• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
دوسری جنگ عظیم ختم ہونے کے بعد مغربی یورپ، امریکہ اور ان کے اتحادی(کینیڈا‘ آسٹریلیا‘ نیوزی لینڈ، سکینڈے نیویا کے ممالک وغیرہ) یہ دنیا کے سب سے پرامن، ترقی یافتہ اور پرکشش خطے ہیں۔ قانون کی حکمرانی، جمہوری طرز حکومت، شہریوں کی سلامتی، سرحدوں کی حفاظت کا قابل بھروسہ نظام۔زیادہ تر فلاحی ریاستیں ہیں، جہاں بے روزگار، بچے، بزرگ اور معذور افراد کیلئے باعزت زندگی بسر کرنے کا نظام وضع کیا گیا ہے۔ چنانچہ یہ ممالک تیسری دنیا کے غریب عوام کیلئے بڑی کشش رکھتے ہیں، ہر کوئی ان ملکوں کو دیکھنے، اس کے نظام سے مستفید ہونے اور وہاں بس جانے کی آرزو رکھتا ہے۔ ان ملکوں کے سیاستدانوں اور مدبروں نے اپنے لئے بہترین نظام وضع کیا جس نے ان کی زندگیوں کو محفوظ بنا کر آسائش سے بھر دیا ہے۔ ان کا سب سے بڑا کارنامہ نظم و ضبط اور نظام حکومت ہے۔ اقتدار عوام کی رضا سے حاصل اور ان کی مرضی سے ختم ہو جاتا ہے، یہی ان کے امن و راحت کا سبب ہے کہ ہر چار پانچ برس میں لوگوں کو اپنے حکمرانوں پر صاد کرنے یا نیا چننے کیلئے موقع دیا جاتا ہے، اگر کارکردگی ٹھیک ہے تو لوگ حکمراں کو باقی رکھتے ہیں ورنہ زیادہ پرکشش مستقبل کا وعدہ کرنے اور پروگرام دینے والے کو موقع دیاجاتا ہے کہ وہ اپنی ذہانت، علم اور پروگرام کو عمل میں لا کر ملک کی ترقی اور خوشحالی کو آگے بڑھائے۔ ترقی یافتہ ملکوں اور پس ماندہ رہ جانے والوں میں بنیادی اور ضروری فرق اسی نظام حکومت کا ہے۔
تقریباً ایک صدی کے امن و راحت کے بعد خوف اور خطرے نے ان کے سکون کو غارت اور فکرمندی کو بڑھا دیا ہے۔ یورپی اقوام کی تین سو سالہ برتری اور گزشتہ سات دہائیوں کا امن و چین، اب شعلوں کی زد میں ہے۔ ابھی یہ فیصلہ ہونا باقی ہے کہ یہ حاسدوں کا حسد ہے یا تیرہ سو سالہ مسابقت اور دشمنی کا شاخسانہ۔ مغرب کے عیسائیوں کا امن برباد ہے تو مشرق کے مسلمانوں کی زمین اپنے لہو سے سیراب ہو رہی ہے۔ مغرب اپنی سرحد کی حفاظت اور شہری کی زندگی کے بارے میں بہت حساس ہے، وہ شہریوں کے جان و مال کی حفاظت کیلئے ہر وقت چوکس اور ہوشیار ہے لیکن یہ چوکسی، ہوشیاری اور حساسیت صرف اپنے عوام کیلئے، اپنے شہریوں کے واسطے، باقی دنیا کے زندہ انسانوں کی قدر و منزلت اور عزت نفس کا کوئی پاس ہے نہ لحاظ۔ چار ماہ پہلے مشرق وسطیٰ کے راہ بھٹکے لوگوں نے فرانس کے دارالحکومت پیرس میں متعدد مقامات پر فائرنگ اور خودکش حملے کرکے 135 لوگوں کو ہلاک اور 368 کو بری طرح زخمی کر دیا۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد یہ فرانس پر سب سے خوفناک حملہ تھا جس میں اتنی انسانی جانو ں کا اتلاف ہوا اور پورے یورپ میں غم و غصے کی لہر دوڑ گئی۔ اہل یورپ ابھی اس صدمے سے نکل نہیں پائے تھے کہ 22 مارچ کو بلجیم کے شہر ’’برسلز‘‘ میں خودکش حملہ آوروں نے تباہی مچا دی، جس میں 34 لوگ ہلاک اور 300 سے زیادہ زخمی ہو گئے۔ فرانس‘ بلجیم اور انگلینڈ کا پور ا نظام زندگی معطل ہو کر رہ گیا،ان حملہ آوروں میں دو بھائی بھی تھے خالد اور ابراہیم، ان کے اجداد الجزائر سے تعلق رکھتے تھے لیکن یہ نوجوان فرانس کے شہری اور بلجیم میں رہائش پذیر تھے، کچھ ہی عرصہ پہلے انہیں ترکی سے ’’ملک بدر‘‘ کیا گیا اور یورپ کی ایجنسیوںکو ان کی سرگرمیوں کے بارے میں آگاہ کر دیا گیا تھا لیکن ان سے چوک ہوئی اور یہ یورپی یونین کے دارالحکومت اور دنیا کے سب سے بڑے فوجی اتحاد ’’نیٹو‘‘ کے ہیڈکوارٹر میں خطرناک اور خون ریز حملہ کرنے میں کامیاب ہوگئے۔ عالمی امن اور تہذیبوں کی ہم آہنگی کو خطرے میں ڈالنے والے عالمی دہشت گردوں کی طرف سے یہ ’’ابتداء ہے نہ انتہا‘‘۔ اس سے پہلے یہ سلسلہ عربوں کے سینے پر اسرائیل کا خنجر پیوست کرنے کے دن سے قطرہ قطرہ لہو مسلسل رستا ہی چلا آیا ہے لیکن اب یہ زخم بو دینے لگا ہے، پرانے زخم سے اٹھنے والا تعفن اب دور و نزدیک ساری فضا کو مسموم کرنے لگا ہے مگر اس زخم کو دھونے اور مرہم رکھنے والا کوئی نہیں۔1980ء سے 2000ء تک بیس برس کے عرصے میں دنیا بھر کے مختلف شہروں اور علاقوں میں تقریباً 36 حملے ہوئے، یہ سارے حملے اسرائیل کے فلسطین پر قبضے کا شاخسانہ تھے، ان میں پچاس فیصد سے زیادہ اسرائیل میں کئے گئے اور باقی نصف اسرائیلی مفادات پر کئے گئے، یعنی دنیا کے امن کو بھسم کرنے والا شعلہ فلسطین میں روشن ہے!! پھر 11 ستمبر 2001ء کو نیویارک کے ’’دو مینار ‘‘(Twin Towers)یعنی اقتصادی شہ رگ، پینٹا گون، فوجی طاقت اور واشنگٹن، سیاسی رعونت پر بیک وقت 19 عرب باشندوں نے چار مسافر بردار جہازوں پر قبضہ کر کے انہیں مختلف عمارات سے ٹکرا دیا، جس میں دو ہزار نو سو چھیانوے (2996) لوگ ہلاک ہو گئے، جس میں چار جہاز، ان کے 246 مسافر اور 19 ہائی جیکرز بھی شامل تھے۔ امریکہ کی تاریخ میں یہ امریکہ پر ہونے والا سب سے خوفناک حملہ تھا۔ 1980ء سے پہلے بھی عربوں نے بحیثیت مجموعی اسرائیل کے قیام پر غم و غصے کا اظہار کیا۔ دو جنگیں ہوئیں مگر یورپ اور امریکہ کی مجموعی طاقت اسرائیل کی پشت پر تھی، اس لئے عرب حکمران اس کا کچھ نہ بگاڑ سکے۔
فلسطینیوں کے قتل و غارت گری، بے آبروئی، ارزانی سے یورپ کے ضمیر نے آنکھ کھولی نہ ہی یہودی انتہا پسندوں نے پروا کی۔ ’’یہودیوں کے بدترین بنیاد پرست‘‘ اور ’’امریکہ کے بدترین ’’نیوکون‘‘ نے اپنے آباء یورپ کی طرح دنیا بھر میں اپنی نوآبادیاں قائم کرنے کیلئے پہلے افغانستان پھر عراق کو تہہ و بالا کر ڈالا۔ اب مسلمانوں کے بدترین ان کی جان کو اٹک گئے ہیں، بدترین تو بدترین ٹھہرے،اگر اپنوں نے بھی سمجھانے کی کوشش کی تو ان کی جان کو آ گئے۔ یورپ اور امریکہ کی سیاسی تلچھٹ نے عاقبت نااندیشی سے کام لے کر لاکھوں کی زندگی چھین لی، کروڑوں کے گھر اجاڑ دیئے۔ 1980ء سے مغرب کی طرف سے یورپ کی آخری یلغار کے نتیجے میں افغانستان میں بیس سے پچیس لاکھ افراد ہلاک ہوئے، اس میں عورت، بچے اور بوڑھے کی کوئی تمیز نہیں۔ روس و امریکہ دونوں نے یکے بعد دیگرے اسے کچل ڈالا ‘ عراق میں دس سے پندرہ لاکھ مقتول ہوئے، لیبیا میں کوئی شمار نہیں، تازہ ترین شکار گاہ شام میں تین سے پانچ لاکھ لوگ شہید کئے جاچکے ہیں، پچاس لاکھ سے زیادہ کے گھر مسمار ہو گئے، وہ پناہ کی تلاش میں دربدر ٹھہرے۔ پاکستان میں ایک لاکھ جان سے گئے۔یمن، ایران، ترکی، اردن، چیچنیا، کشمیر، انڈیا کے مسلمان، سوڈان، میانمار اور انڈونیشیا میں ہونیوالے دھماکوں میں مقتولین کی تعداد کا شمار کیا جائے تو ان تین دہائیوں میں لگ بھگ ایک کروڑ مسلمان ہلاک اور تقریباً تین کروڑ بے گھرہوئے۔ کیا پوری دنیا میں ساری آفت صرف مسلمانوں کیلئے ہے؟ کوئی اور کیوں نہیں؟ جن کے سینوں میں انتقام کی آگ دہک رہی ہے وہ بھی بدترین ہیں۔ ہاں البتہ ہمارے ’’بدترین ‘‘انتقام کے جوش میں ہماری ہی جانوں کو اٹک گئے، ان کے انتقام کے الائو میں بھی ہم ہی جل رہے ہیں، اب ایک آدھ چنگاری امریکہ اور یورپ پر آن گری ہے، جس کی تپش نے وہاں صف ماتم بچھا دی۔
اس ساری دہشت گردی کا کوئی مذہبی پہلو نہیں ، یہ سیاسی اقتدار و اختیار کی ہوس میں آلودہ ہے، جس کی ابتدا یورپ سے ہوئی ہے،توسیع سلطنت کیلئے، اس کی انتہا مسلمان ملکوں میں ہوئی جاتی ہے، اقتدار کے حصول کی خاطر! دہشت گردی عالمی مسئلہ ہے، اس کا کوئی مقامی حل ہو ہی نہیں سکتا۔ برسلز، پیرس، لندن، نیویارک پر دہشت گرد حملوں کو کسی طرح بھی حق بجانب قرار نہیں دیا جا سکتا ، نہ اس کی حمایت اور حوصلہ افزائی کی جا سکتی ہے۔ البتہ اہل یورپ سے عرض ہے کہ ؎
اے شمع تجھ پر رات یہ بھاری ہے جس طرح
ہم نے تمام عمر گزاری ہے اس طرح
تازہ ترین