• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
اآج کل پاکستان میں نوجوان ووٹروں کا بڑا چرچا ہے، سیاسی جماعتیں نوجوان ووٹروں کو اپنی طرف مائل کرنے کے لئے مختلف طریقے آزماتی رہی ہیں۔ ایک طرف عمران خان نے نظام کی تبدیلی کا نعرہ لگا کر نوے کی دہائی میں پلنے والی نوجوان پود کو اپنی طرف مائل کرنے کی کوشش کی، تو دوسری طرف پاکستان مسلم لیگ ن بھی کسی سے پیچھے نہیں رہی۔طلبہ میں لیپ ٹاپ اور سولر پینل تقسیم کرنے سے لے کر پنجاب میں یوتھ سپورٹس فیسٹیولز منعقد کروانے تک… سب نوجوان ووٹروں پر اثر انداز ہونے کے لئے کیا گیا۔ پاکستان پیپلز پارٹی بھی اس دوڑ میں پیچھے نہیں رہی اور اسے اپنے چوبیس سالہ رہنما بلاول بھٹو زرداری کو گڑھی خدا بخش کے جلسے میں سیاسی میدان میں اتارنا پڑا۔
ایسے میں جب کہ ہر طرف اس یوتھ فیکٹر کی گونج ہے، میں اس یوتھ فیکٹر کے بارے میں کچھ شکوک و شبہات رکھتا ہوں۔ یہ شکوک وشبہات نہ تو ان نوجوان ووٹروں کی نیت کے بارے میں ہیں اور نہ ہی ان کی موجودگی کے بارے میں۔ میں جانتا ہوں کہ اس الیکشن میں دو کروڑ چھیانوے لاکھ اکیس ہزارنو سو ستانوے ایسے شہریوں کو ووٹ کا حق دیا گیا ہے جن کی عمر تیس سال سے کم ہے۔ ان افراد کی تعداد پاکستان کے کل رجسٹرڈ ووٹروں کاتقریباََ 34.96 فیصد ہے۔ان ووٹروں کی اکثریت کواگر کسی ایک سیاسی جماعت کے پلڑے میں ڈال دیا جائے تو اس کے بعد اس جماعت کوالیکشن میں کامیابی کے لئے کسی اورگروہ، دھڑے یا جماعت کی حمایت کی ضرورت نہیں ہو گی۔ لیکن میں سمجھتا ہوں کہ یہ سوچ لینا کہ موجودہ صورتحال میں یہ تمام نوجوان الیکشن کے روز ووٹروں میں تبدیل ہو جائیں گے ایک بہت بڑی خام خیالی ہے۔ اس کی ایک بہت بڑی وجہ یہ ہے کہ تمام تر شور و غل کے باوجود نوجوانوں کی اکثریت یا تو انتخابی نظام کے طریقہ کار سے ناواقف ہے یا پھر سیاسی سوچ سے مبرا۔ ایسے میں ان نوجوان ووٹروں کی جانب سے الیکشن کے نتائج پر کچھ خاص اثر انداز ہونے کا موقع نہیں ہے۔
الیکشن کے نتائج پر اثر انداز ہونے کے لئے تیس سال سے کم عمر افراد کو جوق در جوق پولنگ سٹیشنز پر جانا ہوگا، لمبی لائن میں کھڑے ہو کر اپنی باری کا انتظار کرنا ہوگا، شناختی کارڈ دکھا کر پرچی لینا ہو گی۔ تب کہیں جا کر بوتھ میں ووٹ ڈالنے کا موقع ملے گا۔ اب چونکہ انتخابات مئی کی گیارہ تاریخ کو ہو رہے ہیں، ایسے میں ووٹ ڈالنے جانے والے افراد کو میدانی علاقوں کی شدید گرمی بھی برداشت کرنا پڑے گی۔ مئی کے مہینے کی گرم لو کے تھپیڑوں کا سامنا کرنے کتنے نوجوان ووٹر گھر سے نکلیں گے اور کتنے پولنگ سٹیشن کی قطار میں کھڑے گرمی برداشت کر پائیں گے…ایک سوالیہ نشان ہے! ہمارے ہاں بہت سے ایسے نوجوان افراد بھی ہیں جو الیکشن کے روز چھٹی کالطف لیتے نظر آئیں گے۔ ان میں سے بہت سے مئی کی چلچلاتی دھوپ میں صبح سے شام تک کرکٹ کھیلنے پر تو آمادہ ہوں گے، لیکن پولنگ سٹیشن کا رخ کرنے کا سوچیں گے بھی نہیں۔ ان افراد کے لئے الیکشن ایک دن کا موج میلہ ہی ہوتا ہے، ایسے افراد کو کیسے یہ باور کروایا جائے کہ اگر وہ اس بار بھی سیاسی عمل میں حصہ نہیں لیں گے، سیاسی جماعتوں کو ان کے منشور کی بنیاد پر نہیں جانچیں گے، اپنے مستقبل کے فیصلے کرنے والوں کو منتخب کرتے ہوئے ان سے ان کی پالیسوں کے بارے میں نہیں پوچھیں گے تو پھر شاید انہیں دوبارہ ایسا موقع نہ ملے۔
یہ وقت کی ضرورت ہے کہ وہ افراد جن کا مستقبل اس ملک سے سب سے زیادہ وابستہ ہے، وہ خود اپنے مستقبل کو خوشحال بنانے کے لئے نہ صرف ووٹ دیں بلکہ ووٹ دینے سے پہلے اچھی طرح سے تسلی کر لیں کہ جس امیدوار یا سیاسی جماعت کو وہ ووٹ دے رہے ہیں وہ مستقبل میں ایسی پالیسیاں بنائیں گی جو ملکی معیشت کو فروغ دیں گی، امن وعامہ کی صورتحال بہتر بنائیں گی اور تعلیم کے شعبے میں سرمایہ کاری کریں گی۔ آج کل کے سائنسی دور میں ووٹروں کے لئے یہ بہت آسان عمل ہے۔ ہمارے ملک کے نوجوان ووٹروں کی ایک بڑی تعداد نہ صرف کمپیوٹر سے واقف ہے بلکہ انٹرنیٹ جیسی سہولت سے بھی مستفید ہے۔ اگر ہمارے زمانے میں ایسی سہولیات میسر ہوتیں تو ہم نہ جانے کیا کچھ کر چکے ہوتے، اب تو کسی بھی امیدوار یا سیاسی جماعت کے بارے میں معلومات حاصل کرنے کے لئے صرف انٹرنیٹ پر سرچ کرنے کی ضرورت ہے اور ہر قسم کی معلومات آپ کی دہلیز پر پہنچ جاتی ہیں۔ ایسے میں نوجوان ووٹرزخود مختلف سیاسی جماعتوں کی پالیسیوں کو گہرائی سے جاننے کے لئے ان کے منشور آن لائن حاصل کر سکتے ہیں اور ان میں سے جو بھی جماعت ان کے نزدیک مسائل کا بہتر حل تجویز کرے اس کے امیدواروں کو ووٹ دے سکتے ہیں۔ نوجوانوں کو نہ صرف خود ان منشوروں کا بغور جائزہ لینا چاہئے بلکہ جن نوجوان ووٹروں کے پاس انٹرنیٹ کی سہولت میسر نہیں ہے ان کی مدد کے لئے سیاسی جماعتوں کے منشورپرنٹ کر کے تقسیم بھی کرنے چاہئیں۔ چاہے وہ منشور صرف ان ہی جماعتوں کے کیوں نہ ہوں جنہیں وہ خود ووٹ دینا چاہتے ہیں، اس الیکشن میں زیادہ سے زیادہ نوجوانوں کو اپنے ووٹ کا حق نہ صرف استعمال کرنا چاہئے…بلکہ اسے درست انداز میں استعمال کرنا چاہئے۔
نوجوان ووٹروں میں سے بہت سوں کے لئے یہ ان کا پہلا انتخابی معرکہ ہوگا۔ الیکشن میں نہ صرف امیدواران بلکہ اس حلقے میں موجود ووٹروں کے لئے بھی انتخابات کا دن ایک معرکے سے کم نہیں ہوتا۔ ٹولیوں کی صورت میں اپنی پسندیدہ سیاسی جماعت کو ووٹ دینے جانے والے ووٹروں کے لئے ان کے امیدوار کی جیت ان کی جیت ہوتی ہے۔ اگر نوجوان بھی اس معرکے میں خود کو گم کرلیں تو پھر نہ تو انہیں الیکشن والے دن پولنگ اسٹیشن کی قطار بری لگے گی اور نہ ہی مئی کی گرمی ان کے حوصلے پست کر پائے گی…اور پھر شاید اس روز کرکٹ کھیلنا بھی کچھ خاص پسند نہ آئے۔ یہ وقت کی ضرورت ہے کہ نوجوان میرے شکوک و شبہات کو غلط ثابت کرتے ہوئے الیکشن والے دن پولنگ سٹیشنوں کو بھر دیں… تبدیلی صرف اور صرف ووٹ سے ہی ممکن ہے باقی سب افسانے ہیں … 11مئی کو گھروں سے نکلو…پولنگ اسٹیشنز کی طرف مارچ کرو ایک مضبوط ، مستحکم اور جمہوری پاکستان کے لئے۔
تازہ ترین