• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

’’بس کی چھت پر بیٹھ کر کئی گھنٹے کی مسافت کے بعد ایک نئی جگہ پر اترا تو رات کا پہلا پہر گزر چکا تھا۔ میرے لیے چکاچوند روشنیاں اور بلند عمارتیں کسی عجوبے اور حیرت سے کم نہ تھیں۔ ہر طرف اسٹریٹ لائٹس نے رات کو دن کی طرح روشن کر رکھا تھا۔ چھت سے اترا تو حالت بہت خراب تھی، تھکن بھی تھی لیکن دیگر ساتھیوں کے ساتھ قائد کے حکم پر اسلام آباد پہنچنا بھی تو بہت ضروری تھا۔ گزشتہ کئی جمعہ کے خطبات میں ہمارے گائوں اور قریبی علاقوں کی مساجد میں اعلانات کیے گئے کہ اسلام آباد میں اسلام کو خطرہ ہے، اسرائیل کو تسلیم کر کے نظامِ اسلام کو کفار اور استعماری قوتوں کے حوالے کیا جا رہا ہے، ختم ِ نبوت کے قانون کو بھی ختم کیا جارہا ہے۔ ہمارا ایمان ایسا جاگا کہ اپنی چلتی دکان بند کی اور اسلام کی سر بلندی کے لیے چل پڑے۔

کئی دن کے سفر اور دیگر صعوبتیں برداشت کر کے جلسہ گاہ پہنچ کر جس کو جہاں جیسی جگہ مل رہی تھی اپنا بستر ڈال رہا تھا، میرے پاس نہ بستر تھا نہ ٹینٹ، بس ایک بیگ تھا، ایک چادر نکالی، بچھائی اور لیٹ گیا ، اذانوں کی آواز اور ٹھنڈی سرسراتی ہواؤں نے صبح خوشگوار بنادی تھی۔ میرے گائوں کی طرح یہاں کی فضا صاف تھی۔ اذانوں کی آواز سن کر یقین آگیا کہ یہ مسلمانوں کا شہر ہے۔ قائد کے آئندہ کے احکامات کا انتظار تھا۔قائد پہنچے اور اسٹیج سے اعلان فرمایا کہ یہ غیر قانونی و غیر اسلامی حکومت ہے، ہم وزیراعظم سے استعفیٰ لیں گے ورنہ وزیراعظم ہاؤس جاکر اس کو گرفتار کر لیں گے، بس یہ سننا تھا کہ میرا ایمانی جوش عروج کو پہنچ گیا، دل چاہا سب سے آگے جا کر ’’والی ٔ ریاست ‘‘کو گریبان سے جا پکڑوں اور دنیا و آخرت میں کامیاب ہو جاؤں مگر قائد کی دو دن کی ڈیڈ لائن آڑے آگئی جس نے میرے جذبات کو کچھ ٹھنڈا کردیا۔ صبح ہوئی کچھ دوستوں نے ناشتے کے بعد اس دلفریب شہر کے نظاروں کو دیکھنے کا پروگرام بنایا۔ جلسہ گاہ میں خوب کھیل کود کے بعد وہاں سے نکلے تو اپنے گائوں جیسے سرسبز پہاڑ دیکھے مگر خوبصورت پارک اور کشادہ سڑکیں پہلی مرتبہ دیکھیں، شیشے کی بلند عمارتیں اور بڑے بڑے فانوسوں والے گھر، چمکتی دمکتی بڑی بڑی گاڑیاں جو کبھی قائد کی اپنے غریب علاقے میں آمد پر دیکھتے تھے۔ مسلسل اور ہر جگہ دیکھیں۔ میرے گاؤں میں تو کوئی پکا گھر تک نہیں، پارک ہے نہ کبھی کوئی جھولا دیکھا۔ نہ بجلی، نہ گیس، نہ کوئی جدید آلات دیکھے اور نہ ٹیکنالوجی۔ والدین غریب تھے۔ 12بہن بھائی، والدین نے دین و دنیا کے علم کے لیے ہم پانچ بھائیوں کو مدرسے میں ڈال دیا۔ تین بہنیں بی بی جی کی خادمہ بن گئیں، بس ساری عمر مزدوری اور خدمت میں گزری لیکن بہت خوش اور شکرگزار ہوں کہ قائد کی نظرِ کرم ہو گئی اور نیک مقصد کیساتھ اسلام آباد دیکھنا نصیب ہو گیا۔ اب فتح کے اعلان کے بعد انقلاب برپا ہونے کا انتظار ہے۔ واپسی پر اپنے بچوں کو بتاؤں گا کہ کیا کچھ دیکھا، کیسے خوبصورت جھولے لئے، کیا کیا خوبصورت نظارے، کہاں کہاں گھوما۔44سالہ بہادر خان (قلمی نام) بولے جارہا تھا اور میں اس کے چہرے پر عیاں حسرت اور مضطرب تاثرات دیکھ رہا تھا۔ بولا ایک تین ستونوں والی بڑی عمارت دیکھ کر دوستوں کیساتھ پہنچا تو داخلی راستے پر مسلح گارڈ نے اندر جانے کی وجہ پوچھی تو ہمارا حلیہ دیکھ کر بولا گھومنے کی جگہ اندر نہیں باہر ہے ہم مایوس واپس جلسہ گاہ لوٹ آئے، قائد نے آگے بڑھنے کے بجائے صبر کی تلقین کی تو دل دھک سے رہ گیا، بُرے خیالات آنے لگے کہ سب کچھ اپنا وار کے بھی دنیا ملے گی نہ جنت۔ شہر اقتدار کے پُرآسائش خوش نصیب دیکھ کر آنسو نکل آئے کہ انہوں نے ضرور کوئی بڑی قربانی دی جو آج سب نعمتیں اور آسائشیں نصیب ہیں کیونکہ بچپن سے قاری صاحب اور مفتی صاحب سے روز سنا تھا کہ نیک اعمال اور جان سمیت قیمتی ترین چیز کی قربانی سے ہی دنیا اور آخرت میں آسائشیں اور سکون ملے گا۔

میں بہادر خان کے چہرے پر مایوسی دیکھ سکتا تھا کیونکہ اس کے قائد منزل حاصل کرنے اور واپسی کا اشارہ دے چکے تھے۔ میں متجسس اور پریشان تھا کہ یہ انہی ہزاروں باوردی اور بغیر وردی کارکنوں میں سے ایک بہادر شخص ہے جو ہر کچھ سال بعد انقلاب کی خاطر کبھی کسی مفتی، کسی قاری، کسی مولانا اور کبھی سیاسی رہنما کیساتھ اپنا سب کچھ قربان کرنے کے لیے نکل پڑتا ہے اور پھر تبدیلی لائے بغیر قائد کے حکم پر مایوس لوٹ جاتا ہے۔ میں دیکھ سکتا تھا کہ بہادر خان کا پہاڑ جیسی مشکلات کے باوجود حوصلہ بلند تھا جو کمزور ہوتے لہجے سے ٹوٹتا محسوس ہو رہا تھا۔ میں نے اس کی آنکھوں میں تیرتے موتیوں کو اپنے ہاتھوں سے سمیٹتے اور نیک خواہشات کیساتھ یہ سوچتے ہوئے اجازت چاہی کہ بہادر خان اور اس کے ہزاروں ساتھیوں، ان کے بچوں کی محرومیوں کا ذمہ دار کون ہے؟ یہ خود یا انکے والدین، مدرسہ کا ممتحن یا مفتی، انقلاب کا راستہ دکھانے والا قائد یا ریاستِ پاکستان کے ادارے؟ مگر سچ اور یقین ہے کہ ہم سب ان کے حالات کے اصل ذمہ دار ہیں۔ ریاستِ مدینہ کا نام لینے والوں کو سمجھنا ہوگا کہ یہ ہمارے بھائی، ہمارے ساتھی، ہمارے ہم وطن ہیں ان کاخیال کریں ان کے اور انکی نسلوں کے مستقبل کی ذمہ داری آپ کی ہے۔ ان تک پہنچیں انہیں سنیں اور انکی سوچ اور حالت بدلنے سے پہلے اپنی ترجیحات بدلیں، ورنہ مذہب کے نام پر ان بےبس اور معصوم انسانوں کا استعمال واستحصال جاری رہے گا۔

تازہ ترین