• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
اسلام آباد کے ڈی چوک پر پارلیمنٹ ہائوس کے سامنے سنی تحریک کا دھرنا اور اس سے نمٹنے کیلئے صبروتحمل، بات چیت، عدم تشدد اور پرامن ذرائع کے استعمال کی حکومتی پالیسی چوتھے روز بھی جاری رہی۔ بدھ کی سہ پہر تک کی صورتحال یہ ہے کہ مذاکرات بارآور نہ ہونے کی صورت میں آپریشن کی تیاریاں مکمل کر لی گئی ہیں اور دھرنے کے شرکا کو پرامن طور پر چلے جانے کا حتمی پیغام پہنچا دیا گیا ہے۔ وزیراعظم نوازشریف کی صدارت میں منگل کے علاوہ بدھ کو بھی اعلیٰ سطحی اجلاس ہوئے جن میں ڈی چوک خالی کرانے کی حکمت عملی کی منظوری دی گئی اور فیصلہ کیا گیا کہ مظاہرین پرامن طور پر دھرنا ختم نہیں کرتے تو انہیں آپریشن کرکے نکالا جائے۔ اس مقصد کے لئے پولیس ایف سی اور رینجرز کی بھاری نفری نے ڈی چوک کے اردگرد سرکاری عمارات اور دوسرے اہم مقامات پر پوزیشنیں سنبھال رکھی ہیں اور امکانی طور پر بدھ کی رات تک دھرنے کا ڈراپ سین متوقع ہے۔ وزیراعظم نے دھرنے کے شرکا کے خلاف آخری حد تک طاقت استعمال نہ کرنے کی ہدایت کی ہے اور حکام سے کہا ہے کہ جو لوگ خود جانا چاہیں انہیں راستہ دے دیا جائے۔ اس سلسلے میں دھرنے کے بعض رہنمائوں نے چوک خالی کرنے پر آمادگی کا اظہار بھی کر دیا ہے۔ وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان نے منگل کی رات پنجاب ہائوس میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے واضح کر دیا تھا کہ ڈی چوک کو بدھ کے روز میڈیا کے سامنے خالی کرالیا جائے گا۔ آپریشن کی ضرورت پڑی تو اس میں غیرمسلح اہلکار حصہ لیں گے تاکہ انسانی جانوں کا ضیاع نہ ہو۔ انکا کہنا تھا کہ دھرنے والوں نے انتظامیہ سے وعدہ کیا تھا کہ وہ ممتاز قادری کے چہلم کے بعد لیاقت باغ سے پرامن طور پر منتشر ہو جائیں گے۔ سینئر اکابرین نے اس معاملے میں انتہائی ذمہ داری کا مظاہرہ کیا لیکن ایک گروپ نے مطالبات پیش کرنا شروع کر دیئے۔افراتفری اور تشدد کا راستہ اختیار کیا اور لوگوں کو اشتعال دلایا جو پولیس کی نفری کم ہونے کا فائدہ اٹھا کر ریڈ زون تک پہنچ گئے انہوں نے کہا کہ جن لوگوں نے سرکاری املاک کو نقصان پہنچایا انہیں ویڈیو کی مدد سے چن چن کر پکڑیں گے بہت سے لوگوں کو گرفتار کر لیا گیا ہے دوسرے بھی نہیں بچیں گے اس بات کی تحقیقات کی جائے گی کہ انتظامیہ کی کن کوتاہیوں کی وجہ سے مظاہرین اسلام آباد کے حساس علاقے تک پہنچ گئے انہوں نے کہا کہ آئندہ کسی سیاسی یا غیر سیاسی جماعت کو وفاقی دارالحکومت پر چڑھائی کر کے ریاست کے نظام کو معطل کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی تحریک انصاف اور عوامی تحریک کے دھرنوں کے بعد اسلام آباد کے ریڈ زون میں ایک اور دھرنا جس سے حکومتی سرگرمیاں معطل ہو گئیں ڈپلومیٹک انکلیو عملاً محصور ہونے کی وجہ سے سفارتی سرگرمیاں بھی رک گئیں اورموبائل سروس اور میٹروبس بند ہونے سے شہریوں کو ناقابل برداشت پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑا حکومت کی جانب سے ایسے مستقل انتظامات کامتقاضی ہے جن کے بعد آئندہ اس طرح کا کوئی واقعہ رونما نہ ہو ریڈ زون وفاقی دارالحکومت کا انتہائی اہم اور حساس علاقہ ہے جہاں کسی سیاسی یا غیر سیاسی احتجاجی جلسے جلوس اور دھرنے کی گنجائش نہیں ہونی چاہئے اس طرح کے اجتماعات کے لئے بہتر ہے کہ کوئی اور جگہ مخصوص کر دی جائے تا کہ کسی مسئلے پر اختلافی رائے رکھنے والے لوگ اپنے جذبات کا اظہار کریں اور دل کی بھڑاس نکال سکیں۔جیسا کہ لندن میں ہائیڈ پارک اس طرح کے احتجاج کے لئے مخصوص ہے اسلام آباد کے ریڈ زون میں پارلیمنٹ ہائوس کے علاوہ غیرملکی سفارت خانے اور اہم سرکاری دفاتر موجود ہیں جنہیں اس قسم کے تشدد آمیز مظاہروں سے محفوظ ہونا چاہئے ڈی چوک کو خالی کرانے کیلئے حکومت جو بھی کارروائی کرے گی اور اس کے نتیجے میں جو نقصانات ہوں گے اس کا کریڈٹ یا ڈس کریڈٹ اس کے حصے میں آئے گا اس لئے کوشش یہ ہونی چاہئے کہ موثر پیشگی اقدامات کے ذریعے ایسی صورت حال پیدا ہی نہ ہونے دی جائے توقع ہے کہ وفاقی اور پنجاب حکومت مل کر اس مسئلے کا مستقل حل نکالیں گی اور شہریوں کوکسی پریشان کن صورتحال سے نمٹنے کیلئے واقعے کے بعد کئے جانے والے ہنگامی اقدامات سے پیدا ہونے والے مسائل سے بچائے گی۔جمہوری معاشروں میں اختلاف رائے سب کا حق ہے لیکن اس کے اظہار کیلئے انسانی جانوں اور سرکاری و نجی املاک کو نقصان پہنچانا کسی کا بھی قانونی حق نہیں۔
تازہ ترین