• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

لباس کوئی بھی پہن لیں وجوہات ختم کئے بغیر جنسی تشدد رہے گا، تجزیہ کار

کراچی (ٹی وی رپورٹ)جیو کے پروگرام ”رپورٹ کارڈ“ میں میزبان ابصاء کومل کے پہلے سوال ہری پور کے بعد خیبرپختونخوا بھر میں طالبات کو عبایا پہننا ہوگا۔

کیا حکومت کو طالبات کے لباس پر مداخلت کا اختیار ہے؟ کا جواب دیتے ہوئے حسن نثار نے کہا کہ خیبرپختونخوا میں طالبان پر عبایا پہننے کی پابندی اعتراف شکست ہے، آپ دو، تین، چار سال کی بچیوں کو بھی عبایا پہنائیں تو آپ کی مرضی ہے، اس پر کیا تبصرہ کرنا ہے اگر سب خوش ہیں تو ہم بھی خوش ہیں، میں نے محترمہ فاطمہ جناح، قائداعظم کی اہلیہ اور ان کی صاحبزادی کی تصویروں میں کبھی عبایا نہیں دیکھا۔مظہر عباس کا کہنا تھا کہ لباس کوئی بھی پہن لیں جب تک جنسی تشدد کی وجوہات کو ختم نہیں کیا جاتا یہ سلسلہ جاری رہے گا،

ریما عمر کا کہنا تھا کہ خیبرپختونخوا میں طالبات پر عبایا کی پابندی لگانے والوں کو اپنا دماغی علاج کروانا چاہئے، یہ لوگ آٹھ نو دس سال کی بچیوں کو دیکھتے ہیں تو انہیں جنسی آبجیکٹس نظر آتے ہیں، ریسرچ دیکھیں تو جنسی زیادتی یا ہراساں کرنے کا بچیوں کے لباس سے کوئی تعلق نہیں ہے، کشمیر پر بات کرنے والے پاکستان میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر بھی تھوڑی نظر ڈال دیں۔

ارشاد بھٹی نے کہا کہ حکومت کو طالبات کے لباس پر مداخلت کا اختیار حاصل ہے، آپ فرانس یا سوئٹزرلینڈ چلی جائیں وہاں دوپٹہ یا عبایا نہیں پہن سکتی ہیں، حفیظ اللہ نیازی نے کہا کہ آئین کے مطابق اسلامی جمہوریہ پاکستان کے تمام قوانین قرآن و سنت کے مطابق بنانے ہیں، ہم نے کالج، یونیورسٹی یا اسکول میں عبایا پہننے کے احکامات کو فساد کی وجہ بنالیا ہے، حیرت ہوتی ہے کہ ہم کس دیدہ دلیری سے پاکستان اور آئین و قانون کیخلاف بات کررہے ہیں۔

بابر ستار کا کہنا تھا کہ پاکستان کا آئین یہ نہیں کہتا کہ عورتیں عبایا، گاؤن یا برقعہ پہن کر باہر نکلیں، آئین حکومت کواختیار نہیں دیتا کہ کسی کو لباس کے معاملہ میں پابند کرے، آرٹیکل پانچ کہتا ہے کہ ہر انسان آزاد ہے وہ تمام کام کرنے کیلئے جس سے اسے کوئی قانون روکتا نہیں ہے۔

تازہ ترین