• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

علامہ اقبالؒ کا مشہور شعر ہے جہانِ تازہ کی افکارِ تازہ سے ہے نمود، کہ سنگ و خشت سے ہوتے نہیں جہاں پیدا۔

بہت پرانی بات ہے درویش نے بابا جی اشفاق صاحب سے اور اختر حسین شیخ صاحب سے یہ پوچھا کہ عصرِ حاضر کی جتنی بھی عظیم الشان ایجادات ہیں جن سے آج پوری انسانیت مستفید ہو رہی ہے یہ ساری کی ساری مغرب اور اس کے سائنسدانوں کی مرہونِ منت ہیں، کیا وجہ ہے کہ پوری چودہ صدیوں میں مسلمانوں نے اپنے دورِ عروج میں بھی ایسی کوئی ایک قابلِ فخر ایجاد نہیں کی ہے جس سے آج کی دنیا کو راحت مل رہی ہو؟۔

شیخ صاحب تو فوری سرنڈر ہو گئے جبکہ بابا جی اِدھر اُدھر کی ڈھونڈنے لگے کچھ اندلس (سپین) کی سنانے لگے۔ عرض کی بابا جی جانے دیں جن کے نام آپ لینا چاہ رہے ہیں انہیں تو روایتی دینی علماء کے زیرِ اثر ان کی اپنی کمیونٹی نے بھی راندہ درگاہ قرار دے دیا تھا،ان کا تعارف بھی آج آپ کو مغرب کے ذریعے پہنچا ہے۔

آپ کسی ٹھوس چیز کی نشاندہی کریں جو آپ کی ریاستِ سلطنت یا اسلامی سماج سے پھوٹی ہو اور براہِ کرم اس امر کی وضاحت بھی فرما دیں کہ اس ناکامی و محرومی کی وجہ کیا ہے؟ اِدھر اُدھر کی جھانکیاں تو بہت ماری گئیں مگر جس امر پر ہمارا اتفاق ہوا وہ یہی تھا کہ ہمارے مسلم معاشروں میں آزادیٔ اظہار کا فقدان ایک ایسی حقیقت ہے جس سے انکار ممکن نہیں۔

آج درویش سوچتا ہے کہ یہ فقدان جتنا 14صدیاں قبل تھا ’’الحمدللہ‘‘ اتنا ہی آج بھی ہے۔ ’’اقراء‘‘ کے حاملین نے ڈیڑھ ہزار سال تک اگر کسی چیز پر پختگی کے ساتھ ایکا کیے رکھا ہے تو وہ ’’جہالت‘‘ ہے جو حلیے اور لبادے بدل بدل کر جلوہ افروز ہوتی رہی ہے جو جتنا بڑا جاہل ٹھہرا اتنا بڑا پیشوا کہلایا۔

بلاشبہ اس کا بڑا کریڈٹ اپنے اپنے ادوار کے مسلم حکمرانوں کو جاتا ہے جنہوں نے اپنے سیاسی مخالفین کو ہمیشہ ریاست و سلطنت اور ملت کا مخالف قرار دیتے ہوئے محض قابلِ نفرت ہی نہیں ٹھہرایا بلکہ موقع ملنے پر کبھی کچلنے سے بھی دریغ نہیں کیا، لیکن ذرا ٹھہریے! اس جرم میں مسلم حکمران تنہا نہیں تھے۔ بعض ایسے دینی و مذہبی پیشوا بھی اس سعادت مندی میں کبھی کسی طرح پیچھے نہیں رہے۔

جو عامۃ المسلمین کو ازبر کراتے رہے کہ السلطان العادل ظل اللہ فی الارض آگے کے الفاظ اس نوع کے ہیں کہ ’’جس نے سلطان کی اطاعت کی، اس نے اللہ کی اطاعت کی جس نے سلطان کی نافرمانی کی اس نے اللہ کی نافرمانی کی، جس نے سلطان کو عزت دی اس نے اللہ کو عزت دی اور جس نے سلطان کی اہانت کی اُس نے اللہ کی اہانت کی‘‘۔

مدعا کلام یہ ہے کہ جب آپ اپنے پورے سماج کا شکنجا اس قدر کس کر رکھیں گے تو حریتِ فکر اور آزادیٔ اظہار جیسی اقدار کہاں سے پھوٹیں گی؟ اس نوع کی اگر کوئی معتزلہ جیسی تحریکیں اٹھی بھی تو اسکا عقلی و منطقی پوسٹ مارٹم کرنے کے بجائے عسکری طاقت اور اسلحہ بندی کے جبر و زور سے کچل کر رکھ دیا ہے۔

درویش نے اپنے پچھلے کالم ’’آزادیٔ اظہار اور ڈاکٹر جاوید اقبال‘‘ میں اس موضوع کو چھیڑا تو کئی احباب نے فرمائش کی کہ اس پر مزید تحریر کرتے ہوئے واضح کیجیے کہ آزادیٔ اظہار کے فقدان نے مسلم سوسائٹی کو کیا نقصان پہنچایا ہے؟

ان دوستوں کو جواب ہے کہ کوئی نقصان سا نقصان ہوا ہے بس یہ کہیے کہ پیچھے بچا ہی کیا ہے؟ ہم نے اپنے دورِ زوال میں دنیا کو کیا دینا تھا ہم تو اپنے دورِ عروج میں بھی سوائے کھوکھلے پروپیگنڈے کے کچھ دینے سے قاصر رہے ہیں کیونکہ ہماری سلطنتوں کی بنیادیں کسی علمی فلسفے پر استوار نہیں تھیں بلکہ جبر اور طاقت پر انحصار کرتی رہیں۔

حریتِ فکر اور آزادئ اظہار کے فقدان کا یہ نقصان کیا کم ہے کہ ہمارے روایتی مسلم معاشرے آج بھی بدترین سماجی گھٹن کا شکار ہیں۔

ہمارے مسلمان ویسے مغرب اور مغربی تہذیب پر لعنتیں ڈالیں گے مگر موقع ملنے پر مغرب میں جا بسنے کے لئے سب سے آگے ہونگے، ہمارے کتنے لوگ ہیں جو ہر سال براستہ ترکی غیر قانونی طور پر کنٹینروں اور کشتیوں کے ذریعے یونان داخل ہونے کی کاوش میں اپنی جانیں گنوا بیٹھتے ہیں مگر پیچھے لائن میں لگے لوگ باز پھر بھی نہیں آئیں گے مگر درویش کی یہ استدعا ہے کہ ہم کیوں نہ اپنے مسلم ممالک کو فکری و عملی طور پر ترقی یافتہ بناتے ہوئے مغرب کے ہم پلہ لے جائیں اس کے لئے فکری و عملی انقلابی اقدامات درکار ہونگے، جب ان پر قلم اٹھائیں گے تو خوفناک نفرت بھری آوازیں اٹھنا شروع ہو جائیں گی۔

درویش عرض کرتا ہے کہ آپ سخت ترین آوازیں ضرور بلند کریں، آپ اپنا روایتی نقطہ نظر جس قدر فراوانی سے پھیلا رہے ہیں اس سے ہزار گنا زیادہ پیش فرمائیں، ہم سننے کو تیار ہیں لیکن للہ ہمیں بھی اظہارِ رائے کی کچھ آزادی مہیا فرما دیں۔

ہماری ڈیڑھ ہزار سالہ زبان بندی پر اکیسویں صدی میں تو کچھ قدغنیں کم کر دیں۔ ایک دن اپنے ممدوح ڈاکٹر جاوید اقبال کو جب یہ بتایا کہ جو کچھ لکھتا ہوں اس میں صرف 20فیصد ملفوف سچائی بیان کر پاتا ہوں بقیہ 80فیصد جھوٹ یا ادھر ادھر کی افسانوی باتیں ہوتی ہیں۔

وہ اس بات پر حیرت زدہ ہوئے کہ سچائی کی ریشو اتنی کم کیوں ہے۔ اگر آج وہ زندہ ہوتے تو یہ جان کر کہ یہ ریشو اب گھٹ کر محض 2فیصد رہ گئی ہے، کتنے دکھی ہوتے۔ آج اگر ہماری ریاستی تقاریر پوری دنیا کو نفرت انگیز یا منافرتوں کا پھیلاؤ دکھتی ہیں جبکہ اندرونِ ملک ہمارے سادہ لوح عوام ان پر جھوم رہے ہوتے ہیں تو اس سماجی گھٹن کی ’’برکت‘‘ سے واضح ہونے والے فرق کو سمجھا جانا چاہئے۔

آزادئ اظہار کے فقدان نے ہمیں ترقی یافتہ مہذب دنیا سے کاٹ کر کنویں کا مینڈک بنا دیا ہے۔ ہم تلخ زمینی حقائق کو سمجھنے کے بجائے ساون کے اندھے کی طرح اپنی خود ستائی کرتے ہوئے، ہم کانگڑی پہلوان خود کو تیس مار خاں سمجھ رہے ہیں۔

تازہ ترین