• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

بڑے کالم نگار چھوٹے معاملات کو زیربحث نہیں لاتے، مجھ سمیت سب لکھنے والے یہی سوچ کر مہنگائی اور بے روزگاری جیسے حقیر موضوعات کو قریب نہیں پھٹکنے دیتے۔ شمالی اور جنوبی کوریا کی محاذ آرائی پر بات ہوگی، امریکہ اور چین کی تجارتی جنگ کا جائزہ لیا جائے گا، عالمی حدت اور ماحولیاتی تبدیلیوں کے اثرات زیر بحث آئیں گے، امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی پالیسیوں پر تنقید ہوگی اور ترک صدر طیب اردوان کی تعریف ہوگی۔ عالمی تنازعات اور بین الاقوامی معاملات سے فرصت ملنے پر قومی نوعیت کے اہم ترین امور نمٹانے کی کوشش کی جائے گی، پاکستان کشمیر پر کس قسم کی پالیسی اختیار کرے، ملکی معیشت کو کیسے بہتر کیا جائے اور ملکی سلامتی کو لاحق خطرات سے کیسے نمٹا جائے۔ لوگ صحافیوں کو علمِ نجوم کا ماہر سمجھتے ہیں اس لئے مستقبل کا حال بھی بتانا پڑتا ہے۔ سیاست کا اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا؟ حکومت کا مستقبل کیا ہوگا؟ عدالتوں سے کس قسم کے فیصلے آئیں گے؟ ڈیل یا ڈھیل کے کیا امکانات ہیں؟ پنجاب کا وزیراعلیٰ تبدیل ہوگا یا نہیں؟ اگر اس سوال کا جواب ہاں میں ہے تو پھر اگلا وزیراعلیٰ کون ہوگا؟ معاونِ خصوصی برائے اطلاعات و نشریات فردوس عاشق اعوان نے کہا تھا کہ وزیراعلیٰ ہو یا وزیراعظم جو پرفارم نہیں کرے گا گھر جائے گا، یہ بیان کس تناظر میں دیا گیا اور اس کا مخاطب کون ہے؟ اب اگر قومی نوعیت کے تہہ در تہہ اُلجھے معاملات کو سلجھانے والے کالم نگار سے یہ توقع کی جائے کہ وہ آلو، ٹماٹر اور پیاز کی قیمتوں میں اتار چڑھائو پر بات کرے یا بجلی، گیس اور پانی کے بلوں میں اضافے کیخلاف آواز اُٹھائے تو یہ توپ سے مکھی مارنے والی بات ہوگی لیکن آج میں انہی حقیر موضوعات کا احاطہ کرنے کا ارادہ رکھتا ہوں۔

ممکن ہے آپ فسکل ڈیفیسٹ سے ناآشنا ہوں۔ ہو سکتا ہے آپ کو یہ معلوم نہ ہو کہ جی ڈی پی گروتھ ریٹ میں گراوٹ کا کیا مطلب ہوتا ہے۔ شاید آپ افراطِ زر اور تفریطِ زر جیسی مشکل معاشی اصطلاحات سے ناواقف ہوں، کرنسی کی قدر میں کمی کے اثرات سے بے خبر ہوں اور کنزیومر پرائس انڈیکس کا مفہوم نہ جانتے ہوں مگر یہ حساب کتاب تو لگا سکتے ہیں کہ ایک سال پہلے بجلی کا بل کتنا آتا تھا اور اب کیا صورتحال ہے؟ پیٹرول اور ڈیزل کی قیمتوں کو تو چھوڑیں، ان پر حکومت کتنا ٹیکس لے رہی ہے اور یہ کس کی جیب میں جا رہا ہے، بعض چیزیں ایسی ہیں جو روپے کے مقابلے میں ڈالر کے نرخ بڑھنے سے مہنگی ہو گئی ہیں۔ مثال کے طور پر الیکٹرونکس مصنوعات جو درآمد کی جاتی ہیں یا ان کے اسپیئر پارٹس باہر سے منگوائے جاتے ہیں ان کی قیمتوں میں اضافہ قابل فہم ہے مگر کیا کوئی بتا سکتا ہے کہ ایک سال قبل چینی 55روپے کلو دستیاب تھی مگر اب 85روپے کلو کیوں ہو چکی ہے؟ کیا ڈالر کے مہنگا ہونے کا چینی کی گرانی سے کوئی تعلق ہے؟ یہ تو وہی چینی ہے جو شوگر مل مالکان نے کسانوں سے 140روپے من گنا خرید کر بنائی اور پھر اس گنے کی قیمت بھی قسطوں میں ادا کی۔اگر کرشنگ سیزن شروع ہوچکا ہے اور گنے کے نرخ بڑھ کر 250 روپے من ہو گئے ہیں تو پھر چینی کی قیمت میں اضافہ قابل فہم ہے ورنہ اس لوٹ مار کی اجازت کیسے دی جا سکتی ہے ؟شوگر ملیں کس کی ہیں اور لوٹ مار کا یہ پیسہ کس کی جیبوں میں جا رہا ہے،میرا خیال ہے یہ سب تو آپ جانتے ہی ہوں گے۔20کلو آٹے کا تھیلا 750روپے کا ہوچکا ہے جبکہ چکی کا آٹا جو ایک سال پہلے 42روپے کلو دستیاب تھا اب 55روپے کلو ہو چکا ہے۔کیا گندم درآمدی اشیا میں شامل ہے؟ کیا حکومت نے کسی قسم کو کوئی نیا ٹیکس لگا دیا ہے ؟یا پھر گندم کی قیمت اچانک بڑھ گئی ہے ؟گندم کا سرکاری نرخ گزشتہ برس بھی 1300روپے فی من تھا اور اس سال بھی یہی ریٹ مقرر کیا گیا تھا تو آٹے کے نرخ کیسے بڑھ گئے ؟کیا کوئی پوچھنے والا ہے ؟ایک بری خبر یہ ہے کہ آئندہ چند ماہ کے دوران آٹے کی قیمتوں میں نہ صرف مزید اضافہ ہو سکتا ہے بلکہ گندم اور آٹے کا بحران بھی پیدا ہو سکتا ہے۔ہر سال تقریباً1.5ملین ٹن گندم وفاقی ادارہ ’’پاسکو‘‘خریدتا ہے جبکہ 3سے4ملین ٹن گندم پنجاب کا محکمہ خوراک خریدتا ہے تاکہ مصنوعی ذخیرہ اندوزی یا اسمگلنگ کے ذریعے ملک میں غذائی بحران کی کیفیت پیدا نہ ہونے پائے۔گزشتہ برس پنجاب حکومت نے 40لاکھ میٹرک ٹن گندم خریدنے کا ہدف مقرر کیا جسے 90فیصد حاصل کرلیا گیا۔اس سال تبدیلی سرکاری نے گندم خریداری پالیسی کا اعلان کیا تو خریداری کا ہدف مقرر نہیں کیا گیا۔محکمہ خوراک کے ترجمان بتاتے ہیں کہ اس سال 33لاکھ میٹرک ٹن گندم خریدی گئی ہے جبکہ دیگر ذرائع سے معلوم ہوا ہے کہ گندم خریداری اس سے کہیں کم ہے۔یہ بھی سننے میں آیا ہے کہ عالمی بنک سے قرض لینے کے لئے یہ وعدہ کیا گیا ہے کہ 2021ء تک سرکاری سطح پر گندم کی خریداری کا سلسلہ ترک کردیا جائے گا۔گندم کی سرکاری سطح پرکم خریداری کے پیش نظر ان خدشات کا اظہار کیا جا رہا ہے کہ آئندہ چھ ماہ کے دوران نہ صرف غذائی بحران کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے بلکہ آٹے کے نرخوں میں بھی اضافہ ہوسکتا ہے۔

مہنگائی کی لہریں سونامی کا روپ دھار چکی ہیں اور یہ سیلاب بلا اب ہر اس شخص کے در پر دستک دے رہا ہے جس کے ذرائع آمدنی لامحدود نہیں۔یوریا کھاد کی بوری جو 2018ء میں 1670روپے کی تھی، اب230روپے اضافے کیساتھ 1900روپے کی ہو چکی ہے۔موٹروے پر لاہور سے اسلام آباد ٹول ٹیکس جو 480سے بڑھا کر 580،اور پھر 680 روپے کیا گیا تھا اب 750روپے ہوگیا ہے لیکن عوام کی رگوں سے خون کا آخری قطرہ تک نچوڑ لینے کے باوجود تمام سرکاری محکمے خسارے میں ہیں۔ این ایچ اے 133ارب روپے خسارے کیساتھ سرفہرست ہے، ریلوے 40.70ارب کیساتھ دوسرے جبکہ پی آئی اے 39.5ارب روپے خسارے کیساتھ تیسرے نمبر پر ہے۔ پہلے تو چوروں اور ڈاکوئوں کی حکومت تھی،لوٹ مار ہورہی تھی،مگر اب یہ پیسہ کہاں جارہا ہے؟

تازہ ترین