• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
اتنا امتیاز !! ماتم کی جائے ہے۔ نہیں ــ، یہ ظلم ہے، امتیاز نہیں۔ ایک شخص کے خلاف متعدد مقدمات زیر ِسماعت ہیں، غداری، یا آئین کی خلاف ورزی ،ان میں سے ایک ہے۔ بے نظیر بھٹو کا قتل دوسرا، اور غازی عبدالرشید کا قتل تیسرا۔ اور بھی کئی ہیں۔ ایک مقدمہ میں تو مارچ کی اکتیس تاریخ کو اسے عدالت میں پیش ہونا تھا۔ مگر وہ حاضر نہیں ہوا۔ ہو بھی نہیں سکتا تھا۔ سپریم کورٹ کے ایک فیصلے کا سہارا لے کر اسے ملک سے فرار ہونے کا موقع فراہم کیا گیا۔ حکومتی اہلکار ’’انسانی ہمدردی‘‘ کے نام پر وضاحتیں پیش کرتے رہے۔ یہ وضاحت متعلقہ عدالت کو پسند نہیں آئی اور یہ سوال بجا طور پر پوچھا گیا کہ ای سی ایل سے نام نکالنے سے پہلے عدالت سے اجاز ت کیوں نہیں لی گئی؟ بیمار وہ جتنا تھا، دبئی پہنچتے ہی آشکار ہو گیا۔ اب تک کی اطلاعات یہ ہیں کہ اس نے کسی اسپتال میں معائنہ نہیں کرایا۔ سگار البتہ اس نے نہ صرف پیا، بلکہ بڑی نخوت سے اپنے کسی ملازم سے جلوایا بھی، اور اس کی تصویر بنی بھی اور شائع بھی ہوئی ۔۔ یا کرائی گئی۔ لگا یوں کہ وہ پاکستان کے نظام کو منہ چڑارہا ہے۔ ’’کیا تم مجھے روک سکے؟ روک ہی نہیں سکتے تھے۔ تم کیا اور تمہاری عدالتیں کیا۔‘‘ وہ ایک بار کے سوا کبھی کسی عدالت میں پیش نہیں ہوا۔ میڈیکل سرٹیفکیٹ حاصل کرنا اس کے لئے کیا مشکل تھا۔ وہ اسے مل جاتے تھے۔ عدالت اسے حاضری سے استثنیٰ دے دیتی تھی۔ اس بار تو وہ ملک میں ہی نہیں تھا۔ جج برہمی کا اظہار کرسکتے تھے ، انہوں نے کیا۔ سوال بھی کہ’’ کیا ملزم سے واپسی کی یقین دہانی حاصل کی گئی تھی؟‘‘ کون کرتا؟ کون کرسکتا تھا؟
یہ ظلم ہے، بے انصافی ہے۔ اسے امتیاز نہیں کہا جا سکتا۔ ادھر ایک اور ’’ملزم‘‘ ہے۔ اس پر جو بیت رہی ہے، گزشتہ ایک برس سے، طنزاً کہا جائے ،تو اس کا جرم بہت سنگین ہے، نام نہاد آرٹیکل چھ کی خلاف ورزی سے بھی زیادہ۔ وہ ایک سال سے جیل میں ہے۔ اس پر ایک ہزار روپے کا دھنیا چرانے کا الزام ہے۔ اس کی ضمانت بھی نہیں ہو سکی تھی۔ اب ہوئی ہے سپریم کورٹ سے۔ وہ ، جو کہتے ہیں، جیل میں سڑرہا تھا۔ اس سے زیادہ ’سنگین‘ جرم کیا ہو سکتا ہے؟ ایک عام ترازو میں تولیں، اس میں بانٹ اپنے نظام کے رکھیں، تو دھنیا چرانے والے کا پلڑا زیادہ بھاری ہوگا ، نتیجتاً جرم زیادہ سنگین لگے گا، آئین سے غداری، یا قتل وغیرہ کے مقابلے میں۔ ایک عام ترازو اس لئے لیں کہ اس ملک میں انصاف کا ترازو تو کہیں نظر نہیں آرہا۔ ایک ترازو کچھ عدالتوں کے باہر لگے نظر آتے ہیں۔ مگر ایک تو وہ کسی دھات کے بنے ہوئے ہیں، ہلتے ولتے نہیں۔ دوسرے وہ عدالتوں کی عمارتوں کے احاطوں کے بھی باہر آویزاں ہیں !!
پہلا ملزم با اختیار ادارے کا سابق سربراہ ہے۔ تو کیا اُس پر مقدمہ نہیں چل سکتا؟ نام تو اس ملک کا اسلامی جمہوریہ پاکستان ہے، عمل اب تک آمرانہ ہے۔ اسلام تو رسولِ اکرم ﷺ کے اسوہِ حَسنہ کا نام ہے۔ آپؐ تو اپنی پیاری بیٹی کو بھی سزا دے سکتے تھے، اگر خدانخواستہ وہ کسی چوری میں ملوّث پائی جاتیں۔ اُن ؓ سے محترم کون ہے؟ کون ہو سکتا ہے؟ ایک سرکاری ادارے کا ملازم، کسی بھی سرکاری ادارے کا ملازم، اگر کسی جرم کا مرتکب ہو تو کیا اسے سزا نہیں دی جا سکتی؟ چلئے سزا تو جرم ثابت ہونے کے بعد کی بات ہے، مقدمہ تو چل سکتا ہے۔ یہاں تو مقدمہ بھی نہیں چلنے دیا جا رہا۔ حکومت نے ،کہ وہی یہ مقدمہ دائر کرسکتی تھی، آئین توڑنے کا مقدمہ دائر کردیا تو کیا قیامت ٹوٹ پڑی؟ اور یہ مقدمہ بھی ملک کی اعلیٰ ترین عدالت کے حکم پر دائر کیا گیا تھا۔ یہ کارروائی حکومت کو کتنی مہنگی پڑی، اب تو یہ کوئی راز نہیں رہا۔ باخبر ذرائع کہتے ہیں کہ ایک بہت ہی نازک ملاقات میں وزیراعظم نے ان حاضر سروس لوگوں کی ایک فہرست جنرل راحیل شریف کے سامنے رکھدی تھی جو ماضی کے دھرنوں کو ہشکارا دے رہے تھے۔ کارروائی تو ان لوگوں کے خلاف ہونی چاہئے جو ملک کے عزیز ترین ادارے کو بدنام کرنے کا باعث بنے۔ اس کے برعکس جو ہوگا یا ہوا،تاریخ اسے درست قرار نہیں دے گی۔
چلیں آج آپ نے آئین توڑنے والے کو بچا لیا۔ تو؟ کیا پرویز مشرف کا نام تاریخ میں جنرل ایوب خان، جنرل یحییٰ خان اور جنرل ضیاء الحق سے الگ کسی فہرست میں درج ہوگا؟ ان سب نے آئین توڑا ، یا اسے مسخ کیا۔ قومی تاریخ میں ان سب کیلئے کبھی اچھے الفاظ استعمال نہیں کئے جاتے۔ مشرف نے بھی آئین توڑا۔ ایک منتخب حکومت پر نا جائز قبضہ کیا۔ کمال تو یہ ہے کہ اس نے تو مارشل لا بھی نافذ نہیں کیا۔ بس بندوق اور ٹینک کی مدد سے حکومت پر قبضہ کیا، وزیراعظم کو گرفتار کرلیا۔ اور اپنے لئے آئین میں وزیراعظم کیلئے استعمال کی گئی اصطلاح ’چیف ایگزیکٹو‘ کے عہدے پر فائز ہو گیا۔ ملک نہ ہوا، کوئی ملٹی نیشنل کمپنی ہو گئی۔ اور اب جب اس پر مقدمہ چلنے کا وقت آیا تو بہت سے معاملات ، کہا جاتا ہے ، کھڑے کر دئیے گئے، اور وہ ملک سے فرار ہونے میں کامیاب ہو گیا۔ یہ ٹھیک نہیں ہوا۔ نہیں ہونا چاہئے تھا۔ فوج پر بھی ایک بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔ قوم ہمیشہ اس کے پیچھے کھڑی رہی۔آج بھی، ہمیشہ کی طرح قوم کو اس سے بہت سی امیدیں وابستہ ہیں۔ ملک کا دفاع ہو، یا کوئی قدرتی آفت، فوج ہی مدد کو آتی ہے، اور قوم شانے سے شانہ ملا کر اس کے ساتھ کھڑی ہوتی ہے۔ اسے بھی قوم کے جذبات کا احترام کرنا چاہئے۔ اگر اس نے کسی مجرم کو تحفظ فراہم کیا تو اس کا منفی اثر ہوگا۔ بہت حد تک ہوا بھی ہے، کہ بعض لوگ یہ تاثر دینے میں کسی حد تک کامیاب ہو گئے ہیں کہ مقتدر ادارہ نہیں چاہتاکہ اس کے سابق سربراہ پر مقدمہ چلایا جائے۔ ایک بہت بڑا طبقہ ایسا بھی ہے جو اس بات کو درست نہیں سمجھتا۔ اس کا خیال ہے کہ اس طرح کا پروپیگنڈا کرکے ادارے کو بدنام کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ اور یہ پاکستان دشمنوں کی سازش ہے۔ اگر 1999 ءمیں فوج نے اپنے سربراہ کا ساتھ دیا تھا تو فوجی ڈسپلن کے حوالے سے شاید وہ درست تھا۔ دوسری صورتِ حال کا تصور ہی دہلا کر رکھ دیتا ہے۔ مگر اب معاملہ بہت مختلف ہے۔ اب فوج اپنے حالیہ سربراہ کے ساتھ ہے، جن کا 1999 ءکی سازش میں کوئی کردار نہیں تھا۔ انہیں پرویز مشرف سے ہمدردی کی کوئی خاص وجہ بھی سمجھ میں نہیں آتی۔ کافی تاخیر ہوگئی۔ فوج کو بہت پہلے یہ بات واضح کردینی چاہئے تھی کی اس کامشرف کے معاملے سے کوئی تعلق نہیں ہے اور قانون کو اپنا راستہ لینا چاہئے۔ خیر یہ اب بھی ہو سکتا ہے۔ اور ہونا چاہئے۔
تازہ ترین