• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
یہ ہماری عادت ہو گئی ہے کہ اگر فیصلہ ہماری خواہش کے مطابق ہو تو سب ٹھیک اور اگر خلاف آئے تو سب کچھ غلط ۔ برداشت کا مادہ نہیں ہے ۔ ”مبارک ہو مبارک ہو ۔۔۔کہو ”سپریم کورٹ زندہ باد“ ہمارا آدھا کام ہو گیا ملک میں عدلیہ اور فوج صرف اپناکام کر رہی ہے“ ۔
11 فروری کو سپریم کورٹ میں ڈاکٹر طاہر القادری نے الیکشن کمیشن کی تشکیل نو کی درخواست کی جمع کروائی تھی ۔ سماعت کے دوران ڈاکٹر طاہر القادری نے دلائل سے پہلے عدلیہ کی بحالی میں اپنا حصہ ظاہرکر نے کی بھی کوشش کی اِس پر چیف جسٹس نے کہا کہ ایک غیر ملکی شہری پاکستانی پارلیمنٹ پر کیسے عدم اعتماد کر سکتا ہے ۔ آپ اپنے کیس کی بات کریں باقی باتیں چھوڑیں، پہلے اس پر مطمئن کریں کہ پٹیشن دائر کرنے کیلئے آپ کا حق دعویٰ بنتا ہے یا نہیں۔ آرٹیکل 63کے تحت آپ کے پارلیمنٹ جانے پر پابندی ہے ۔چیف جسٹس نے طاہر القادری سے سوال کیا کہ کینیڈا کی شہریت کیلئے اٹھایا گیا وفا داری کا حلف پڑھ کر سنا سکتے ہیں ۔اس پر طاہر القادری نے جواب دیا کہ میرے پاس اس کی کاپی نہیں ہے ۔ سوال یہ نہیں جسٹس شیخ عظمت سعید نے کہا سوال وہ ہے جو ہم پوچھیں گے ۔طاہر القادری نے کہا کہ پاکستان کے قانون میں آرٹیکل 14 کے تحت پاکستان کیساتھ دوسرے ممالک کی شہریت بھی رکھ سکتے ہیں ۔اس سے قبل چیف جسٹس نے کہا کہ جو شخص عدالت میں آتا ہے اس سے سوالات پوچھنے پڑتے ہیں ۔ آپ سے بہتر سکالر شاید دنیا میں نہ ہو لیکن بطور مسلمان آپ کو پتا ہو نا چاہیے کس سے حلف لینا ہے ۔آپ ہی یہاں بیٹھے ہیں ۔ 18کروڑ عوام کی بنیادی حق کے تحفظ کیلئے بھی نیک نیتی لازمی ہے ۔ ہم نے آپ کو بہت سن لیا۔ طاہر القادری اور چیف جسٹس کے درمیان تلخ جملوں کا تبادلہ بھی ہوا ۔
عدالت نے طاہر القادری سے پوچھا کہ وہ الیکشن کمیشن کو کیوں تحلیل کروا نا چاہتے ہیں ۔ بادی النظر میں یہ بات درست نظر آتی ہے طاہر القادری کا مقصد الیکشن کا التواء ہے جو اس وقت نہیں کیا جا سکتا ہے ۔ ملک الیکشن کی طرف بڑھ رہا ہے ایسے وقت میں الیکشن کمیشن کی تحلیل کا مقصد درست نہیں۔ آخر 13فروری 2013ء کو سپریم کورٹ نے مختصر فیصلہ سنایا۔فیصلے کے مطابق ڈاکٹر طاہر القادری آئین کے آرٹیکل 184(3)کے تحت عدالت کی طرف سے اپنا صوابدیدی اختیار استعمال کرنے کے بارے میں قائل نہیں کر سکے ۔ ان کے کسی بھی حق کی خلاف ورزی نہیں ہوئی اور نہ ہی انہوں نے اپنی پٹیشن میں اس کا اظہارکیا ہے اور نہ وہ بنچ کے بار با ر اصرار کے با وجود کسی قسم کے دلائل نہیں دے سکے ۔ سماعت کے دوران یہ بات نوٹ کی گئی ہے کہ عدالت کی طرف سے اس کے اختیار کے استعمال کئے جانے کے بارے میں اپنی نیک نیتی ثابت کرنے میں ناکام رہے ، تاہم یہ بات بھر پور اور پرزور انداز میں واضح کی جاتی ہے دیگر سمندر پار پاکستانیوں کہ طرح جن کے نام بھی انتخابی فہرستوں میں درج ہیں وہ اپنا رائے دہی استعمال کر سکتے ہیں ۔ دلائل کے اختتام کے وقت انہوں نے بنچ کے ایک رکن کے خلاف الزام تراشیا ں شروع کر دی جو ان کی اتھارٹی متاثر کرنے کی کوشش تھی ۔جس پر ان کے خلاف توہین عدالت کی کاروائی ہو سکتی تھی تاہم تحمل کا مظاہرہ کرتے ہوئے عدالت نے ان کے خلاف کارروائی نہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے ۔ دریں اثنا ء تحریک منہاج القرآن کے سربراہ نے الیکشن کمیشن کے خلاف سپریم کورٹ سے اپنی درخواست مسترد کرنے کے فیصلے کو سیاسی، آئین و قانون کے خلاف اور بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کے حقوق کو مجروح کرنے مترادف قرار دیتے ہوئے کہا کہ مجھے اصل پٹیشن پر بات کرنے کی اجازت ہی نہیں دی گئی ۔دوہری شہریت کے حامل پاکستانیوں کی وفا داری پر شک نہیں کیاجا سکتا البتہ درخواست کو خارج کرنے کا فیصلہ درست ہے ۔ طاہر القادری نے جو ڈرامہ رچایا ہے اس کا نقاب عدلیہ اور میڈیا نے اتار دیا ہے ۔ انہوں نے سپریم کورٹ کے باہر جس طرح کی زبان استعمال کی وہ ڈرامہ کی ناکامی کا اعتراف ہے۔ ڈاکٹر صاحب کو چاہئے کہ وہ واپس چلے جائیں اور دین کی خدمت کریں۔ سیاست میں وہ پہلے بھی ”اَن فٹ“ تھے اس بار بری طرح ناکام ہو گئے ہیں۔ تاہم انہیں آج نہیں تو کل ان اربوں روپوں کا حساب دینا ہو گا جو جلسے اور دھرنے پر خرچ کئے گئے۔
تازہ ترین