• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پٹھان کوٹ حملے کی بھارتی تحقیقاتی ٹیم کے مسلمان رکن ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ پولیس محمد تنزیل احمد کے قتل سے سانحہ پٹھانکوٹ کے حوالے سے کئی خدشات اور سوالات ابھر کر سامنے آئے ہیں۔ اگرچہ پاکستانی ٹیم کو پٹھان کوٹ بیس میں مکمل رسائی نہیں دی گئی اور ان کے دورہ کو بھارتی حکام کی پسندوناپسند سے مشروط اورمحدودکردیا گیا تھا مگر ایسے موقع پر جب تحقیقاتی ٹیم پٹھان کوٹ کا دورہ کرکے واپس آگئی ہے اور اس کے رپورٹ پیش کرنے سے قبل بھارتی تحقیقاتی ٹیم کے ایک مسلمان رکن کو ریاست اترپردیش کے ضلع بجنور میں اس وقت نشانہ بنایاگیا جب وہ اپنے اہل خانہ کے ہمراہ اپنی بھتیجی کی شادی میں شرکت کرنے کے بعد نئی ہلی جارہے تھے۔ قاتلوں نے انتہائی سفاکی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ان کوگیارہ گولیاں ماریں۔ ان کی اہلیہ شدید زخمی ہوئیں تاہم پچھلی نشست پر بیٹھے بچے محفوظ رہے۔ پٹھان کوٹ کے حملے کے حوالے سے پہلے ہی بہت سے خدشات کا اظہار کیاجاتارہا ہے۔ اگرچہ پاکستان کی جانب سے مکمل تعاون کا ہی یقین نہیں دلایا گیا تھا بلکہ جب ٹیلی فون نمبرز کاحوالہ دیا گیاتو پاکستان نے اس سانحہ کا باقاعدہ مقدمہ بھی درج کیا اور پاکستانی تحقیقاتی ٹیم نے دہلی اورپٹھان کوٹ کا دورہ بھی کیا۔مقصد یہی تھا کہ پڑوسی ملک کو یقین دلایا جاسکے کہ پاکستان کی سرزمین بھارت میں دہشت گردی کے لئے کسی صورت استعمال نہیں ہوگی۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ سمجھوتہ ایکسپریس پر دہشت گردحملے کے سلسلے میں اصل حقائق سامنے لانے والے پویس افسر کو بھی قتل کردیا گیاتھا۔ ضرورت ہے کہ بھارتی افسر کے قتل کی مکمل اور غیرجانبدارتحقیقات کرائی جائیں اور اس سانحہ کی اصل وجوہات کو سامنے لایاجائے وگرنہ پٹھان کوٹ حملہ متنازع بن جائے گا۔ اس لئے بھارتی حکومت کی یہ ذمہ داری ہے کہ اس بارے میں جو شکوک و شبہات ابھرے ہیں ان کا فوری طور پر تدارک کیاجائے!
تازہ ترین