• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
یہ غالباً 2004ءکی بات ہے کہ ترکی کی حکمران جماعت کے نائب صدر ڈاکٹر نعمان قرطمش اور ان کی اہلیہ ڈاکٹر سیوگی کو میں پاک ترک پارلیمنٹری فرینڈشپ کمیٹی کی ممبر کی حیثیت سے قومی اسمبلی اور سینٹ کا اجلاس دکھانے لے کر گئی ۔ اجلاس میں شریک سب خواتین کے دوپٹوں سے ڈھکے سر دیکھ کر وہ خوشگوار حیرت سے کہنے لگے کہ ماشاءاللہ یہاں تو اس طبقے میں بھی اپنی روایت سے محبت اتنی پختہ ہے ۔ چونکہ ترکی کچھ عرصہ ہی قبل اپنی ایک ممبر پارلیمنٹ مروہ قواچی کو سکارف کی بدولت پارلیمنٹ کی ممبر شپ اور اپنی شہریت دونوں سے محروم کرچکاتھا ۔ میں نے کہاکہ اللہ کے احسان کے ساتھ برصغیر پاک و ہند میں مسلمان خواتین کی اپنی مشرقی اور دینی روایات کے ساتھ والہانہ وابستگی پائی جاتی ہے۔ تحریکِ خلافت میں بی اماں سے لے کر تحریک پاکستان میں محترمہ فاطمہ جناح کے کردار تک اور پھر محترمہ بے نظیر بھٹو کے ہیڈ سکارف سے لے کر آج کی خواتین پارلیمنٹرینز اور وزراءتک سب اپنے لباس اور اقدار میں اپنی روایت سے جڑے رہنے کا اعلان کرتی رہی ہیں۔ پاکستانی ثقافت میں اپنے دین سے محبت کااظہار اور سلیقہ بہت نمایاں ہے اور جب بات خواتین کی ہو تو اُن میں دینی رجحان بہت زیادہ ہے اور وہ مغربی تہذیب سے کم مرعوب ہوتی ہیں۔ ہماری خواتین کی دین سے محبت نے حلقہ خواتین جماعت اسلامی کے مشکل کام کو بھی آسان بنادیا ہے۔ اگرچہ ہم اس بات کا اعتراف کرتی ہیں کہ مسلمان عورت نے اپنی آگہی کاادراک کرنے میں دیر کردی ہے اور مغرب کی عورت حقوق کے حصول کا شور مچانے میں بظاہر آگے نظر آتی ہے مگر اب جبکہ مغربی ہندوانہ تہذیب اپنے پنجے گاڑے ہوئے نظر آتی ہے حلقہ خواتین جماعت اسلامی نے بڑی سرعت کے ساتھ اُن کے اس چیلنج کو قبول کیا ہے اور میدانِ عمل میں بہت وقار کے ساتھ اس کا مقابلہ اور مزاحمت کررہی ہیں۔یہ پہلا عالمی یوم خواتین ہے جو میرے آغا جان قاضی حسین احمد کے بغیر آیا ہے اور مجھے شدت سے احساس ہو رہاہے کہ وہ خواتین کے حقوق کے تحفظ کے کس قدر سرگرداں اور سرگرم کارکن تھے ۔ اُن کی خوش قسمتی تھی کہ اُن کے دورِ امارت میں موجودہ امیرسیدمنورحسن کی اہلیہ عائشہ منور صاحبہ اور اُن کے بعد ڈاکٹر کوثر فردوس صاحبہ کا حلقہ خواتین کی سیکرٹری جنرل کے طور پر انتخاب ہواتھا۔ گھرمیں میری امی جان کا اور جماعت میں اُن دونوں کا خواتین کے حقوق کےلئے سرگرم رہنے کے شوق نے اُن کے انقلابی جذبوں کو اور بھی مہمیز دی ۔ وہ دونوں اور موجودہ نگران حلقہ خواتین ڈاکٹر رخسانہ جبیں بتاتی ہیں کہ وہ ہمارے ایسے رہنما تھے جو خواتین کے بارے میں ہم سے رہنمائی لیتے تھے ان کا روشن مسکراتا چہرہ ہر ایک کےلئے اور خصوصاً بیٹیوں کے لئے محبت اور رافت بکھیرتاتھا اور جواب میں انہوںنے قوم سے جو محبت سمیٹی ہے اُس کی مثال ملنا مشکل ہے۔میں اُن سے ہر دفعہ عالمی یوم خواتین کے موقع پر پیغام لیتی اور کچھ گھنٹوں کے بعد اُن کا اقبال کے اشعار سے بھرپور مضمون موصول ہوچکاہوتا۔ وہ میرے لئے ایک ایسی یونیورسٹی تھے جو سال کے بارہ مہینے اور مہینے کے 30دن اور دن کے چوبیس گھنٹے کھلی رہتی اور جو ہر وقت میرے دسترس میں ہوتے وہ اپنی جماعت کی خواتین کے لئے ایک شفیق باپ کی حیثیت رکھتے تھے اور انہوںنے ہمیں محبت اور حفاظت کے حصاروں کے جلو میں اپنی قوم اور ملت کی خدمت کے لئے چٹانوں سا حوصلہ اور اعتماددیا۔وہ کہتے کہ زندہ تحریکیں ندی کی طرح ہوتی ہیں۔ جو کسی رکاوٹ کو خاطرمیں نہیں لاتیں اور اپنا راستہ نکال لیتی ہیں بلکہ رکاوٹیں زندہ تحریکوں میں اور زیادہ جان ڈال دیتی ہیں ۔ مجھے یہ نصیحت ہمیشہ کرتے کہ اپنے عورت ہونے پر فخر کیا کرو کہ اللہ تعالیٰ نے اس پوری کائنات میں صرف عورت کو اپنی صفت تخلیق عطا کی ہے ۔ اور اللہ نے ذوق خدائی سے بھی عورت کو نوازا ہے تو اقبال نے کہاہے کہ یہ غازی یہ تیرے پراسرار بندے جنہیں تو نے بخشا ہے ذوق خدائی ۔ اللہ خود خالق ہے اور حجاب میں رہ کر پُر اسرار ہے ۔ الہ کا مطلب پراسرار بھی ہے اس لئے عورت کو بھی اپنی تخلیق اور نئی نسل کی حفاظت کے لئے خلوت اور پراسرار رہنے کی ضرورت ہے۔ جب وہ اپنے اس بنیادی فریضے کو سرانجام دے لے تو وہ ضرور اپنی ملت کی ترقی میں اپنا کردار ادا کرے مگر اپنے بنیادی فریضے سے غفلت نہ برتے کہ انسانوں کی تعمیر کا کام پلوں اور سڑکوں کی تعمیر سے زیادہ اہم بھی ہے اور مشکل بھی ۔ اُنہوںنے مجھے سکھایا کہ عورت جتنی اپنے الٰہ سے بندگی کا اقرار کرتی ہے جتنی عبادت گزار ہوتی ہے ، اُتنی ہی معاشرے میں باوقار اور قابل اعتبار بن جاتی ہے۔ مجھے آخری دنوں میں بہت نصیحت کرتے رہے کہ جماعت اسلامی اس ملک کےلئے اللہ کاانعام ہے جو مولانا مودودیؒ کی ہمارے پاس امانت ہے۔ اس سے جڑے رہنا۔ اس مادہ پرست دنیا میں یہ تنظیم تمہیں اپنے الٰہ سے بھی جوڑے رہے گی۔ تمہارا اعتبار بھی بنائے گی میں واقعی حلقہ خواتین جماعت اسلامی کی راہنماﺅں اور مخلص کارکنان پر نگاہ ڈالتی ہوں تو اُن میں اپنے اسلاف کی روایات سے جڑے رہنے کا سلیقہ بھی موجود ہے اور جدید دنیا کے چیلنجز سے نبر آزماہونے کا حوصلہ اور صلاحیت بھی ۔ میدان سیاست کا ہو یا خدمت کا، میڈیا کا ہو یا تعلیم کا ، صحت کا ہو یا ادارہ جاتی نظام بنانے کا حلقہ خواتین ہر شعبہ میں ماہر خواتین کے تعاون سے بھرپور کردارادا کرتی ہوئی نظر آ رہی ہیں اور اس یوم خواتین پر تمام سیاسی جماعتوں سے آگے بڑھ کر کرتے ہوئے آنے والے انتخابات کے لئے ویمن اینڈ فیملی کمیشن جماعت اسلامی نے عورت کے لئے خواتین کے حقوق کا چارٹر اور عورت کی فلاح کا منصوبہ پیش کیا ہے۔ ہمیں امید ہے کہ آنےوالے انتخابات میں وطن عزیز کی خواتین چہرے نہیں نظام کو بدلیں گی۔
تازہ ترین