• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
یہ 1983ء کی بات ہے… 1977ء میں ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت کے خاتمے کے بعد جنرل ضیاء الحق کا مارشل لاء پوری آب وتاب کیساتھ ملک میں نافذ تھا اور اس کے خلاف ایم آرڈی یعنی تحریک بحالی جمہوریت بھی چل رہی تھی۔ پورے ملک میں اس تحریک کا کوئی خاص زور نہیں تھا۔ سندھ کے تمام بڑے شہر بھی اس تحریک سے تقریباً لا تعلق تھے تاہم اندرون سندھ یہ احتجاجی تحریک پورے زور و شور سے چل رہی تھی ۔اس تحریک کو بزور طاقت روکنے کیلئے فوج کی بھاری نفری اندرون سندھ تعینات تھی اور چھاپے ، گرفتاریاں روز مرہ کا معمول تھیں۔ہزاروں افراد گرفتار کر کے سمری فوجی عدالتوں سے سزائیں بھی سنائی جارہی تھیں۔سیاسی کارکنوں کوسرعا م کوڑے لگائے جارہے تھے ۔
پیپلز پارٹی کی بیشتر قیادت ان دنوں یا تو مفرور تھی،جلاوطن تھی یاساز باز کرکے جنرل ضیاء الحق کی حامی بن چکی تھی حتیٰ کہ پی پی پی کے تمام قابل ذکر سندھی رہنما بھی منظر عام سے غائب ہوچکے تھے۔پورے سندھ سے نصرت بھٹو کے علاوہ جو شخصیت اس تحریک کو چلانے میںآگے آگے تھی وہ غلام مصطفیٰ جتوئی کی تھی۔ جتوئی صاحب نہ صرف خود انتہائی فعال تھے بلکہ ان کے بیٹے مرتضیٰ جتوئی بھی مارشل لاء کی مخالفت اور جمہوریت کی بحالی کی تحریک میں شامل تھے۔جہاں جتوئی خاندان کا یہ کردار جمہوریت کے حامیوں کیلئے خوشگوار حیرت کا باعث تھا وہاں ایک اچنبھا بھی تھا کیونکہ اندرون سندھ کی سیاست سے واقف لوگ جانتے ہیں کہ جتوئی، سندھ کا نہ صرف ایک بااثر قبیلہ ہے بلکہ ان کا شمار سندھ، بلکہ پاکستان کے چند مالدار ترین جاگیرداروں میں ہوتا ہے۔
سیاسی ماہرین کا یہ کہنا تھا کہ اتنے بڑے جاگیردار کی جانب سے جنرل ضیاء اور مارشل لاء کی طاقت کی مخالفت زیادہ عرصہ تک چلنے والی نہیں ہے اور بالآخر یہی ہوا۔اہلکاروں نے مرتضیٰ جتوئی کو ہنگامہ آرائی اور قتل و غارت گری کے الزام میں گرفتار کر کے فوجی عدالت میں پیش کردیا اور سرسری سماعت کے بعد انہیں پھانسی کی سزا سنادی گئی۔یہ فیصلہ آنے کے بعد مرتضی جتوئی کے والد غلام مصطفیٰ جتوئی بتدریج سیاسی منظر سے غائب ہوتے گئے اور بالآخر انہوں نے خود کو پیپلز پارٹی کی تحریک بحالی جمہوریت سے الگ کرلیا۔ کچھ عرصے کی پراسرارخاموشی کے بعد جتوئی صاحب اچانک سیاسی منظر پر نمودار ہوئے اور انہوں نے اپنے ضمیر کے جاگنے کا اعلان کیا اور پیپلز پارٹی سے اختلافات کو جواز بنا کر اپنی نئی سیاسی جماعت’’نیشنل پیپلز پارٹی‘‘ بنانے کا اعلان کرڈالا۔ تمام قومی اخبارات نے اس کانفرنس کا تقریباً پورا متن بے شمار تصاویر کیساتھ سب سے بڑی خبر کے طور پر چھاپا۔ من پسند مبصرین نے پی پی پی سے جتوئیوں کی علیحدگی کو پیپلز پارٹی کی موت کی نوید قرار دیتے ہوئے سندھ سے ہمیشہ ہمیشہ کیلئے بھٹو سیاست کے خاتمہ کی پیش گوئی کرڈالی۔یہاں یہ بتانے کی غالباًضرورت نہیں ہے کہ مرتضیٰ جتوئی صاحب کی سزائے موت کامعاملہ ان کے والدکے ’’ضمیر‘‘ کے جاگنے کے ساتھ ہی ختم ہوگیا۔
میں اس زمانے میںہائی اسکول کا طالب علم تھا تاہم اخبارات انتہائی شوق اور توجہ سے پڑھا کرتا تھا اور مجھے یادہے کہ اس زمانے میں تمام اخبارات جتوئی صاحب کی نومولود جماعت کی حمایت کے اعلان سے بھرے ہوتے تھے۔ روزانہ یہ خبریں نمایاں طور پر شائع ہوتی تھیں کہ اندرون سندھ کے فلاں قبیلہ کے سربراہ نے اپنے’’ہزاروں ساتھیوں‘‘ سمیت نیشنل پیپلز پارٹی میں شمولیت اختیار کرلی ۔ پیپلز پارٹی کیخلاف ’’اہم ترین‘‘ رہنمااپنے ’’ہزاروں حمایتیوں‘‘ سمیت این پی پی میں شامل ہوگئے۔ فلاں فلاں علاقوں میں این پی پی کے دفتر کھل گئے۔ راتوں رات درجنوں سیاسی تجزیہ نگار خودروپودوں کی طرح نمودار ہوگئے جنہوں نے اپنے تجزیوں میں ثابت کرڈالا کہ مصطفی ٰجتوئی کی این پی پی کے قیام سے بھٹو کی پی پی پی کی المناک موت واقع ہوچکی ہے اور اب سندھ میں شاید کوئی بھٹو کا نام بھی سننا گوارا نہیں کرتا۔
جیسا کہ ابتداء میں بتایا کہ میں اس زمانے میں ہائی اسکول کا طالب علم تھا۔ گو مجھے مطالعہ خصوصاً اخبارات اور تاریخ و سیاسیات کی کتابوں کے مطالعے کا خصوصاً شوق تھا۔تاہم مجھے اس بات کا قطعی شعور نہیں تھا کہ پاکستان میں سیاست کیسے کی جاتی ہے۔سیاسی وفاداریاں کیسے خریدی جاتی ہیں۔ سیاسی جماعتوں میں توڑ پھوڑ کیسے ہوتی ہے اور اس توڑ پھوڑ کے پیچھے کون سی طاقت کارفرما ہوتی ہے۔ اپنی اسی سیاسی ناتجربہ کاری کی وجہ سے ’’سو میں بھی فریب کھا گیا‘‘ اور ایک دن جب خاندان کے بڑے حالات حاضرہ پر تبصرہ کررہے تھے، میں نے بھی جوش خطابت میں اندرون سندھ کی سیا ست اور پیپلز پارٹی کے مستقبل کے بارے میں اپنی دانست میں ایک انتہائی پرمغز اور معلوماتی تجزیہ پیش کردیا جو دراصل ان تمام من پسند تجزیہ نگاروں کے تجزیوں کی بنیاد پر تیار کیا گیا تھا۔اس تجزیہ کے اختتام پر میرے والد محترم نے مجھے جس قہر آلود نگاہ سے دیکھا اس سے مجھے اندازہ ہوگیا کہ میں نے کچھ غلط کہہ دیا ہے۔ والد صاحب کی نگاہ میں یہ پیغام بھی پوشیدہ تھا کہ مجھے وہاں سے اٹھ جانا چاہئے سو میں سر جھکا کر وہاں سے نکل آیا۔اگلے روز والد صاحب نے مجھے بلا کر کہا کہ اول تو میں عمر کے جس حصہ میں ہوں اس میں مجھے تمام تر توجہ اپنی تعلیم پر مرکوز رکھنی چاہئے۔ دوئم یہ کہ پاکستانی سیاست میں جو تبدیلیاں ہورہی ہیں یا عمومی طور پر ہوتی ہیں وہ اس قدر پیچیدہ ہوتی ہیں کہ ان کو سمجھنے کیلئے تجربہ درکار ہوتا ہے۔میں نے والد صاحب سے پوچھا کہ کیا آپ میرے تجزیے سے اتفاق نہیں کرتے تو انہوں نے محض اتنا کہا کہ اس سوال کا جواب میں نہیں دونگا،آنے والا وقت دے گا‘‘۔
پاکستانی سیاست کی پیچیدگی کے بارے میں والد صاحب کی تنبیہ کے باوجودمیں اپنے تجزیہ کی سچائی کے بارے میں خاصا پرامید تھا ۔ میں یہ سوچتا تھا کہ یہ بڑے بڑے نام والے دانشور اور تجزیہ کار جو کہہ اور سن رہے ہیں وہ بالآخر غلط کیسے ہوسکتا ہے! اسی سوچ وفکر میں وقت گزرتا چلا گیا اور محترمہ بے نظیر بھٹو نے اپنی جلاوطنی ختم کر کے پاکستان واپسی کا اعلان کرڈالا۔محترمہ کی واپسی پر ان کا اندرون سندھ جو تاریخی استقبال کیا گیا وہ میرے لئے ناقابل یقین تھا۔ جس طرح لاکھوں عوام ان کے استقبال کیلئے پورے ملک خصوصاً اندرون سندھ میں باہر نکلے اسے دیکھ کر میں یہ ہی سوچتا رہا کہ آخر یہ سب کیسے ممکن ہے؟ہمارے محترم تجزیہ نگار تو پی پی پی کے خاتمے کی نوید سناچکے تھے۔بھٹو تو مرچکا ہے۔ اب تو صرف جتوئی زندہ ہیں۔ یہ سب دیکھنے کے باوجود میں سوچتا تھا کہ شاید یہ تمام لوگ تماش بین ہیں جو استقبال کے موقع پر ہونے والے ڈانس اور نغمے دیکھنے جمع ہوئے ہیں مگرجب الیکشن ہوں گے تو صحیح معنوں میں پتہ چلے گا کہ اصل عوامی حمایت کسے حاصل ہے۔ اسی سوچ و فکر میں 88ء آگیا۔ جنرل ضیاء ایک طیارے کے حادثے میں اپنے متعدد رفقاء کے ساتھ ملک عدم سدھار ے اور ملک میں جماعتی بنیادوں پر الیکشن ہوگئے۔ماضی میں اپنے تجزیوں میں بھٹو کے خاتمے کا مژدہ سنانے والے اپنے تازہ ترین تجزیوں میں اب بھی پرامید نظر آرہے تھے اور اس یقین کا اظہار کررہے تھے کہ اندرون سندھ میں صرف جتوئی اکثریت حاصل کریں گے۔ 88ء کے الیکشن کے نتائج بالآخر سامنے آگئے اور پورے پاکستان یا سندھ سے تو کجا، جتوئی اپنی آبائی نشست پر بھی کامیا ب نہ ہوسکے۔غلام مصطفی جتوئی، جو اسلامی جمہوری اتحاد کے سربراہ تھے،سندھ سے قومی اسمبلی کے رکن تک نہ منتخب ہوسکے۔نوبت یہاں تک پہنچی کہ انہیں لیڈر بنانے کا خواب دیکھنے والی اسٹیبلشمنٹ کو انہیں جنوبی پنجاب کے علاقے کوٹ ادوسے ضمنی الیکشن میں الیکشن لڑواکر قومی اسمبلی کا رکن بنانا پڑا۔ میں نے تو اس صورتحال سے یہ سبق سیکھ لیا کہ کسی کو بھی لیڈر صرف عوام ہی بناسکتے ہیں، اسٹیبلشمنٹ نہیں۔ پرانی سوچ کے تحت پراناطرزعمل ایک بارپھر آزمایا جارہا ہے…کل مصطفی جتوئی تھے… آج ایک اور ’’مصطفی‘‘ کو کمالِ ڈھٹائی سے عوامی لیڈر بنانے کا مذاق قوم سے کیا جارہا ہے۔ صرف چہرے اور نام مختلف ہیں مگر انداز وہی ہے۔ منصوبہ وہی ہے۔مائنڈ سیٹ وہی ہے۔ اسکرپٹ رائٹرز وہی ہیں۔حتیٰ کہ اسکرپٹ بھی وہی ہے ۔ماضی کے مارشل لائی سیاسی مبصرین کی طرح آج بھی اسٹیبلشمنٹ کے تنخواہ یافتہ بعض خودساختہ سیاسی ماہرین کی ایک پوری فوج میڈیا پر بیٹھ کر اسی طرح کے تجزیے پیش کررہی ہے جو کسی کی خواہشات کاعکاس توہوسکتے ہیں مگران کازمینی حقائق سے کوئی تعلق نہیں ہے۔
تازہ ترین