• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
خیبر پختونخوا میں ایک چودہ سالہ لڑکے کے غمزدہ والدین اُسے انتہا پسندوں کی گرفت سے چھڑانے کے لئے گزشتہ کئی ماہ سے دربدر ہیں، لیکن فی الحال قسمت نے اُن کی یاوری نہیں کی ہے۔ والدین انتہائی بے قرار ہیں کیونکہ اُنہیں خدشہ ہے کہ برین واشنگ کے بعد لڑکے کو کسی خود کش حملے میں استعمال نہ کرلیا جائے۔ دیکھا گیا ہے کہ نوجوان لڑکوں کو ایسے فدائی مشن کے لئے تیار کیا جاتا ہے کیونکہ وہ انتہائی جذباتی ہونے کی وجہ سے ایسے حملوں کو جہاد سمجھتے ہیں۔ تاہم اُس لڑکے کے معمر والدین کو امید ہے کہ ایک دن اُن کا بیٹا گھر واپس آجائے گا اور اُن کے انتظار کی ابتلا ختم ہوجائے گی۔
تاہم اس لڑکے کا انتہا پسندوں کے پاس چلے جانا کوئی نادر یا انوکھا واقعہ نہیں ہے۔ بہت سے نوجوان اپنے خاندانوں کو چھوڑ کر نام نہاد جہاد کی دنیا میں قدم رکھ کر ’’شہید‘‘ ہوجاتے ہیں۔ یہ مختلف مقامات پر دہرائی جانے والی کہانی ہے ، لیکن اس کا تسلسل خیبر پختونخوا اور فاٹا میں زیادہ ہے۔ اس وقت تک اس خطے کے بہت سے نوجوان، جنھوں نے انتہا پسندوں کی صفوں میں کسی نہ کسی وجہ سے شمولیت اختیار کرنے کا خطرناک راستہ چنا، اب تک موت کی وادی میں جاچکے ہیں۔ مرنے سے پہلے اُنھوں نے حتی الامکان ’’دشمنوں ‘‘ کو ہلاک کردیا۔
فاٹا کے ہونہار طالب علم، فواد (نام تبدیل کردیا گیا ہے) ، جسے برین واشنگ کرکے ایک انتہا پسند بنا دیا گیا، کے کیس کا جائزہ لینا دلچسپی سے خالی نہیں ہوگا۔ اُس کے اہل ِخانہ کا دعویٰ ہے کہ وہ ایک محنتی اور ذہین طالب ِعلم تھا اور وہ ہمیشہ اپنی کلاس میں نمایاں پوزیشن لینے والوں میں سے ایک ہوتا تھا۔ اُس کے غریب والد نے اپنے بچوں کی تعلیم پر اپنی تمام جمع پونجی لگادی تھی۔ تاہم اُنہیں تعلیم پر سرمایہ کاری کا صلہ ملنے لگا تھا کیونکہ اُن کے کچھ بیٹوں کو ملازمت مل گئی تھی۔ تاہم سب سے چھوٹے بیٹے، فواد، نے غلطی کی ، آپ اسے نوعمر ی کی حماقت بھی کہہ سکتے ہیں، کہ اب اُس کی وجہ سے اس خاندان کا بہتر مستقبل کا خواب چکنا چور ہورہا ہے۔
گزشتہ سال ایک دن فواد گھر سے اسکول جانے کے لئے نکلا لیکن اُس کا رخ اسکول کی بجائے افغانستان کی طرف تھا۔ ایک بات طے ہے کہ وہ اکیلا افغانستان نہیں جاسکتا تھا، اُسے کسی کا ساتھ اور رہنمائی چاہئے تھی۔ اس کا رخ پاک افغان بارڈر کے نزدیک افغانستان کے مشرقی صوبے، ننگرہار کی طرف تھا۔وہاں اس نے انتہا پسندوں کے کیمپ میں شمولیت اختیار کرنی تھی۔ اس کو وہاں پہنچانے والوں نے بہت حفاظت سے اُسے پیچیدہ پہاڑی علاقے میں انتہا پسندوں کے پاس پہنچا دیا۔ اندازہ ہے کہ فواد کے ذہن میں مختلف ذرائع نے یہ بات ڈالی ہوگی کہ وہ اﷲ کے راستے میں جہاد کررہا ہے۔ وہ اسکول میں ایک ہونہار نوجوان تھا، لیکن تعلیم نے اُسے اس خطرناک راستے پر چلنے سے نہ روکا اور وہ پاکستان کے ایک کالعدم انتہاپسند گروہ کا جنگجو بن گیا۔ فی الحال فواد کی کہانی جاری ہے ۔ دوسری طرف اُس کے اہل ِخانہ کو یقین ہے کہ وہ اُسے گھر واپس لانے میں کامیاب ہوجائیں گے،لیکن اُس کے نگران اُسے ایک جہادی بنانے کے لئے رات دن محنت کررہے ہیں۔ گھر والے اُسے زندگی کی طرف واپس لانے کے لئے بے قرار ہیں لیکن انتہا پسندوں کے پاس اُس کی آخری منزل کسی فدائی مشن پر روانہ ہونا ہے۔ پاکستان کے دیگر علاقوںسے بھی ایسی کہانیاں سننے کو ملتی ہیں۔ ضلع مردان کے ایک خاندان کے ایک نوجوان لڑکے نے چند سال پہلے افغان طالبان کی صفوں میں شمولیت اختیار کرلی تھی۔ اُس نے غیر ملکی اور افغان فورسز پر حملہ کرتے ہوئے خود کو دھماکہ سے اُڑ الیا۔ اس کا غمزدہ خاندان ابھی تک اس صدمے سے باہر نہیں نکل سکا ہے۔ اگرچہ اُس وقت خاندان میں سے کچھ افراد کو فخر تھا کہ اُن کا لڑکا افغانستان پر قابض ’’کافر ‘‘ قوتوں کے خلاف جہاد کرتے ہوئے شہید ہوا ہے ، لیکن جب انھوں نے دیکھا کہ انتہا پسند پاکستان اور افغانستان میں عوامی مقامات پر خود کش حملے کرتے ہوئے معصوم شہریوں کوہلاک کررہے ہیں تو اُن کے صدمے میں اضافہ ہوتا گیا۔ اب اُن کے ذہنوں میں بہت سے سوالات ہیں جن کا اُنہیں جواب چاہئے۔ خاندان کے ایک شخص کو بھرتی کرنے والوں پر شدید غصہ ہے جنھوں نے اُس نوجوان کو موت کی راہ پر گامزن کردیا۔
اس طرح راولپنڈی کے درمیانی عمر کے والدین کی کہانی بھی ذہن سے نہیں نکلتی جو اکثر پشاور اور خیبر پختونخوا کے دیگر مقامات پر جاتے اور اُن لوگوںسے ملتے جن کے بارے میں اُن کا خیال تھا کہ وہ اُنہیں ان کے گمشدہ بیٹے کے بارے میں کچھ بتاسکتے ہیں۔ آخر کار اُن والدین کو سراغ ملا کہ اُن کا بیٹا افغانستان میں ہے، لیکن جلد ہی وہ اُس کا سراغ کھو بیٹھے۔ اب اُنہیں کچھ پتہ نہیں کہ وہ کس حال میں ہے اور کہاں ہے ۔ اُس کے بارے میں آخری اطلاع یہ تھی کہ اُسے افغانستان کے صوبے ننگرہار میں دیکھا گیا ہے جہاں ایک پاکستانی انتہا پسند گروہ کے ٹھکانے موجود ہیں۔ تاہم خاندان کا اصرار ہے کہ وہ اپنی مرضی سے افغانستان جا کر انتہا پسندوں کے ساتھ نہیں مل سکتا، اُسے ضرور اغوا کیا گیا ہوگا ، یا ورغلا کر وہاں پہنچایا ہوگا۔ بہرحال ، جو بھی وجہ ہے،ان غمزدہ والدین کی آنکھیں اور الفاظ اُس اذیت کی عکاسی کرتے ہیں جو اُن کے دل کاخون کررہی ہے۔ اُنہیں اُس وقت تک اس اذیت سے گزرنا ہے جب تک اُن کا بیٹاو اپس نہیں آجاتا ، یا اس کے مرنےکی تصدیق نہیں ہوجاتی۔
اسی طرح رحیم یار خان، راجن پور، لیہ، ڈیرہ اسماعیل خان، سوات اور کراچی جیسے دور دراز علاقوںسے بوڑھے اور غریب والدین اپنی زندگی دائو پر لگا کر باجوڑ اور وزیرستان، بلکہ افغانستان تک میں اپنے بیٹوں کو تلاش کرنے جاتے ہیں۔ درحقیقت اس کا آغاز 1980کی دہائی میں ہونے والے پہلے افغان جہاد سے ہوا، اور یہ سلسلہ ابھی تک جاری ہے۔ آج بھی بہت سے نوجوان شدت پسند تنظیموں کی باتوں میں آکر افغانستان میں طالبان کے ساتھ مل کر جنگ کرنے چلے جاتے ہیں اور پھر کبھی واپس نہیں آتے ، یہاںتک کہ اُن کے بوڑھے والدین کی آنکھیں بے نور ہوجاتی ہیں۔ چونکہ یہ نوجوان زیادہ تر غریب اور گمنام خاندانوںسے تعلق رکھتے ہیں، چنانچہ گھر والے انہیں روکنے کے لئے کچھ نہیں کرسکتے۔ ان کی ابتلا سے اہل علاقہ بھی بے خبر رہتے ہیں۔ یہ 2001 ء کے آخری ایام کی بات ہے جب تحفظ ِ نفاذ ِ شریعت محمدیہ کے بانی مولانا صوفی محمد نے ہزاروں افراد کو اشتعال دلا کر افغانستان میں حملہ آور امریکی افواج کے خلاف جہاد کرنے کے لئے بھیج دیا۔طالبان کی شکست کے بعد صوفی محمد اور کچھ دیگر افراد واپس آنے میں کامیاب ہوگئے لیکن زیادہ تر اُس جنگ کا چارہ بن گئے۔ کچھ کو کولیشن فورسز نے قیدی بنالیا ۔ ان کے بارے میں ابھی تک علم نہیں کہ وہ زندہ ہیں یا مرچکے ہیں۔پاکستان کے بہت سے علاقوں سے اسی قسم کی کہانیاں مل جائینگی۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پاکستان کے بیٹے کب تک اس جنگ لئےکا چارہ بنتے رہیں گے؟
تازہ ترین