• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
مجھے عورتوں کی کہانیاں لکھنے کا کچھ خاص شوق نہیں ہے لیکن اس کے لہجے میں تو کچھ ایسی تڑپ اور آگ کی لپٹیں تھیں کہ میں نہ صرف ہمہ تن متوجہ ہو گئی بلکہ آج لکھنے پر بھی مجبور ہوں۔
”کوئی ہے جو میری ماں کی کہانی لکھے اور مجھے بتائے کہ آخر اس عورت کا کیا قصور تھا“ وہ شاید مجھ سے زیادہ خود سے مخاطب تھی ”جس عورت کو شادی کی پہلی رات یہ پتہ چلے کہ اس کا شوہر اپنی سہاگ رات ایک دوسری شادی شدہ عورت کے ساتھ گزار کر پو پھٹے گھر لوٹا ہے اور اپنی بیوی پر یہ پابندی بھی عائد کر دے کہ اس بات کی خبر گھر کے کسی دوسرے فرد کو ہوئی تو پھر بیوی کا ٹھکانا اس کے ماں باپ کے گھر ہی ہوگا“۔
”زندگی کا یہ چلن ساری عمر چلتا رہا۔ وہ شخص ساری زندگی دو کشتیوں کا ہی مسافر رہا۔ گرچہ اپنی بیوی کو اس نے دنیاوی آسائشوں کی کوئی کمی نہیں ہونے دی اور نہ ہی شوہر کے ازدواجی حقوق میں کوئی کوتاہی کی۔ چار پانچ بچوں کی پیدائش کے باوجود، اس دوسری عورت سے تعلقات جوں کے توں تھے، بچے سمجھدار ہوئے تواس صورتحال پر بے حد رنجیدہ تھے کیونکہ باپ نے اپنے اس تعلق کو کبھی ان سے چھپانے کی بھی کوشش نہیں کی تھی۔ وہ دھڑلے سے دوسری عورت کی ساری ضرورتیں، اس کے بچوں جو شاید اس کے اپنے ہی بچے تھے اور گھر کی دوسری ضرورتیں کھلے عام پوری کرتا تھا۔ بچے دل ہی دل میں کڑھتے تھے لیکن باپ کے سامنے زبان کھولنے کی ان کی ہمت تھی اور نہ یہ اس زمانے کا چلن تھا، لیکن سمجھدار ہونے پر لڑکیوں نے ماں سے ضرور یہ سوال کیا کہ آخر وہ ساری عمر یہ زیادتی کیسے برداشت کرتی رہیں؟
”بیٹا تم نہیں سمجھو گی“ ماں کا ایک ہی جواب تھا۔ میرے لئے کوئی اور راستہ نہیں تھا کیونکہ میرے ماں باپ کے پاس بچوں والی مطلقہ بیٹی کو سنبھالنے کے نہ وسائل تھے اور نہ دنیا کا سامنا کرنے کی ہمت۔ تمہیں نہیں معلوم، دنیا مرد کو کبھی برا نہیں کہتی اس کے سارے گناہ معاف کردیئے جاتے ہیں، ہمیشہ عورت کو ہی موردالزام ٹھہرایا جاتا ہے پھر یوں بھی دنیا کی نظروں میں مجھے بظاہر کوئی تکلیف نہیں تھی“۔ ماں کا یہ جواب بیٹیوں کو کبھی مطمئن نہ کر سکا کیونکہ انہوں نے ماں کو ہمیشہ ہر موقع پر جذباتی کرب سے گزرتے اور اس دوسری عورت کے سامنے بے وقعت ہوتے دیکھا تھا۔
”اس سارے قصے میں تم آخر کسے زیادہ قصور وار سمجھتی ہو“ ”اپنے باپ کو، اس عورت کو یا اس عورت کے نام نہاد شوہر کو؟“ میں نے اس بیٹی کے لفظوں کی تپش اور دکھ کو کم کرنے کے لئے ایک سوال کر دیا۔
”باپ کو تو بالکل بھی نہیں، آپ خود سوچیں جب ایک عورت کھلے عام کسی مرد کو دعوت گناہ دے تو وہ اپنا ایمان کہاں تک قائم رکھ سکتا ہے۔ ہاں اس دوسرے مرد کو میں ضرور قصور وار سمجھتی ہوں جو اپنی بیوی کی اس گناہ بھری زندگی کو کھلی آنکھوں دیکھے اور خاموشی سے قبول کر لے۔ محض اس وجہ سے کہ وہ دوسرا مرد اس کے گھر کی ساری ضرورتوں کو بن کہے پورا کر رہا ہو بلکہ پورے خاندان کو عیش کروا رہا ہو! لیکن اصل قصور وار تو وہ دوسری عورت ہے اگر وہ اپنے شوہرسے مطمئن نہیں تھی تو اسے چاہئے تھا کہ اس سے علیحدگی اختیار کرکے کسی دوسرے کا دامن تھام لیتی، یوں دو گھرانوں کے لئے اذیت کا باعث تو نہ بنتی بلکہ میں تو یہ کہوں گی کہ ایک اس عورت کی وجہ سے کتوں اور بلیوں کی طرح پوری دو نسلوں میں رشتوں کا تشخص ہی ختم ہو کر رہ گیا“۔ بیان کرنے والی بیٹی کا دکھ جو شاید ایک عمر سے اندر ہی اندر جمع ہو رہا تھا آج لاوے کی طرح پھوٹ کر باہر آرہا تھا۔
بہت چاہنے کے باوجود بھی میں اس بیٹی کو یہ نہ کہہ سکی کہ اصل قصور وار تو اس کی ماں تھیں جنہوں نے ساری زندگی یہ جلن اور دکھ خاموشی سے برداشت کیا۔ انہیں تو شادی کی پہلی صبح ہی یہ فیصلہ کر لینا چاہئے تھا کہ ایسے مرد کے ساتھ اور اس صورتحال میں انہیں اپنی زندگی نہیں گزارنی لیکن اکثر عورتوں میں جرأت اور ہمت نہیں ہوتی۔ ٹھیک ہے ایسے فیصلوں کے بعد زندگی کٹھن اور تکلیف دہ ہو سکتی ہے لیکن زندگی بھر کے جہنم میں سلگنے اور اپنی ہی نظروں میں بے وقعت ہونے سے تو کچھ بھی بہتر ہو سکتا ہے۔
ایک بیٹی نے مجھ سے یہ سوال کیا تھا کہ کوئی بتائے کہ آخر میری ماں کا کیا قصور تھا کہ اسے ایسی زندگی ملی؟ اچھائی، برائی اور اعمال کا حساب کتاب تو اوپر والا ہی کرے گا اور خوب کرے گا! لیکن دنیا میں ہم کیسی زندگی گزارتے ہیں اس کا بڑا انحصار ہمارے اپنے فیصلوں پر ہوتا ہے۔ بروقت کئے گئے فیصلے، بغیر کسی دنیاوی مصلحت کے یعنی جنہیں ہمارا دل اور ضمیر صحیح سمجھتا ہو وہی فیصلے ہماری زندگی کا رخ موڑتے اور ان کے بہاؤ کا تعین کرتے ہیں۔ اس خیال سے کہ دنیا یا کہے گی؟ یا اس فیصلے سے میری آئندہ زندگی کا رنگ کیا ہو گا؟ یہ سب کمزور لوگوں کی سوچیں ہیں اور جر م ضعیفی کی سزا تو آپ جانتے ہی ہیں۔ قسمت میں کیا لکھا ہے یہ تو اوپر والا ہی جانتا ہے لیکن اسی اوپر والے نے ہمیں عقل و شعور بھی دیا ہے اور اپنے بھلے اور برے کو پہچاننے کی صلاحیت بھی، اور اسی صلاحیت کو استعمال کرتے ہوئے فیصلہ کرنے کی قوت ہی اصل زندگی ہے۔ یہ بات سب لوگ اور خاص طور پر عورتیں اگر اچھی طرح سمجھ لیں تو کبھی اتنی دکھی نہ ہوں۔
مجھے افسوس ہے کہ میں ایک بیٹی کی خواہش پوری نہیں کر سکی، کہانی لکھنی مجھے نہیں آتی اور نہ بیٹی کے خیال کے مطابق اس کی ماں کو بے قصور ہی ثابت کر سکی تاکہ بیٹی کا دکھ ہی کچھ کم ہو لیکن یہ احساس مجھے ضرور تقویت دیتا ہے کہ ماں کی زندگی سے سبق سیکھ کر بیٹی ایک سمجھدار اور اپنی ذات کو منوانے والی عورت ہے۔ دو گھنٹے کی تفصیلی گفتگو سے میں نے جانا کہ اس بیٹی یعنی آج کے زمانے کی عورت کو اپنے مقام اور اپنی حیثیت کا پوری طرح اندازہ ہے اور وہ کسی کو ناجائز طریقے سے جذباتی طور پر بلیک میل کرنے کا موقع کبھی نہیں دے گی، چاہے وہ خاوند ہو یا بیٹا،بھائی ہو یا باپ۔ جذباتی برابری کا یہ سبق اس نے ماں کے دکھوں سے ہی کشید کیا ہے۔ اس لحاظ سے ایک ماں کی یہ قربانی بہرحال لائق تحسین ہے!
تازہ ترین