانیت، انصاف سماجی مساوات اور سیکولرازم کے اسباق کو شامل کی جائے۔ موجودہ نصاب نے ہماری موجودہ تعلیم کو بگاڑ کر رکھ دیا ہے آج اسکول و کالج میں جو تعلیم دی جارہی ہے اس سے طلبہ کے کردار و افکار میں تضادپیدا ہورہا ہے۔ جس سے بدامنی اور تشدد کو پھیلنے کا موقع ملے گا ، ہم سب اس حقیقت سے بخوبی واقف ہیں کہ زندگی کے کسی شعبے میں ترقی اس وقت تک ناممکن ہے جب تک امن و سکون نہ ہو اور جہاں تک سوال ہے انسان کی زندگی کی کامیابی کا تو اس میں تعلیم کو مرکزی حیثیت حاصل ہے اور اگر تعلیمی نظام میں ہی خرابی ہو تو آخر کوئی کس طرح اپنی منزل تک کامیابی سے پہنچ سکتا ہے۔ سب سے اہم چیز علم ہے اگر انسان علم سے بے بہرہ ہو تو اس کا جینا بے کار ہے۔ پاکستانی معاشرے میں برائی کے غلبے کی انتہا یہ ہے کہ برائی و لاعلمی، ندامت و شرمندگی اور معذرت خواہی کا باعث بننے کے بجائے وجہ افتخار اور باعث اعزاز بن گئی ہے اور مشکل یہ ہے کہ بعض لوگ جدید اور عصری علوم پر مہارت رکھنے والوں کو جاہل سمجھتے ہیں،انتہا پسندی دراصل رواں پانی کو ٹھہرا دینے کے مماثل ہے جس سے پانی اور فکر دونوں سڑنے لگتے ہیں یہی وجہ ہے کہ انتہاپسند جھنجھلائے ہوئے ہیں۔ میں پہلے بھی کئی بار کہہ چکا ہوں کہ یہ دور معلومات کی چوطرفہ بوچھاڑ تو کررہا ہے لیکن علم کے خانے کو خالی چھوڑے ہوئے ہے، معلومات اور علم کے فرق کو نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔ محض معلومات سے شخصیت کے جوہر نہیں کھلتےبلکہ علم کے حصول سے کھلتے ہیں کہ معلومات سے صرف حافظے کا تعلق ہے جبکہ علم ذہن کو روشنی، روشن خیالی، عصری سوچ، بھائی چارہ اور شخصیت کو توانائی عطا کرتا ہے۔

میں جانتا ہوں کہ میری اس بات سے بعض لوگ اتفاق نہیں کریں لیکن ایک بار انہیں پھر سے غور کرنا ہوگا کہ نظر ہونا اور بات ہے اور نظریہ ہونا دوسری بات ........

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین