• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پاکستان اور ایران صدیوں پرانے تاریخی، تہذیبی اور ثقافتی روابط کے ذریعے بھی آپس میں بندھے ہوئے ہیں اور ایک طویل مشترکہ سرحد نے بھی انہیں ہمسائیگی کے رشتے میں پرویا ہوا ہے۔ اس لئے وہ ایک ہی جسم کے ایسے اعضاء جوارح ہیں جنہیں ایک دوسرے سے الگ نہیں کیا جا سکتا اور یہی وجہ ہے کہ حریفوں کی جانب سے ان میں کدورتیں اور دوریاں پیدا کرنے کی آج تک جتنی بھی کوششیں کی گئیں وہ بار آور نہیں ہو سکیں کیونکہ جب بھی کسی طرف سے اس نوع کی کوئی جدوجہد کی جاتی ہے تو دونوں ممالک کے ارباب اختیار اس کے منفی اثرات سے بچنے کیلئے آپس میں مل بیٹھتے ہیں اور معاملات کو کسی بھی غلط نہج پر جانے سے روکنے کے ذرائع تلاش کرنے کی سعی کرتے ہیں، ایرانی صدر حسن روحانی کے حالیہ دو روزہ دورہ پاکستان کو اس تناظر میں دیکھا جائے تو یہ دونوں ملکوں میں ایک نئے عہد کے آغاز کیلئے اٹھایا جانے والا بروقت قدم ہے جس کی کسی قدر تفصیل یہ ہے کہ ایرانی قیادت کی جانب سے امریکہ اور اس کے اتحادیوں کے ساتھ اپنے جوہری پروگرام کو رول بیک کرنے کے بعد ایران پر قریباً گزشتہ بیس سال سے عائد سخت اقتصادی پابندیاں کم و بیش نہ صرف ختم کر دی گئی ہیں بلکہ تہران کو اس کے منجمد کردہ اثاثوں میں سے دو ارب ڈالر کی خطیر رقم تین قسطوں میں ادا بھی کی جا چکی ہے۔ ایران کو پانچ لاکھ ڈالر بیرل تیل روزانہ عالمی منڈی میں بھجوانے پر بھی عمل درآمد شروع ہو چکا ہے جس کے نتیجے میں امریکہ اور مغربی ممالک ہی نہیں تیسری دنیا کے دیگر ممالک بھی ایران کے ساتھ اپنے زیادہ سے زیادہ تجارتی روابط قائم کرنے کیلئے ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کی تیاری کر رہے ہیں ادھر پاکستان اور چین کے درمیان بڑھتے ہوئے تجارتی تعلقات اور اقتصادی راہداری کی تعمیر نے پاکستان کو اس علاقے میں ایک ایسے اہم مقام پر لا کھڑا کیا ہے کہ اگر سی پیک منصوبہ اپنی پوری وسعتوں کے ساتھ تکمیل پذیر ہو گیا تو اس پورے خطے کی اقتصادی تقدیر بدل کر رہ جائے گی۔ان حالات میں ایران اور پاکستان کا ایک دوسرے کے ساتھ مل کر موقع کا فائدہ نہ اٹھانا ایک ایسی غلطی ہو گی جس کے اثرات صرف تہران و اسلام آباد تک ہی محدود نہیں رہیں گے بلکہ اس کا خمیازہ پورے جنوبی ایشیاکو بھگتنا ہوں گے۔ پاکستان کو اپنی معاشی ترقی کی رفتار کو تیز تر کرنے کیلئے زیادہ سے زیادہ توانائی کی شدید ضرورت ہے ایران پاکستان کو ایک ہزار سے لیکر تین ہزار میگا واٹ بجلی دینے کیلئے تیار ہے جبکہ پاکستان اس سے آج کل صرف 100 میگا واٹ بجلی لے رہا ہے ۔ اس کے علاوہ صدر روحانی نے گوادر کو چاہ بہار سے منسلک کرنے اور پاک چین اقتصادی راہداری کا دائرہ ایران تک بڑھانے کا عندیہ بھی دیا ہے جسے عملی شکل دینے کیلئے بھرپور جدوجہد کی جانی چاہئے۔ پاکستان اور ایران کے سامنے کھلنے والے ترقی کے یہ وسیع تر امکانات دونوں ممالک کے عوام کیلئے یقیناً خوش کن ہیں اور وہ ان خوابوں کی جلد تر تعبیر کے خواہاں بھی ہیں لیکن پاکستان کے روایتی حریفوں کے دل میں یہ صورتحال خار مغیلاں بن کر کھٹک رہی ہے اور وہ دونوں ملکوں کے درمیان غلط فہمیاں پیدا کرنے کی مقدور بھر کوشش بھی کر رہے ہیں۔ پاک ایران سرحد پر ہونے والی انسانی سمگلنگ، منشیات کی ادھر ادھر منتقلی اور اس نوع کے کئی دوسرے ایسے جرائم ہیں جو بعض اوقات ہر دو ممالک میں تلخیاں پیدا کر دیتے ہیں بلوچستان میں بھارتی خفیہ ایجنسی را کی جانب سے کی جانے والی دہشت گردی کی تاریں اگرچہ زیادہ تر افغانستان سے ہلائی جاتی ہیں لیکن اس کیلئے بعض اوقات ایرانی سرزمین کو بھی استعمال کیا جاتا ہے جس کی تازہ ترین مثال بھارتی بحریہ کے حاضر سروس ’’را‘‘ کے ایجنٹ کا بلوچستان سے پکڑا جانا ہے یہ شخص ایرانی ویزہ پر پاکستان داخل ہوا اور ناآسودہ بلوچ نوجوانوں کو نہ صرف بھارت میں دہشت گردی کی تربیت دلواتا رہا بلکہ انہیں مالی وسائل بھی فراہم کرتا رہا جنرل راحیل شریف نے صدر روحانی سے ایرانی سرزمین کو پاکستان کیخلاف استعمال نہ کئے جانے کی درخواست کی ہے اگرچہ ایرانی صدر نے اس کی تصدیق نہیں کی ممکن ہے اس حوالے سے ان کے اپنے تحفظات اور مصالح ہوں لیکن معاملہ خواہ کیسا ہی کیوں نہ ہو اصولی طور پر کسی بھی ملک کی سرزمین کو کسی دوسرے ملک کیلئے استعمال نہیں ہونا چاہئے۔
تازہ ترین