• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
برطانوی پارلیمنٹ نے گزشتہ ہفتے کئی دہائیاں پرانی بحث کا بل بھاری اکثریت سے منظور کرتے ہوئے ایک اہم نوعیت کے مسئلے کو حل کیا ہے اور ہم جنس پرست ایک ہی سیکس کے دو افراد کے تعلقات کو شادی کے قانونی بندھن میں بندھنے کو قانونی بنانے میں کامیاب ہوگئے ہیں۔ اِس فیصلے کے نہ صرف برطانوی سماجی ڈھانچے پر بنیادی نوعیت کے اثرات مرتب ہونگے بلکہ یورپ اور عالمی سطح پر علمی اور پالیسی سازی میں یہ فیصلہ حوالے کے طور پر استعمال ہوگا۔ اس لئے نہ تو اِس فیصلے کو یک جنبش قلم رد کی اجا سکتا ہے نہ ہی فراخدلی سے اس پر جشن منایا جا سکتا ہے۔ البتہ اس پر غور ضرور کرسکتے ہیں کہ ایسی کون سی قیامت ٹوٹ پڑی تھی کہ دنیا کی اتنی بڑی جمہوریت میں گے میرج کو نہ صرف مثبت انداز میں دیکھا ہے بلکہ گے میرج کے بھاری اکثریت سے منظور ہونے کو جمہوریت اور آزادی کا اہم ترین موڑ اور فیصلہ قرار دیا ہے۔ لیبر پارٹی اور لبرل ڈیموکریٹ نے تقریباً 99 فیصد گے میرج کے حق میں ووٹ دیا ہے جبکہ کنزرویٹو میں جو تقسیم ہوئی اُس میں مخالفت کرنے والوں کی بنیاد مذہبی تھی جبکہ بائبل میں بھی کہیں پر بھی گے میرج کی توثیق کی گئی ہے نہ ہی مخالفت۔ یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا یہ مسئلہ قوانین فطرت سے بغاوت ہے۔ تو ایسی بات نہیں ہے۔ تاہم گے میرج کو قبول عام حاصل نہیں ہے۔ تاریخ انسانی میں ایسے کئی بڑے بڑے فیصلے ہوئے ہیں جو اپنے وقت میں قوانین فطرت سے متصادم تو محسوس کئے گئے لیکن وہ وقت گزرنے کے ساتھ مقبولیت حاصل کرگئے۔ مثلاً انسانوں کی خرید و فروخت یعنی غلاموں کا وجود بقول ارسطو فطرت اور معاشرے کا لازمی حصہ ہے۔ ارسطو کے مطابق بغیر غلاموں کے انسانی معاشرے کا کوئی وجود نہیں ہوسکتا۔ لیکن آج کوئی بھی معاشرہ اِس نقطے پر ایک لمحہ کے لئے بھی متفق ہونے کو تیار نہیں۔ مشہور سائنسدان کوپرنیکس نے کہا کہ سورج زمین کے گرد نہیں بلکہ زمین سورج کے گرد گھومتی ہے تو اہل کلیسا نے اُسے قوانین الٰہی کے خلاف بات کرنے پر موت کی سزا سنادی۔ کیونکہ اُن کے خیال میں قوانین الٰہی اور قوانین فطرت میں کوئی فطرت نہیں ہے۔ یوں تو دیگر مذاہب بھی ایسا ہی سمجھتے ہیں تاہم معاشروں نے اپنی ضروریات اور مطالبات کے حوالے سے جو بھی فیصلے کئے وقت نے اُن کی سچائی، افادیت یا نقصان کو بے نقاب کیا۔ یہی سماجی قوانین اور فطرت کے قوانین کی آزمائش اور ٹیسٹ کا طریقہ ہے۔ گزشتہ بارہ برسوں میں دس ممالک نے گے میرج کو لیگل قرار دیا ہے اور تقریباً 15 ممالک میں گے میرج (لواطت) کی قانونی حیثیت کے بل زیر بحث ہیں یا فیصلے التوا کا شکار ہیں۔ اِس کی سیکولر دلیل میں سب سے اہم نقطہ جس پر زور دیا جاتا ہے کہ تاریخی طور پر شادی کی روح محبت "Love" نہیں بلکہ جنس مخالف کے جوڑے کا شادی کے بندھن میں بندھنے کا مقصد بچے پیدا کرنا ہے۔ اِس نقطے پر یہ Intitution ابھی تک چل رہا ہے۔ اس کے چلنے کے لئے آپ کو کسی بھی مذہب کا ہونا یا بالکل مذہبی نہ ہونا کوئی فرق پیدا نہیں کرتا۔ گے میرج (لواطت) کے حق میں آواز اٹھانے والوں کا ایک نقطہ یہ بھی ہے کہ یوں تو کسی کو بھی شادی نہیں کرنی چاہئے۔ بلکہ یہ ایک سول یونین ہونی چاہئے تاہم جو لوگ مذہبی حوالے سے اِسے شادی کا نام دینا چاہیں تو وہ اپنی ذاتی تسلی کے لئے ایسا کر سکتے ہیں۔ اِس نظریئے کے حامی لوگوں نے گے میرج کے حق میں اِس لئے بھی ووٹ دیا کہ وہ شادی کے Instition کو نئی تشریحات کے تحت قائم رکھنا چاہتے ہیں اور پرانا Orthodox طریقہ کار بدلنا چاہتے ہیں۔ اب بھاری اکثریت سے اِس بل کے حق میں ووٹ پڑنے کے بعد سماجی طور پر بڑی دلچسپ صورتحال پیدا ہوگئی ہے کہ اب کسی جگہ پر تنہائی میں دو مرد دوست یا سہیلیاں بیٹھی باتیں کررہی ہوں تو خاندان یا دوسرے احباب انہیں شک کی نگاہ سے دیکھ سکتے ہیں کہ کہیں یہ جوڑا رومانس اور پھر رشتہ ازدواج میں بندھنے تو نہیں جا رہا۔ یورپ میں بیٹھے جو لوگ لڑکیوں اور لڑکوں کے علیحدہ تعلیمی اداروں کا مطالبہ کرتے ہیں یا اپنے بچوں کو Single Gender اداروں میں پڑھاتے ہیں وہ اب اِس اخلاقی مقصد کے حصول سے محروم ہوجائیں گے کیونکہ اب قانونی طور پر لڑکی دوسری لڑکی کے ساتھ اور لڑکا دوسرے لڑکے کے ساتھ قانونی طور پر شادی کر سکتا ہے۔ گویا کسی بھی صورت میں روایتی والدین کا اپنی اولاد کو کسی بے راہ روی یا ناپسندیدہ رشتوں میں منسلک ہونے سے محفوظ رکھنے کا کنٹرول ختم ہوگیا ہے۔ اب محض اخلاقی حوالے سے کسی محکمے یا ادارے کا علیحدہ زنانہ یا مردانہ سٹاف اُن حدود کو کنٹرول نہیں کرسکے گا جنہیں صرف Male یا Female سٹاف کے ذریعے برقرار رکھا گیا تھا۔ مجھے یہاں پاکستان میں جنرل ضیاء کا دور یاد آگیا کہ اُس زمانے میں پاکستان میں کسی بھی مرد اور عورت کو اکٹھے چلنے، سفر کرنے یا کسی جگہ بیٹھ کر چائے پینے کی اجازت نہیں تھی تاوقتیکہ اُن کے پاس جیب میں نکاح نامہ موجود نہ ہو۔ نکاح نامہ نہ ہونے کی صورت میں پولیس والا جوڑے کو تھانے لے جانے کا مجاز تھا۔ گویا مرد اور عورت صرف نکاح کی صورت میں اکٹھے پھر سکتے تھے یا کہیں بیٹھ کر چائے پی سکتے تھے۔ دو ایک دفعہ تو ہم بھی اپنے دوستوں کو تھانے سے چھڑوا کے لائے تھے۔ اگر فرض کریں کہ گے میرج کی پاکستان میں بھی اجازت ہو تو ہر دو اکٹھے چلتے، بیٹھے دو افراد کو شک کی بنیاد پر تھانے لے جایا جا سکتا ہے اور پولیس والا کوئی دو سہیلیوں یا دوستوں کو اکٹھے پھرتا دیکھ کر سول پارٹنر شپ کے سرٹیفکیٹ کا تقاضا کرسکتا ہے۔ پاکستانی پولیس تو کسی بھی دو مردوں یا دو عورتوں کو پکڑ کے لاک اَپ میں بند کرسکتی ہے۔ اب بات اِن بے قصوروں پر ہی کہ کتنی دیر میں یہ ثابت کرتے ہیں کہ وہ محض دوست ہیں۔ لیکن اچھا ہے کہ پاکستان میں یہ سارا کام قانون کے بغیر ہی چل رہا ہے اور پولیس کے ہاتھ یہ موقع نہیں آرہا۔ برطانیہ میں گے میرج کے مسئلے پر قانون سازی ہو رہی ہے تو یہاں ہمارے پاکستانی مذہبی حلقے بہت سرگرم ہوگئے ہیں اور صبر کا دامن اُن کے ہاتھ سے چھوٹا جا رہا ہے۔ گزشتہ دنوں چند علماء نے مسلمان ممبر آف پارلیمنٹ پر فتویٰ صادر کردیا کہ وہ دائرہ اسلام سے خارج ہوچکے ہیں۔ بعض نے تو یہاں تک کہہ دیا کہ اُن کے نکاح بھی فسخ ہو چکے ہیں۔ یہاں دلچسپ پہلو یہ ہے کہ ہمارے علماء دوسروں پر اتنی نگاہ رکھتے ہیں کہ اُس میں اپنا آپ بھول چکے ہوتے ہیں۔ یہ بڑی تنگ نظری کا رویہ ہے۔ یوں تو برطانیہ میں سود کے واضح طور پر حرام ہونے کے باوجود مسلمان ایم پی اس کے بجٹ کی بھی توثیق کرتے ہیں اور مسلمان آبادی قرضے بھی لیتی ہے۔ جب کہ برطانیہ میں رہنے والے مسلمان پاکستانی ہوں یا کسی اور ملک سے لیکن وہ شراب بھی پیتے ہیں اور گرل فرینڈز کے ساتھ بھی رہتے ہیں۔ یہ سوسائٹی ہی ایسی ہے۔ ایسے میں علماء کو پورے ماحول کو ترک کرکے برطانیہ سے ہجرت کر جانی چاہئے ورنہ یہ فتویٰ پالیٹیکس نہ کریں البتہ اختلافی ایشوز پر آراء ضرور دیں۔ دراصل ہمارے مذہبی علماء اور مذہب کی عینک سے ہر معاملے کو دیکھنے والوں کا المیہ یہ ہے کہ وہ بہت کم حوصلہ رکھتے ہیں، بے صبرے ہیں، علم اور وسعت نظری کا گزر اِن کے قرب و جوار سے ذرا کم ہوا ہے۔ ابھی قانون بن رہا ہے۔ انسانوں کو کسی عمل میں پڑ کے کچھ سیکھنے کا چانس تو دیں۔ وگرنہ یہ سب کچھ قانون کے بغیر بھی تو چل ہی رہا تھا۔ معاشرے اسی طرح سے صحیح اور غلط فیصلے کرکے سیکھتے اور آگے بڑھتے ہیں۔ اگر ہم یقین سے یہ بات سمجھتے ہیں کہ گے میرج ہر صورت میں میں معاشرے کے لئے نقصان دہ ہے توجو قومیں تجربے سے یہ بات سیکھنا چاہتی ہیں۔ وہ Divie Law کو مستند نہیں سمجھتیں۔ جس طرح مسلمان یا دوسرے مذہبی لوگ سمجھتے ہیں تو پھر ایمان والوں کے لئے اللہ کے پیغام میں اتنی طاقت تو ہے کہ وہ غلط کو بے نقاب کردے اور سچ کو سرخرو کرے۔ اگر ہم یہ سمجھتے ہیں کہ یہ قانون سازی کرنے والے پتھر چاٹ کے واپس آجائیں گے کیونکہ اِس فعل میں صرف گھاٹا ہی گھاٹا ہے تو پھر ہمیں اِن قوموں کو اِس عمل سے گزرنے دینا چاہئے اور آگاہی دیتے رہنا چاہئے۔ اگر ہم ایسا نہیں سمجھتے تو پھر ہمیں اپنے عقائد میں کمزوریوں کا جائزہ لینا چاہئے۔ کھوکھلی ہاؤ ہو کرنے سے کچھ حاصل نہیں ہوگا۔
تازہ ترین