• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ملک میں تعلیم و صحت کی بہتر سہولتیں نہ ہونے کے با رے میں ماضی میں بھی شکایات سامنے آتی رہی ہیں اور موجودہ دور میں علاج و معالجہ کی سہولتوں کے فقدان کے حوالے سے مختلف فورم سے آواز اٹھائی جارہی ہے۔صحت جو انتہائی اہم شعبہ ہے، بجٹ میں اس مد میں خاطر خواہ رقم مختص نہیں کی جاتی۔ شہروں کے علاوہ دیہی علاقے صحت کی سہولت سے بڑی حد تک محروم ہیں۔ ماضی میں رورل ہیلتھ سینٹر کی اسکیم نافذ کی گئی تھی اور بڑے زور و شور سے بیانات بھی دئیے گئے لیکن ان طبی سینٹروں کو ڈاکٹر، عملہ اور ادویات مہیا نہیں ہوسکیںجس کے باعث وہ ہیلتھ سینٹر غیر فعال ہوگئے ہیں۔ شہروں کے سرکاری ہسپتالوں کی حالت بھی بہتر نہیں ہے۔ ماہر ڈاکٹروں کی شدید کمی ہے اور مہلک بیماریوں کے علاج کی سہولتیں میسر نہیں ہیں۔ موجودہ حکومت نے عوام کو طبی سہولتیں مہیا کرنے کے لئے ہیلتھ انشورنس اسکیم کا اجراء کیا ہےجو ایک اچھی پیش رفت ہے لیکن ابتدائی طور پر یہ صرف چند اضلاع تک محدود ہے۔ سپریم کورٹ کے جسٹس ثاقب نثار نے گزشتہ روز فرانزک سائیکاٹری پاکستان کی پہلی کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے صحت کی سہولتوں کے فقدان کی نشاندہی کی ہے اور کہا ہےکہ صحت کے موجودہ نظام سے مطمئن نہیں ، ریاست اپنی ذمہ داری پوری کرے۔ کاغذات پر سب کچھ ٹھیک دکھایا جاتا ہےلیکن اس پر عملدرآمد نہیں ہوپاتا۔صحت کی بہتر سہولتیں دینا حکومت کی ذمہ داری ہے لیکن لوگوں کو در بدر کی ٹھوکریں کھانا پڑتی ہیں۔ سپریم کورٹ کے فاضل جسٹس کا یہ کہنا ہر صورت درست ہے کہ حکومت کو اس حوالے سے مثبت اقدام کرنے چاہئیں ۔ یہ درست کہ ہر سال ایک صحت پالیسی کا اعلان کیا جاتا ہےجس میں ہر فرد کو علاج معالجہ کی سہولت مہیا کرنے کا وعدہ بھی کیا جاتا ہےلیکن اس پر عملدرآمد نہیں ہوتا اور مریض خصوصاً مہلک امراض میں مبتلا مریضوں کو علاج کی اچھی اور بہتر سہولتیں میسر نہیںآئیں۔ ضرورت ہے کہ ایسا نظام مرتب کیا جائے کہ جس میں ہر شہری کو علاج کی بہتر اور سستی سہولت میسر ہوسکے!
تازہ ترین