• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
امن کی آشا کی جوت ہر امن پسند انسان اپنے دل میں جلائے بیٹھا ہے خواہ وہ بھارت کی سرزمین کا باشندہ ہو یا پاکستان کی لیکن علاقائی اور عالمی سیاست کی ہوا کی زد پر رکھے امن کی آشا کے دیے کی لو کبھی مدہم اورکبھی تیز ہوتی رہی ہے۔ باوجود گہرے ثقافتی معاشرتی، تاریخی اور جغرافیائی روابط کے غیر معمولی نوعیت کے تنازعات اور اختلافات جنوبی ایشیا کے ان ممالک کے درمیان دوری کا سبب بنتے رہے ہیں۔ گزشتہ 13 سال میں بدامنی اور دہشت گردی کے عفریت نے پاکستان کے شہروں کا سکون چین ان کی خوش حالی نگل لی۔ 2001ء سے پاکستان جس اندرونی خلفشار اور بیرونی خطرات سے دو چار ہے ان میں فرقہ واریت، مذہبی انتہا پسندی، منشیات اور اسلحہ کی سمگلنگ، مذہبی منافرت اور تشدد جیسے مسائل کا سیلاب بلا بھی شامل ہے۔ اسی دوران خطے میں امن و سلامتی کی ضرورت کے پیش نظر اور سلامتی کے خطرات اور مشکلات سے نمٹنے کے لئے پاک،بھارت پیس پر اس کا آغاز ہوا۔ لیکن یہاں غور طلب بات یہ ہے کہ جب بھی پاکستان اور بھارت نے باہمی تنازعات کو حل کرنے اور دو طرفہ تعلقات کو بہتر بنانے کی طرف قدم بڑھایا کوئی نہ کوئی ناخوشگوار واقعہ اس پیش رفت میں تعطل کا سبب بن گیا مثلا ذرا پیچھے کی طرف نظر کریں تو 1998ء کی پیس ٹاک کے بعد جب 1999ء میں لاہور ڈیکلریشن ہوا تو کارگل تنازع اور بھارتی جہاز کے ہائی جیک کے واقعہ نے اس پراسس کو روک دیا۔ 2001ء میں ہونے والی آگرہ سمٹ 11 ستمبر کے واقعہ کی نذر ہوگئی اور پھر سمجھوتہ ایکسپریس کی آتش زنی اور ممبئی کے حملوں نے بھی امن پر اس کو آگے نہیں بڑھنے دیا۔ سرکریک کا مسئلہ تقریباً حل ہونے کو تھا کہ بمبئی حملوں کی وجہ سے مذاکرات کا سلسلہ رک گیا۔ اسی طرح سیاچن کا مسئلہ بھی بغیر کسی پیش رفت کے اپنے حل میں نا کام ہے۔ اس کی آشا کا آغاز پاک، بھارت حکومتوں کی جانب سے گزشتہ پانچ سالوں میں از سر نو ہوا اور خارجہ سیکرٹریز کی سطح پر بات چیت کا سلسلہ دوبارہ شروع ہوا مصر میں دونوں ممالک کے وزرائے اعظم کی ملاقاتیں بھی ہوئی اور 2012ء میں صدر زرداری نے بھارت کا غیر سرکاری دورہ بھی کیا لیکن لائن آف کنٹرول پر ہونے والے واقعات اور کشیدگی اور افضال گرو کی پھانسی جیسے معاملا باہمی اعمتاد کی فضا کو مکدر کرنے رہے۔ اس فضا میں ایک نا گوار موسم کی تپش کا احساس برقرار رہا جسے بس سروس سمجھوتہ ایکسپریس یا تھر ایکسپریس اور کرکٹ ڈپلومیسی جیسی کوششیں بھی کم نہ کرسکیں۔ 2001ء سے اب تک پاک ،بھارت امن پر اس انتہائی ست رفتاری سے آگے بڑھا ہے اور دونوں ممالک مذاکرات کے ذریعہ کسی بھی مسئلہ کا حل نکالنے میں نا کام رہے ہیں۔ لیکن امن کی آشائی جوت بھجنے نہ پائے اس کوشش میں دونوں ممالک کے امن پسند شہریوں کا کردار بھی بہت اہم رہا ہے۔ سول سوسائٹی، مقامی NGOS اور تھنک ٹینکس اور فنکار دونوں ممالک کے درمیان امن اور خیر سگائی کو فروغ دینے کے لئے انفرادی اور اجتماعی طور پر کوشاں رہے ہیں۔ میڈیا یوتھ آرگنائریشنز زندگی کے متعدد شعبوں سے متعلق سرکردہ افراد اور فنکار چاہتے ہیں کہ ثقافتی، ادبی اور موسیقی کے پروگراموں کے ذریعہ عدم تشدد اور امن کے پراسس کو فروغ دیا جائے اور دنوں ممالک میں مختلف Exibition اورسیمینارز کا انعقاد کیا جائے۔ لیکن جہاں امن کی سوچ اور خواہش رکھنے والے ہیں وہاں کچھ ایسے لوگ بھی ہیں جنہیں امن اور خوش حالی کے یہ رنگ نہیں بھاتے یہ لوگ امن کی آشا کے اس چراغ کو اپنے انتہا پسند بیانات کی پھونکوں سے بجھانے پر آمادہ نظر آتے ہیں۔ راج ٹھاکر جو کہ ایک فلم میکر بھی ہیں اور مہارا شٹرا ناونرمن سینا(MNS) کے چیف بھی ہیں ایک ثقافتی پروگرام میں تقریر کے دوران یہ سوال اٹھا چکے ہیں کہ آخر بھارت میں پاکستانی فنکاروں کے لئے ریڈ کارپٹ کیوں بچھایا جارہا ہے۔ (MNS) اور شیوسینا جیسی مذہبی انتہا پسند تنظیمیں دھمکا رہی ہیں کہ سہارا ون چینل سے نشر ہونے والے موسیقی کے ایک پروگرام کی نشریات بند کی جائیں کیونکہ ان میں پاکستان فنکار حصہ لے رہے ہیں (MNS) کا سینما ونگ پہلے ہی آشا بھوسلے کو یہ وارننگ دے چکا ہے وہ موسیقی کے اس پروگرام میں حصہ نہ لیں جس میں پاکستانی آرٹسٹ بھی موجود رہیں۔ جس کا جواب آشا بھوسلے نے یہ دیا کہ انہیں سیاست میں کوئی دلچسپی نہیں وہ صرف موسیقی کی زبان کو سمجھتی ہیں۔ شو سینا کے صدر ادھیو ٹھاکرے بھی واضح طور پر کہہ چکے ہیں کہ وہ ہر گز یہ برداشت نہیں کرسکتے کہ پاکستان کے فنکار انڈین سر زمین پر موجود ہوں جب تک کہ دونوں ممالک کے تعلقات بہتر نہیں ہوتے۔ اس طرح بھارتیہ جنتا پارٹی(بی جی پی) نے بھی جے پورلٹریچر فیسٹیول میں پاکستانی ادیبوں کی شرکت کی مخالفت کی اس طرح کی سوچ رکھنے والوں نے بھی پاکستانی کرکٹر شعیب ملک اور ثانیہ مرزا کی شادی کے خلاف بھی شدید ردعمل کا اظہار کیا تھا بھوپال کی سڑکوں پر ثانیہ مرزا کی تصویریں جلائیں گئیں۔ جیسے ہی ثانیہ مرزا شعیب کی محبت میں گرفتار ہوئیں یہ محسوس کیا گیا کہ بھارت اپنی نیشنل ہیروئن کی محبت کے اثر سے باہر نکل رہا ہے۔ ایسی تنگ نظر اور مقصبانہ سوچ کے حامل افراد کا احتجاج یہ تھا کہ ثانیہ ایک پاکستانی کرکٹر سے شادی کیوں کررہی ہیں۔ ایسی سوچ رکھنے والے افراد ظاہر ہے Peace Talk کے عمل کو یا امن کی آشا کی کوششوں کو پھلنے پھولتے نہیں دیکھ سکتے۔ جبکہ پاکستان میں اس شادی کا پر زور خیر مقدم ہوا اور اس شادی کو دونوں ممالک کے درمیان خوشگوار تعلقات اور خیر سگالی کے امکانات کے فروغ کا باعث گردانا گیا دراصل یہ بات سچ ہے کہ سیاستدان ہمیشہ اپنے سیاسی مفادات کے پیش نظر ان دو ممالک کے لوگوں کے درمیان فاصلے پیدا کرنے کی کوشش کرتے رہے ہیں ورنہ دونوں ممالک کے عوام کے مابین بہت سی مشترکہ قدریں موجود ہیں اور وہ امن اور خیرسگالی کے خواہاں ہیں۔ لیکن بعض سیاستدانوں اور انتہا پسند مذہبی جماعتوں کی وجہ سے مثبت جذبات اور خیر سگالی کی خواہش پر پرانی مخاصمت غالب آجاتی ہے۔ پیس پر اس کا تجربہ یہ بتاتا ہے کہ دونوں ممالک تقسیم سے قبل اس مائنڈسیٹ سے پیچھے ہٹنے کو تیار نہیں۔ ماضی کے تلخ تجربات کی LEGACY اور اپنی الگ الگ نظریاتی وابستگیوں کا تاریخی بوجھ اور بداعتمادی دونوں ممالک کے بنیادی تنازعات کو کسی حتمی حل تک پہچنے نہیں دیتے۔ پاکستان اور بھارت کو ماضی تلخیوں کے بوجھ کو اتار کر ایک دوسرے کے لئے نفرت آمیز رویوں سے باہر نکلنے کی ضرورت ہے۔ ضرورت ہے کہ سرکش اور مفسدانہ رویے سے ہٹ کر مسائل کے حل کیلئے مذاکرات اور پیس پر اس کو جاری رکھا جائے کیونکہ 2014ء کے بعد افغانستان کی بدلتی ہوئی سیاسی صورت حال اس خطے میں پاکستان کی نئی سیاسی حیثیت اور اہمیت کے نقوس کو واضح کرے گی۔ پاکستان کی ابتدا سے ہی نہرو اور لیاقت علی خان کے دور سے نو وار پالیسی رہی ہے اور بھارت کے ساتھ پر امن مذاکرات کے ذریعے تنازعات کو حل کرنا پاکستان کی خارجہ پالیسی کا نمایاں پہلو رہا ہے۔ اسی پالیسی کے تحت 1966ء کا تاشقند معاہدہ 1972ء کا شملہ معاہدہ اور متعدد رفاعی اور فوجی معاہدے کئے گئے۔ دریاؤں کی تقسیم کا مسئلہ بھی ثالثی سے ”انڈس واٹر ٹریٹی“ کے تحت حل کیا گیا تھا جسے ورلڈ بینک نے 1960ء میں ختم کردیا۔ اس طرح رن آف کچھ تنازع بھی عالمی ثالثی کی بنیاد پر حل ہوگیا تھا۔ امید ہے کہ انتخابات میں پاک ،بھارت پیس پر اس کو اولیت دے گی تاکہ مذاکرات کے ذریعہ مسائل کو حل کیا جاسکے جس سے جنوبی ایشیا میں معاشرتی ترقی اور خوشحالی کے امکانات روشن ہوسکتے ہیں جو کہ دونوں ممالک کے عوام کی زندگی پر مثبت اثرات مرتب کرنے کا موجب ہوں گے۔
تازہ ترین