• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
مےں نے اپنی آواز بارہا سنی تھی مگر اپنا لہجہ پہلی بار سنا۔
کراچی مےں عباس ٹا ن کے تباہ شدہ کھنڈروں مےں جب دکھیاری ما ں اور بےٹیوں کو یہ کہتے سنا کہ ہم اِس حکومت کو نہےں مانتے تو آواز اُن کی تھی، لہجہ ہو بہو مےرا تھا۔ جی چاہتا ہے یہ تحریر یہےں لپےٹ دوں لےکن دو چار باتےں ہےں کہنے کی۔ مےں یہ سوچ سوچ کر حےران ہوں کہ کوہستان سے کوئٹہ اور کراچی تک قاتلوں کے ہاتھوں قیامت گزر گئی لےکن صاحبان ِ اقتدار کے اتنے بڑے لا لشکر مےں اےک بھی جیالا اےسا نہیں جو اپنی مسند پر لات مارے اور کہے کہ یہ سنبھالو اپنی حاکمیت، مےں جا رہا ہوں ان تباہ حال خےموں کی طرف۔ یہ سیّد فلاں عابدی اور سیّدہ فلاںرضا اقتدار کا اپنا شوق پورا کرلےں،لےکن وہ جو انسانی اذیت اور کرب کو اتنے قریب سے دےکھ رہے ہےں کہ رونے والے کے آنسو ان کے ہاتھوں کی پشت پر گرے ہےں ، کیا ان مےں اےک بھی مردِحُر نہےں؟
کسی اےک مقام ، کسی اےک ٹھکانے کی بات نہےں، جگہ جگہ کون سا ستم ہے جو نہےں توڑا گیا، کیا کسی حکمراںکی پےشانی پر پسینہ آیا؟جو لوگ تحقیقاتی کمیشن اور تفتیشی کمیٹیاں بنا کر یہ سمجھ لےتے ہےں کہ فرض ادا ہوگیا، کیا ان کی عقل کی اندھی گلی اس سے آگے نہےں جاتی۔ اس کے آگے اگر دیوار ہے تو کوئی نہیں ندامت کے مارے اپنا سر پٹخنے والا؟
چار دنوں سے انٹرنےٹ کے پردے پر پھول جےسے بے جان بچوں کی مُندی ہوئی آنکھےں اور وہ سیاہ پلکےں دےکھ رہا ہوں جن کے اندر بھری ہوئی تاریکی اب عمر بھر دکھیاری ما ں کی اُجڑی ہوئی کوکھ مےں پلے گی۔ کسی نے ننھے بچوں کے بھولے اور معصوم چہرے سے کفن سرکا کر تصویرےں اتاری ہےں اور کربلا کے جن شیرخوار بچوں کو ہم ابھی تک اپنی چشمِ تصور سے دےکھا کرتے تھے، انہیں حقیقتاً دےکھ رہے ہےں۔ اب اگر ہم روئےں تو کہا جاتا ہے کہ رونا بدعت ہے۔ سیدھی سی بات یہ ہے کہ جو عشق مےں نہ ڈوبا ہو وہ تو یہی کہے گا کہ رونا بھی بدعت ہے اور آنسو بہانا بھی شرک۔ وجود مےں اُترا ہوا نسل در نسل چلا آنے والا کرب وہ شقی القلب کیا جانے جس کے دالان مےں شہیدوں کی میتےں صف آراءنہ ہوں۔ مےں اپنی بات دہراتا ہوں۔ اےسے اےسے سانحات کو آپ روک نہیں سکتے تو کیا اپنی بے بسی اور لاچاری کا اعتراف کرتے ہوئے حاکمیت کی کرسی کو لات بھی نہیں مار سکتے؟ کوئی نہیں جو چلتے چلتے تاریخ کے گرد مےں اٹے ہوئے ورق پر اپنا نام لکھ جائے؟
اےک بھی نہیں جسے ہمارے یتیم، ہماری بےوائےں، ہمارے اُجڑے ہوئے گھرانے اور خاک مےں ملے ہوئے کنبے دےکھیں تو سوچےں کہ کوئی ان کے دکھ مےں شریک ہے۔ کیا سارے جیالے جا چھپے اپنے تاریک گوشوں مےں اور سینہ تان کر نمودار ہوں گے الےکشن کے روز جو ان کی زندگیوں کا روزِ سیاہ ہونا ان کے مقدر مےں لکھا گیا ہے۔
جی چاہتا ہے اپنی تحریر یہےں لپےٹ دوں مگر ابھی نہیں۔ کئی ضروری باتےں ہےں جو کہنے سے رہی جارہی ہےں۔ باتےں کیا ہےں سوال ہےں جو دل و دماغ مےں چٹکیاں لے رہے ہےں۔ اےک بڑا سوال ہے، بہت بڑا اور غور طلب ہے ہر اےک کے لئے چاہے جو بھی مسلک ہو اس کا اور جو بھی عقیدہ۔ سوال یہ ہے کہ کیا کربلا کے بہتّر شہیدوں مےں اےک بھی اےسا تھا جس نے خاموشی سے سر جھکا کر سر کٹالیا؟ وہ تو اےسے جری تھے کہ تین دن کی بھوک پیاس کے باوجود جب تلوار میان سے نکال کر یزیدی لشکر پر ٹوٹے تو لشکر پسپا ہوتے ہوتے کوفے کی فصیلوں سے جا لگا تھا۔ اپنے اس سوال کی تشریح نہےں کروں گا۔اےک اور بات یہ کہ اگر یہ لجلجے صاحبان اقتدار حاکمیت کو ٹھکرا کر اپنا احتجاج ریکارڈ نہیں کراتے تو لوگو، اس آخر وقت مےں اےک فرض تو ادا کردو۔ وہ جو دھماکوں کی پےشگوئی کرنے اور بارود کا وزن بتانے کے ماہر ہےں، انہیں اٹھا کر تاریخ کے کوڑے دان مےں پھےنک دو۔ بعض برطرفیاں با عزت ہوتی ہےں بعض اس کے برعکس، اےک بار یہ برعکس فریضہ ادا کر دو۔اےک بات اور۔ مےرا وہ شناختی کارڈ منسوخ کردو جس پرلکھا ہے ’حکومتِ پاکستان‘۔ سبب آسان ہے۔حکومت کو مےں اُتنا ہی مانتا ہوں جتنا عباس ٹا ن کی دکھیاریاں مانتی ہےں۔ اب رہ گیا پاکستان، تو یہ وہ پاکستان تو نہیںجس کی خاطر مےرے والد اپنا کاروبار بند کر کے آل انڈیا مسلم لےگ کے اجلاس مےں جایا کرتے تھے۔ ان کی آنکھوں مےں پاکستان کا خواب اےسا دمکتا تھا کہ آنکھوں سے نور پھوٹتا تھا۔ وہی پاکستان جس کے نام پر مےرے شہر مےں چھوٹے چھوٹے جلوس نکلا کرتے تھے جن مےں آگے آگے بارہ تےرہ برس کا اےک لڑکا گلا پھاڑ پھاڑ کر نعرے لگا رہا ہوتا تھا ’ لے کے رہےں گے پاکستان، بن کے رہے گا پاکستان‘۔ وہ بن گیا ہے تو آج وہی لڑکا کہہ رہا ہے کہ یہ وہ پاکستان تو نہیں، یہ تو اس کی بھیانک تعبیر ہے۔
مےں برسرِاقتدار تو نہیں کہ اپنا اقتدار ٹھکرا دوں، ہوتا تو دنیا حےرت سے دےکھا کرتی، مےرے پاس اےک شناختی کارڈ ہے، اس کی پشت پر اگر قائدِ اعظم کے سبز ہلالی پرچم کا عکس نہ ہوتا تو مےں حقارت سے لوٹا دےتا۔ وہی بانی پاکستان ،وہی بابائے قوم اور وہی قائدِ اعظم جن کو ان کی زندگی مےں کافرِ اعظم کہنے والے لوگ اےک بار پھرکفن پھاڑ کر جی اٹھے ہےں اور مجھے آپ کو کافر قرار دے رہے ہےں۔ وہ پاکستان کی بچی کھچی سرزمین پر دندناتے پھر رہے ہےں، کہےں بچوں کے اسکولوں کو اور کہےں خود بچوں کو بارود لگا کر یوں اڑا رہے ہےں کہ بلکتی ہوئی ما ں کو ان کے چھوٹے چھوٹے جوتوں کے سوا کچھ ہاتھ نہیں آتا۔اےک اور اہم بات۔ مجھے ووٹ کا حق نہےں چاہئے۔ دہری شہریت کے طنز کی مجھے اتنی سی بھی پروا نہےں۔ ووٹ کے حق سے تو مجھے معاف ہی رکھا جائے تو اچھا کیونکہ اگر اےک بار پھر پہلے جےسے حکمراں لوٹ آئے تو یہ احساس مےری جان نکال لے گا کہ مےرا ووٹ وطن کی تقدیر بدلنے مےں شرمناک حد تک ناکام رہا۔ مےں ان حکمرانوں کی بات کر رہا ہوں جو مانگے تانگے بدمعاشوں کے سروں پر تولئے ڈال کر قوم کو دکھاتے رہے اور اپنے سینوں پر فریب کاری کے تمغے سجاتے رہے۔ اور اب اےک عام خیال جسے درست کرنے کی ضرورت ہے۔ ہر طرف کہا جارہا ہے کہ ہم حالت ِ جنگ مےں ہےں۔ جی نہیں، حالتِ جنگ مےں دو فریق ہوتے ہےں اور دونوں جنگ کر رہے ہوتے ہےں۔ یہاں اےک فریق ہے جو دوسرے کو مارے جارہا ہے، اس کو عام زبان مےں حالتِ خوف کہتے ہےں، وہی حالت جس مےں دشمن دہشت پھےلاتا ہے اورجنہےں علم نہیں وہ سن لےں کہ دشمن کامیاب ہے۔ اور آخری بات۔ فوج کو کس نے سمجھا دیا ہے کہ اس کا کام سرحدوں کی حفاظت کرنا ہے۔ فوج کو کوئی اتنی سی بات نہیں سمجھا سکتا کہ سرحدوں کے اندر بسنے والے باقی نہیں رہےں گے تو کیا خود فوج رہ جائے گی؟ یہ اتنی سیدھی سی بات ہے کہ اگر زندہ ہوتا تو وہ بچہ بھی سمجھ جاتا جس کے چہرے سے کفن سرکا کر اس کی آخری تصویر اتاری گئی ہے۔
تازہ ترین