• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

عمران حکومت کے مقابلے میں مولانا فضل الرحمٰن کی تحریکِ آزادی کا کیا انجام ہو سکتا ہے اس کے بارے میں کوئی یقینی قسم کی قیاس آرائی کرنا بھی کارے دارد ہے، چہ جائیکہ آدمی کسی یقینی امکان کا اظہار کرنے بیٹھ جائے، البتہ یہ موقع ایسا ضرور ہے جس میں ’’عمران خان کے امکانی سیاسی مستقبل کے ایک جائزہ‘‘ میں جھانکنے کی کوشش کی جا سکتی ہے۔ میں نے جب بھی اس حوالے سے اپنے ذہن میں جھانکا مجھے مولانا ابوالکلام آزاد کی ایک تحریر نے بے پناہ اپنی طرف مبذول کیا۔ وہ تحریر پہلے آپ ملاحظہ فرمایئے۔ مولانا رقمطراز ہیں۔

’’انا نیتی ادیبات‘‘ کی نسبت زمانۂ حال کے بعض نقادوں نے یہ رائے ظاہر کی ہے کہ وہ یا بہت زیادہ دلپذیر ہوں گی یا بہت زیادہ ناگوار، کسی درمیانی درجہ کی یہاں گنجائش نہیں۔ ’’انا نیتی ادیبات‘‘ سے مقصود تمام اس طرح کی خامہ فرسائیاں ہیں جن میں ایک مصنف کا "EGO" یعنی ’میں‘ نمایاں طور پر سراسر شخصی اسلوب نظر و فکر، میں نے نمایاں طور کی قید اس لئے لگائی کہ اگر نہ لگائی جائے تو دائرہ بہت زیادہ وسیع ہو جائے گا۔ ہم اپنے ’’ذہنی آثار‘‘ کو ہر چیز سے بچا کر لے جا سکتے ہیں مگر خود اپنے آپ سے بچا نہیں سکتے۔ ہم کتنا ہی ضمیر غائب اور ضمیر مخاطب کے پردوں میں چھپ کر چلیں لیکن ضمیر متکلم کی پرچھائی پڑتی ہی رہے گی۔ ہماری کتنی ہی خود فراموشیاں جو دراصل ہماری خود پرستیوں سے ہی پیدا ہوتی ہیں‘‘۔

خاکسار نے ملک میں مولانا فضل الرحمٰن کی ’’عمران خان حکومت سے تحریکِ آزادی‘‘ کے تناظر میں عمران خان کی سیاسی شخصیت اور عمران خان کی ذاتی شخصیت کو اپنے قلب کی آواز میں سننا چاہا، مجھے مولانا کا یہ پیرا گراف ذہناً چمٹ کر رہ گیا ہے۔

مثلاً عمران خان نہ بہت دلپذیر ہے نہ بہت ناگوار، مثلاً عمران خان زندگی اور سیاست کی گھنائیوں میں خواہ وہ کسی قسم کی ہوں یا کسی نوعیت کے مقام مرتبہ سے تعلق رکھتی ہوں، اپنے ذہنی آثار سے پیچھا نہیں چھڑا سکتے۔ ان کی ذات میں ’’خود فراموشی اور خود پرستی‘‘ کے عناصر نے ایک جادوئی شکل اختیار کر لی ہے جس سے وہ انہیں باہر نہیں نکلنے دیتی۔

عاجز کے ذہن میں اس پسِ منظر میں عمران خان کے ممکنہ سیاسی مستقبل کی جو شکل متشکل ہوئی ہے وہ بھی الف لیلہ کے اڑتے قالین کی طرح جادوئی سی ہے جس کا کوئی ایک کونہ پکڑ کر بھی لٹک نہیں سکتے، سوائے عمران خان کے جو اس ’’جادوئی قالین‘‘ پر پورے طمطراق اور پورے ’’تن تنا‘‘ کے ساتھ سوار ہیں مگر عملاً نقشہ کیا ہے۔

اس کا آغاز عمران حکومت کے گزرے سال کے اندازِ حکمرانی اور کارکردگی سے لیتے ہیں۔ آپ کا اتفاق ضروری نہیں چونکہ نہایت نیک نیتی سے یہ محض ایک زاویۂ نظر ہے جس کی رو سے عمران خان کے سیاسی مستقبل کے امکانات کو دیکھنا مقصود ہے۔ یہ بات اس سلسلے میں کسی فرق کی سزا وار نہیں ہو سکتی کہ ابھی تو عمران حکومت کو ایک ہی سال گزرا ہے، اس لئے کہ یہ کوئی حکم نہیں لگایا جا رہا پاکستانی سیاست کے ایک اہم ترین فگر کی ’’سیاسی اور ذاتی شخصیت‘‘ کا کھوج لگانا مقصود ہے۔

مثلاً پہلے نکتے کے طور پر آپ عمران حکومت کی کارکردگی ہی کو سامنے رکھیں۔ خان صاحب اور اُن کی حکومت لوٹی ہوئی دولت واپس لاتی ہے یا نہیں مگر پاکستان کے کاروباری ماحول کو جس برق رفتاری سے عمران حکومت نے ایک سنسنی خیز خوف میں تبدیل کر کے ریڑھی والے سے لے کر صنعتکار تک کو فشارِ خون (بلڈ پریشر) اور خوف کی کپکپی کا مریض بنا دیا ہے اور جیسے جیسے قوانین بنا کر لوگوں کو سرکاری اہلکاروں تک یہ درخواست کرنے پر مجبور کر دیا ہے ’’جناب، ہمیں جلدی ہے، جوتے لگانے والوں کی تعداد بڑھا دیں‘‘ یہ عمران حکومت ہی کا قصہ ہے اور اس میں خان صاحب کی وہی ’’فراموشی اور خود پرستی‘‘ اپنا رقص جاری رکھے ہوئے ہے۔

اسی ’’خود فراموشی اور خود پرستی‘‘ کی دین ہے کہ دنیا میں یہ قوم ٹیکس چور اور کام چور، مشہور ہو چکی ہے اور آج پاکستان کے کاروباری ماحول میں موجود ہر شخص اپنی جان اور اپنا جائز مال بچانے کے لئے بھی سرکاری اہلکاروں کے قدموں پر سر رکھنے کو تیار ہے!

اس وقت تو عمران خان کے حامیوں کو اس میں عمران کی قومی خدمت کا گلیمر اور رومانس نظر آتا ہے مگر ایک وقت آتا محسوس ہوتا ہے جب خان صاحب کو اپنے حامیوں سے بھی اس دھرتی سے اُسی طرح ایک بھی ووٹ نہیں ملے گا جس طرح گزشتہ انتخابات میں پاکستان پیپلز پارٹی کے ساتھ ہوا تھا۔

ایک اور بڑی غلط فہمی ہے! عمران خان کی ’’دلپذیری‘‘ کے سحر میں گرفتار لوگ کہتے ہیں، عمران کو بھیجنا کوئی خالہ جی کا باڑہ نہیں، وہ یہ کر سکتے ہیں وہ وہ کر سکتے ہیں، بھئی معاملہ یہ ہے ہی نہیں، معاملہ یہ ہے کہ عمران خان صاحب کی اس ’’دلپذیری‘‘ کے باوجود آپ یقین کر لیں، انہیں ووٹ ملنے کا اندازہ صفر سے بھی کم ہے، اب آپ یہاں معجزات یا کرامات کا حوالہ نہ دیں، البتہ اتنا جانتے ہیں قدرت کی یہ کائنات اس کے ان بنائے ہوئے قوانین کے تحت چل رہی ہے جن کے ضمن میں یہ ڈیکلریشن موجود ہے ’’سنتِ الٰہی کبھی تبدیل نہیں ہوتی‘‘ اور یہ کہ ’’ہر انسان کو وہی ملے گا جس کی اس نے سعی کی ہوگی‘‘۔ اس لمحے تک تو عوام خان صاحب کی حکومت کی کارکردگی سے جان کنی تک آ چکے ہیں، آگے وہ جانتا جو سب جانتا ہے۔

اس امکانی تجزیے کا تعلق مولانا فضل الرحمٰن کی موجودہ ’’تحریک آزادی‘‘ کی وقتی اٹھک بیٹھک سے نہیں، یہ وہ ’’خیالات‘‘ ہیں جو ان دنوں اکثر عمران کی ’’دلپذیری‘‘ کے خواہوں اور نیک نیت خود فراموشی اور خود پرستی کی بڑبڑہٹوں کے غلبے نے ہمارے گھیرائو کی کیفیت اختیار کر لی ہے، ہم بھی بار بار نہایت نیک نیتی سے اپنی اس بڑبڑاہٹوں کے غلبے سے نجات کی دعا مانگ رہے ہیں مگر دل ٹھکتا نہیں اور طبیعت پھڑکتی نہیں۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین