• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
یہ کیسے لوگ ہیں، غیرت اور شرم انہیں چھو کر بھی نہیں گئی۔ بد عنوانی اور مال کمانے کی ہوس ان کی ختم ہی نہیں ہوتی۔ اربوں کھربوں یہ ڈکار لئے بغیر ہضم کرجاتے ہیں۔ کوئی شعبہ انہوں نے چھوڑا نہیں۔ حد تو یہ ہے کہ تعلیم بھی ان کی د ستبرد سے محفوظ نہیں رہی۔ ایک رپورٹ کے مطابق، ایک کھرب روپے سے زیادہ رقم صرف پنجاب اور سندھ میں تعلیم کے شعبہ میں خورد برد کی گئی۔ ان صوبوں میں ستّر کروڑ پونڈ بدعنوانی کی نذر ہو گئے۔ شرمناک بات ہے، اگر کوئی سوچے تو۔ اس بدعنوانی کی خبریں برطانوی ذرائع ابلاغ میں شائع ہوئی ہیں۔ اسکی وجہ یہ بھی ہے کہ خورد برد اس رقم میں ہوئی جو برطانیہ نے پنجاب اور سندھ میں غریب بچوں کی تعلیم کیلئے د ی تھی۔
اگر کسی معقول فرد سے پوچھا جائے کہ پاکستان کو اس وقت سب سے زیادہ ضرورت کس چیز کی ہے تو ایک ہی جواب ملے گا: تعلیم۔ اس پر دو رائے ہو ہی نہیں سکتیں۔ تعلیم ہی ہماری بنیادی ضرورت ہے کہ اسکے بغیر کسی بھی قسم کی ترقی کا کوئی امکان نہیں ہے۔ دنیا میں صرف تعلیم یا فتہ ملکوں نے ہی ترقی کی ہے۔ اور جس قوم کو جب شعور آگیا، اُس نے تعلیم پر توجہ دی اور ساری دنیا پر چھا گئی۔ ان میں سے کچھ، مثلاً برطانیہ، اور بعض دوسرے ممالک بھی کم تعلیم یافتہ ملکوں کو تعلیم کے فروغ کیلئے امداد دیتے ہیں۔ ایسی ہی امداد پاکستان کے دو صوبوں کو بھی ملی تھی، پنجاب اور سندھ کو چند برس پہلے تین کروڑ تراسی لاکھ پونڈ دیئے گئے۔ تو کیا وہاں تعلیم کی شرح کچھ بڑھ گئی؟ کوئی خاص نہیں۔ ہاں یہ ضرور ہوا کہ کچھ لوگوں کے بینک بیلنس ضرور بڑھ گئے۔
یہ کیسے لوگ ہیں؟ سب سے مقدس پیشے، تعلیم میں سے بھی رقم ہڑپ کر جاتے ہیں۔ کوئی ان کو پوچھنے والا بھی، لگتا ہے، نہیں ہے۔ ذرا تصوّر کریں۔ صرف سندھ میں پانچ ہزار سے زیادہ اسکول صرف کاغذوں پر ہیں، اور کوئی چالیس ہزار اساتذہ، جن کا کوئی وجود نہیں۔ ان کی تنخواہیں کچھ لوگوں کی جیبوں میں جاتی رہی ہیں۔ یہ اُس ملک کا حال ہے جہاں تعلیم کی ضرورت سب سے زیادہ ہے۔ جہاں حکومتیں سب سے کم رقم تعلیم پر خرچ کرتی ہیں، اور ان کے کارندے وہ رقم بھی کھا جاتے ہیں جو دوسرے ممالک انہیںتعلیم کے فروغ کیلئے دیتے ہیں۔ مالِ مفت دلِ بے رحم شاید اسی کو کہتے ہیں۔
اس ملک کی بدقسمتی اس سے زیادہ اور کیا ہو سکتی ہے کہ جس شعبے میں سب سے زیادہ توجہ کی ضرورت ہے اسے سب سے زیادہ نظر انداز کیا جاتا ہے۔ ایک زمانہ تھا اس ملک میں سرکاری اسکول تھے اور کچھ نجی اسکول۔ مو خرالذکر کو کچھ تھوڑی بہت امداد سرکاردیتی تھی، باقی اخراجات فیس سے پورے ہو جاتے تھے، جو بہت کم ہوتی تھی۔ کچھ شام کے انسٹیٹیوٹ تھے، جہاں سے میٹرک کے طلبا پرائیویٹ امتحان دینے کی تیاری کرتے تھے۔ فیس وہاں بھی کم ہی ہوتی تھی۔ ان میں سے بہت سے اسکول ان لوگوں نے قائم کئے تھے جو بچوں کو تعلیم کے زیور سے آراستہ کرنا چاہتے تھے۔ ان کا مقصد تعلیم سے پیسے کمانا نہیں تھا، تعلیم عام کرنا تھا، غریبوں کو پڑھانا تھا۔ پھر اس ملک پر ایک عذاب نازل ہوا۔ بھٹو نے نجی اسکولوں کو سرکاری ملکیت میں لے لیا۔ ایسا خرابا ہوا کہ سرکاری اور غیرسرکاری سب ہی اسکولوں کا معیار گرتا چلا گیا۔ نئے اسکول کھولے نہیں گئے، پرانوں پر توجہ نہیں دی گئی۔ ایسا برا وقت بھی آیا کہ پرائمری کلاس میں بھی داخلے کیلئے سفارش تلا ش کی جاتی تھی۔ اس زمانے میںتعلیم کے محکمے کی رپورٹنگ کرنے والے ایک صحافی دوست نے، ایسے ہی ایک موقع پر کہا کہ اس سال دس ہزار بچوں کا داخلہ نہیں ہوگا، کیونکہ پانچ ہزار کا تو ویسے ہی نہیں ہونا تھا، اور پانچ ہزار کی درخواستیں میرے پاس پڑی ہیں۔ یہ ضیا ء الحق کا دور تھا۔ تب تک حالت اتنی خراب ہو چکی تھی۔ پھر ایک اور عذاب نازل ہوا۔ تعلیم کو آزاد چھوڑ دیا گیا، مادر پدر آزاد۔ نجی اسکول کھولنے کی اجازت دے دی گئی۔ انگریزی اسکولوں کے نام پر لوٹ مار کا وہ کاروبار شروع ہوا کہ کیا کسی اور صنعت میں لوگوں نے پیسہ بنایا ہوگا جو اس صنعت میں بنا رہے ہیں۔ ’’او‘‘ لیول کے نام پر ایسی ایسی جگہ، ایسے ایسے اسکول کھل گئے ۔ حیرانی ہوتی ہے کہ کوئی انہیں دیکھنے والا نہیں۔ کمائی کا یہ عالم ہے کہ ابھی ایک اسکول کھولا، اور چند برس میں اس کی کئی شاخیں کھل گئیں۔ بعض علاقوں میں مکانوں کے کرائے اسلئے بڑھ گئے کہ وہاں اسکول کھل رہے ہیں۔ حکومت نے سرکاری اسکول اپنوں کو نوازنے کیلئے استعمال کئے۔ اصلی نقلی اساتذہ بھرتی کئے گئے ۔ آج اگر کسی تحقیق کے نتیجے میں یہ پتہ چلتا ہے کہ پانچ ہزار اسکول صرف کاغذوں پر ہیں تو اس کی وجہ یہی ہے کہ ان اسکولوں کی تعمیر کیلئے مختص کی گئی رقم لوگوں نے ہڑپ کرلی۔ وہاں جن لوگوں کو ملازمت دی گئی وہ کہیں موجود ہی نہیں تھے۔ اسی تحقیق کے مطابق ان کی تعداد چالیس ہزار ہے۔
نجی اسکولوں نے بھی کوئی کارنامہ انجام نہیں دیا۔ مقصد جب دولت کمانا ہو تو اپنی جیب بھرنے کے سوا کوئی اور کارنامہ انجام بھی نہیں دیا جا سکتا۔
ایک رپورٹ کے مطابق، صوبائی حکومتوں سے مایوس ہونے کے بعد، برطانیہ کے ڈپارٹمنٹ فار انٹرنیشنل ڈویلپمنٹ نے نجی اسکولوں کو فنڈز فراہم کئے، مگر ان کی کارکردگی بھی مایوس کن تھی۔ فنڈز لینے والے نجی اسکول اساتذہ کو حکومت کی مقرر کردہ کم از کم تنخواہ بھی نہیں دیتے تھے۔ بعض نجی اسکولوں میں استاد کی تنخواہ صرف تین ہزار روپے ماہانہ ہے، بعض میں چھ ہزار بھی ہے۔ کچھ میں کچھ زیادہ بھی ہوگی، مگر اتنی نہیں کہ اسے باعزت کہا جا سکے۔ اس تنخواہ میں آپ کیا توقع رکھتے ہیں کہ استاد دل جمعی سے پڑھا سکتا ہے؟
کاش کرتا دھرتا حضرات کو کبھی یہ اندازہ ہو جائے کہ سب مسئلوں کا حل تعلیم ہے، سب بچوں کیلئے یکساں تعلیم، اور سب کیلئے یکساں مواقع ۔ اور وہ اس طرف توجہ بھی دیں۔ آئین کا حوالہ دینے کا کیافائدہ؟ وہ انہیں بھی پتہ ہے۔ خدا کا واسطہ دیا جاسکتا ہے۔ کاش کوئی ایسا ہو کہ سب کام چھوڑ کر صرف تعلیم پر لگ جائے، سب وسائل صرف تعلیم پر خرچ کرے ، اس ملک کو دنیا کے 221 ملکوں کی فہرست میں 180ویں نمبر سے کچھ اوپر لے آئے۔ نہیں ،کچھ نہیں ،بہت اوپر لانے کی ضرورت ہے۔ ہم نیپال اور برما سے بھی نیچے ہیں۔ خدا کے لئے، اس ملک کے مستقبل کے لئے، اس ملک کے بچوں کے مستقبل کے لئے، اور کچھ نہیں کرسکتے تو اتنا تو کرو کہ تعلیم کیلئے آئی ہوئی بیرونی امدادتو خورد برد نہ کرو، اسے تو نہ کھائو، خدا کے لئے۔
تازہ ترین