• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
تحریر: محمد شریف بقا ۔۔۔ لندن
بانی پاکستان محمد علی جناح ؒ ان عظیم سیاستدانوں میں شمار ہوتے ہیں جنہوں نے سیاست کی دنیا میں قابل قدر خدمات اور کارنامے سرانجام دیئے ہیں۔ انہوں نے دور جدید کی سیاست خصوصاً برصغیر پاک وہند کے سیاسی حالات پر بہت گہر ا اثر ڈالا ہے۔ وہ ان سیاستدانوں میں سے نہیں تھے جو علم سیاست کی ابجد سے ناواقف ہو کر میدان سیاست میں بے دھڑک کود پڑتے ہیں اور اپنے اناڑی پن کی وجہ سے خود بھی رسوا ہوتے ہیں اور ملکی سیاست کو بھی بدنام کرتے ہیں۔ نہ ہی وہ اس طبقے سے تعلق رکھتے تھے جو اپنی برادری، زمینداری اور سرمایہ داری کی بنیاد پر سیاست کرنے کے شوقین اور زرومال سمیٹنے کے خواہاں ہوتے ہیں۔ انہوں نے قومی خدمت، ملی بہبود اور مسلمانان ہند کے زوال کو عروج میں تبدیل کرنے کیلئے بڑی سوچ بچار کے بعد قدم اٹھایا تھا۔ چونکہ وہ صاف ستھری سیاست کے اصولوں کے زبردست علمبردار تھے اس لئے وہ کسی مالی لالچ میں نہ آئے اور کبھی بھی اپنے ضمیر کا سودا نہ کیا۔ ان کے مخالفین بھی ان کی عظمت کردار اور سیاسی ذہانت ودیانت کے معترف تھے۔ وہ زندگی کے اعلیٰ وارفع مقاصد کے حصول کیلئے نہ صرف خود جدوجہد کرتے رہے بلکہ وہ دیگر سیاستدانوں میں بھی اخلاق کی بلندی دیکھنے کے متمنی تھے۔ اس مختصر مضمون میں اس بات کا جائزہ لیا جائے گا کہ وہ اپنے دور کے مسلم سیاستدان خصوصاً اپنے ساتھی اہل سیاست میں کونسی صفات دیکھنے کے آرزو مند تھے اور اس ضمن میں ان کے ارشادات کیا ہیں۔ پاکستان کے موجودہ پریشان کن حالات میں قائداعظمؒ کی سیاسی فکر کے اس پہلو کا تذکرہ بے حد اہم ہے تاکہ ہمارے ارباب حل وعقد اور سیاستدانوں کے دلوں میں یہ احساس اجاگر ہو جائے کہ وہ اپنے عظیم قائد اور محسن قوم کی میراث کی حفاظت کا ملی فریضہ اب کس طرح سرانجام دے سکیں گے۔
انسانی تاریخ بتاتی ہے کہ حضرت انسان نے مختلف ادوار میں اپنے اجتماعی معاملات کو صحیح نہج پر چلانے کیلئے بہت غور وفکر سے کام لیا۔ جب انسانوں کو اپنی زندگی کے گوناں گوں مراحل اور شعبہ جات میں ایک دوسرے سے واسطہ پڑا تو ان کی زندگیوں میں نکھار بھی آیا اور فساد بھی رونما ہوا۔ انہوں نے اپنے جھگڑے نمٹانے کے لئے کبھی فرد واحد کو اپنا مطاع بنایا اور کبھی جماعت کو۔ پھر یہ مسئلہ بھی پیدا ہوا کہ فرد کو جماعت پر ترجیح دی جائے یا جماعت کو افراد پر حاوی بنا دیا جائے۔ انسانی زندگی فکر کی ناتجربہ کاری اور کج روی کو درست کرنے کے لئے خالق کائنات نے وقتاً فوقتاً اپنے نیک اور برگزیدہ بندوں کو خلق کی ہدایت اور اپنی اطاعت کے لئے بھیجا۔ ابلیس و آدم کی قدیم چپقلش نے یہاں بھی اپنا رنگ دکھایا اور سیاست بھی خیروشر کی جنگ کا اکھاڑہ بن گئی۔ یہ معرکہ خیروشر ابھی تک دنیا کے سیاسی نظاموں کے درمیان جاری وساری ہے۔ ایک گروہ دین وسیاست کے امتزاج کی وکالت کرتا ہے اور دوسرا گروہ ان کی جدائی کا پرچار کرتا ہے۔ بدقسمتی سے پاکستان میں بھی رزم آرائی دکھائی دیتی ہے۔ علامہ اقبال ؒ نے کافی عرصہ پہلے اس سیاسی نزاع کی طرف ہماری توجہ دلاتے ہوئے کہا تھا؎
جو بات حق ہو وہ مجھ سے چھپی نہیں رہتی
خدا نے مجھ کودیا ہے دل خبیر وبصیر
مری نگاہ میں ہے یہ سیاستِ لادیں
کنیز اہرمن و دُوں نہاد و مُردہ ضمیر
قائداعظمؒ بھی علامہ اقبالؒ کی طرح سیاسیات واخلاقیات کے امتزاج میں پختہ یقین رکھتے تھے۔
علاوہ ازیں ان کا یہ نظریہ بھی تھا کہ اخلاقی نظام سیاست کو نافذ کرنے کیلئےجلال یعنی اقتدار کا ہونا ضروری ہے۔ اگر کسی راہ نما اور مصلح کے پاس قوت نافذہ نہ ہو تو وہ اپنے سیاسی افکار کو کس طرح مؤثر اور مفید خلاق بنا سکتا ہے؟ انہوں نے اکتوبر 1937میں آل انڈیا مسلم لیگ کے لکھنؤ اجلاس کے موقع پر اپنے صدارتی خطبہ میں سیاست کی تعریف کرتے ہوئے فرمایا تھا:
Politices means power and not relying only on cries of justice or fairplay or good will. Look at the nations of the world and look at what is happening everyday."
زندہ بہادراور طاقتور قومیں ہی دنیا کی سیادت کا فرض ادا کر سکتی ہیں۔ کمزور قوم اپنے جائز مطالبات وحقوق کو منوانے اور اپنی مظلومیت کا احساس دلانے کیلئے فقط جلوس ہی نکال سکتی ہے یا احتجاج پر ہی اکتفا کر سکتی ہے۔ سیاست کی دنیا میں ’’جس کی لاٹھی اس کی بھینس‘‘ والا اصول چلتا ہے۔ کیا کشمیر فلسطین انڈیا اور چیچینیا کے حالات اس امر کی تصدیق نہیں کر سکتے کہ کمزور اور بے بس مسلمان بے یارومددگار ہیں؟ محض طاقت ہی کے زور سے وہ اپنی بات منوا سکیں گے۔ قائداعظم ؒ نے بجا ہی تو کہا ہے کہ سیاست کا دوسرا نام طاقت ہے۔ ہماری کمزوری کی وجہ ہی سے دوسری قومیں ہمیں آنکھیں دکھا رہی ہیں اور ہماری کمزری سے ناجائز فائدہ اٹھا رہی ہیں۔ علامہ اقبالؒ نے کیا خوب کہا تھا؎
تقدیر کے قاضی کا یہ فتویٰ ہے ازل سے
ہے جرم ضعیفی کی سزا مرگ مفاجات
برصغیر پاک ہند کےعظیم ترین مسلم رہنما یعنی محمد علی جناحؒ کی سیاسی زندگی اس حقیقت کی شاہد ہے کہ انہوں نے اپنی قوم کی خدمت کے دوران کبھی اپنے عوام کا استحصال نہیں کیا تھا۔ انہوں نے اپنا تن من اور دھن اپنی مظلوم ومجبور قوم کیلئے وقف کر رکھا تھا۔ خدمت خلق اورخدمت وطن کو سیاست کی جان تصور کرتے تھے۔ سب مخلص، ہمدرد اور نیک سیرت سیاسی رہنمائوں کا یہی وتیرہ ہونا چاہئے۔ جب انہیں معلوم ہوا کہ بعض نام نہاد سیاسی لیڈر اور جھوٹے ہمدردان قوم اور خودغرض سیاستدان عوام کے استحصال کو اپنی سیاست کا محور ومرکز بنا رہے ہیں تو انہوں نے 1941ء میں بنگلور میں تقریر کرتے ہوئے عوام کو ایسے استحصال پسند لیڈروں سے ہوشیار رہنے کی یوں تلقین کی۔ ’’ماضی میں مسلم قیادت کے نام پر بہت سے لیڈروں نے ہمیں بری طرح لوٹا ہے۔ یاد رکھو کہ لوٹ کھسوٹ کا یہ باب ابھی تک بند نہیں ہوا ہے۔ تمہارے لیڈروں میں ایسے لوگ بھی ہیں جن کا ایک پائوں ایک گروہ میں ہے اور ان کا دوسرا قدم دوسری جماعت میں ہے۔ اس لئے ایسے لیڈروں کے چنائو میں تمہیں بہت محتاط ہونا پڑے گا۔‘‘ کیا اپنے ملک میں بعض ایسے سیاسی لیڈر نہیں جو روپیہ کمانے ہی کیلئے سیاست کے میدان میں وارد ہوتے ہیں اور عوام کو ہر طرح سے لوٹنے میں لگ جاتے ہیں۔ جب سیاست کا مقصد حصول مال ودولت ہی ہو تو پھر اپنی جماعت سے وفاداری کیسے ہو سکتی ہے؟ جو انہیں زیادہ مرتبہ ودولت کا لالچ دے گا و ہ اس کی جماعت میں شامل ہو کر ’’لوٹا‘‘ ہونے کا ثبوت دیں گے۔ جو زیادہ بولی دے گا وہ اپنا ضمیر اس کے حوالے کردیں گے؎
ضمیر کے ترازو میں تل رہے ہیں یہاں
کہاں کا زہد و ورع اور کہاں کا علم وہنر
جب انسان انسانیت کی منزل کو چھوڑ کر گھوڑوں کی طرح بکنے لگے تو پھر اسے ہارس ٹریڈنگ ہی کہا جائے گا۔ قائداعظمؒ نے تو عوام کو ایسے سیاستدانوں سے دور رہنے کا مشورہ دیا تھا۔ وہ اگر ان کے مشورے کو خود ہی قابل توجہ خیال نہ کریں تو پھر قصور کس کا ہے؟
قائداعظمؒ نے جب مسلم لیگ میں شمولیت کر کے کانگریس کی پالیسیوں کو ہدف تنقید بنایا اور ان کی مسلم کش سرگرمیوں کا راز فاش کیا تو کانگریسی لیڈر بوکھلا گئے۔ انہوں نےبعض مسلم لیگی لیڈروں کو اپنے ساتھ ملانے کیلئے مال ومنصب کی ترغیب دی۔ بعض خود غرض، موقع پرست اور کوتاہ اندیش لوگ تذبذب کا شکار ہو گئے اور بعض نے دوغلی پالیسی اختیار کی یعنی ظاہر میں تو مسلم لیگ سے وابستگی ظاہر کی اور باطن میں کانگریس کے ساتھ رہے۔ قائداعظمؒ ایسے غیرمخلص اور منافقوں کی روش پر روشنی ڈالتے ہوئے جون 1941میں میسور مسلم لیگ کے اجلاس میں فرماتے ہیں:۔
’’گاہے گاہے ہمارے اپنے نمائندے، لیڈر اور وزیر اپنی خودغرضی، ذاتی مفاد کے باعث ہمارا ساتھ چھوڑ کر ہمیں ذلیل کروا دیتے ہیں۔ یاد رکھو ٹھوس اور متحد رائے عامہ سے اور کوئی چیز زیادہ طاقتور اور مؤثر نہیں۔ تم اپنی پسند کے مطابق اپنے لیڈروں کے بنائو اور بگاڑ کی صلاحیت رکھتے ہو۔‘‘ کیا آج کل پاکستان کی سیاست میں بھی ایسے واقعات رونما نہیں ہور ہے؟ کیا ایک سیاسی جماعت کے ارکان کسی مالی منفعت اور عہدے کی پیشکش کے مدنظر اپنی جماعت کا ساتھ چھوڑ کر دوسری جماعت میں نہیں جاتے؟ کیا اسے ’’لوٹا کریسی‘‘ اور ’’ہارس ٹریڈنگ‘‘ نہیں کہاجائے گا؟ کیا ثابت قدم، مخلص، ہمدرد قوم اور سنجیدہ ومتین سیاستدانوں کا یہی کردار ہونا چاہئے؟ ہم اپنے تمام اہل سیاست سے یہ توقع رکھیں گے کہ وہ اپنے ذاتی، محدود، عارضی اور پست مقاصد کو چھوڑ کر زندگی اور اخلاقیات کے اعلیٰ اور قابل قدر اصولوں کواختیار کر کے اپنی عالی ظرفی کا ثبوت دیں گے۔ ہمیں معلوم ہے کہ ہر دور میں ایسے رہنما بھی ہمیں ملے ہیں جنہوں نے اعلیٰ مقاصد کو خیرباد کہہ کر پست مقاصد کے حصول کیلئے کوشش کی مگر انہیں خدا ور خلق کی خوشنودی حاصل نہ ہو سکی۔ ایسے ہی تنگ نظر اور مفاد پرست سیاستدانوں کی ذہنیت کی عکاسی کرتے ہوئے علامہ اقبالؒ نے فرمایا تھا؎
امید کیا ہے سیاست کے پیشوائوں سے
یہ خاکباز ہیں، رکھتے ہیں خاک سے پیوند
ہمیشہ مورومگس پر نگاہ ہے ان کی
جہاں میں ہے صفت عنکبوت ان کی کمند
خوشا وہ قافلہ جس کے امیر کی ہے متاع
تخیل ملکوتی، وجذبہ ہائے بلند
قائداعظم ؒ کے بنا کردہ پاکستان میں مدت سے پاکیزہ سیاست اور صالح قیادت کا خواب شرمندہ تعبیر نہیں ہوا۔ اس کی کئی سیاسی، معاشرتی، اقتصادی، تعلیمی، معاشرتی اور بین الاقوامی نوعیت کی وجوہات ہیں۔ قائد محترم نے بار بار پاکستان کو ہر لحاظ سے مستحکم، خوشحال اور مثالی بنانے پر زور دیتے ہوئے اسے صحیح خطوط پر چلانے کا درس دیا تھا۔ شومئی قسمت نظام سیاست کو چلانے والے اس عزم، دوراندیشی، مومنانہ فراست، ایثار نفس، خدمت خلق، ملکی خوشحالی کی درست لگن اور سیاسی بصیرت کا کماحقہ ثبوت دے سکے یہی وجہ ہے کہ وطن عزیز ایک بحران سے نکلنے کے بعد دوسرے بحرانوں کا شکار رہا۔ انتشار فکرونظر اور باہمی ناچاقی کا نتیجہ یہ نکلا کہ ہمارے ملک کا ایک حصہ ہم سے الگ ہو گیا۔ سیاست اصل میں کسی مملکت کے امر کو مدبرانہ اور ماہرانہ انداز میں چلانے اور ملکی مفادات کے تحفظ کرنے کا دوسرا نام ہے۔ جس طرح کسی کام کو بخوبی سرانجام دینے کیلئے مطلوبہ مہارت، واقفیت اور علم لازمی ہیں اسی طرح سیاسی نظام کی کامیابی کیلئے بھی یہی شرائط لازمی ہونی چاہئے۔ علاوہ ازیں قابلیت ، امانت ودیانت، خدمت خلق، خوف خدا اور خوف خلق کا احساس بھی بے حد ضروری ہے۔ اعلیٰ اخلاقی اور دینی اصولوں کو نظرانداز کر دینے سے پاکیزہ اور تعمیری انداز سیاست کی حسین آرزو ناتمام ہی رہتی ہے۔ اسلامی سوسائٹی میں حاکم ومحکوم کی تمیز بالکل غلط ہےکیونکہ اسلام کا سیاسی نظام تقویٰ، صلاحیت، علم، محاسبہ نفس، عوامی احتساب، باہمی تعاون ومشاورت، حریت فکرونظر، اخوت اور خدمت خلق کا حسین امتزاج ہے۔ پاکستان میں پاکیزہ اور بااصول سیاست کے ضمن میں بانی پاکستان کی اس تقریر کا یہاں حوالہ دینا بے محل نہ ہو گا جو انہوں نے 20اپریل 1948ء کو پشاور میں کی تھی۔ اس تقریر کا درج ذیل اقتباس عوام اور سیاستدانو ں کیلئے حقیقت کشا ہو گا۔ انہوں نے کہا تھا:۔
"We have still a long way to build up Pakistan, but I have no doubt that by the grace of God, by adopting right methods and the right course we shall march along to make it one of the greatest states of the world."
تازہ ترین