• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
یہ ایک خصوصی پرواز تھی۔ ہوائی جہاز پر پاکستان کا وزیراعظم اپنے وزراء اور وفد کے دیگر ارکان کے ہمراہ سفر کر رہا تھا۔ پی آئی اے کا جہاز شمالی کوریا سے ”عوامی جمہوریہ چائنا“ کی طرف محو پرواز تھا۔ حسب معمول جہاز پر پرائم منسٹر کے لئے خصوصی طور پر علیحدہ انتظام تھا۔ جہاں وہ وقتاً فوقتاً اپنے وفد کے ارکان کو باری باری بلا کر ان سے باتیں کر رہے تھے۔ صلاح مشورہ کر رہے تھے۔ کچھ گپ شپ اور ہلکی پھلکی باتیں بھی ہورہی تھیں۔ ملٹری سیکرٹری پرائم منسٹر کی خواہش پر ان کے مطلوبہ افراد کو خصوصی ملاقات کے لئے پرائم منسٹر کی نشست تک لے جارہے تھے۔ پھر ملٹری سیکرٹری نے ان سے گزارش کی آپ وزیراعظم کے کیبن میں تشریف لے جائیں وہ آپ کو یاد کر رہے ہیں۔ نوجوان انقلابی جلدی جلدی اپنے قائد اپنے وزیراعظم سے ملنے کیلئے ان کے کیبن میں پہنچا تو وزیراعظم نے حسب معمول کھڑے ہوکر اپنے ساتھی سے مصافحہ کیا۔ یہ نوجوان جو 35 سال کا پرعزم انقلابی ذہن رکھنے والا بیرسٹر تھا جس نے 29 سال کی عمر میں پارٹی جوائن کی تھی اس لحاظ سے اپنے آپ کو خوش قسمت سمجھتا تھا کہ اس نے پارٹی لیڈر سے اس وقت دوستی قائم کی تھی جب ابھی پارٹی بنی بھی نہیں تھی۔ ابھی یہ منظر عام پر نہیں آئی تھی صرف پارٹی لیڈر کے ذہن میں موجود تھی۔ لیکن وہ وقت کے ڈکٹیٹر آمر کا ناپسندیدہ شخص بن چکا تھا۔ اس لئے سوچ رہا تھا کہ کب پارٹی بنائی جائے، بنائی جائے یا ابھی رہنے دیا جائے۔ اس اٹھائیس سالہ نوجوان نے جو لندن میں وائٹ ہال کے سرکاری دفاتر میں اعلیٰ عہدے پر کام کر رہا تھا پارٹی لیڈر کو قائل کرلیا تھا کہ ٹریڈ یونینوں کے ساتھ مل کر برطانیہ کی لیبر پارٹی کی طرز پر پاکستان میں مزدوروں کسانوں اور محنت کشوں کی ایک نمائندہ جماعت قائم کی جائے۔ لیڈر کو یہ تجویز پسند آئی تھی اور یہیں سے لیڈر اور اس نوجوان انقلابی خیالات والے بیرسٹر کے درمیان باہمی اعتماد اور احترام کا رشتہ قائم ہواتھا۔ لیڈر پارٹی کے صرف چند لوگوں کیلئے کھڑے ہوکر ہاتھ ملاتا تھا۔ جن کی تعداد کو ہاتھ کی انگلیوں پر گنا جاسکتا تھا۔ یہ نوجوان بیرسٹر بھی ان میں شامل تھا۔ آج جب وزیراعظم نے اسے جب ہوائی جہاز میں اپنے کیبن میں بلایا تو وہ بہت پرجوش تھا۔ کیونکہ وہ شمالی کوریا کے شاندار دورے سے واپس آرہے تھے اور وہاں انہوں نے لوگوں میں ایک انقلابی جوش اور جذبہ دیکھا تھا۔ اور یہ نوجوان بیرسٹر چاہتا تھا کہ یہی انقلابی روح جوش و جذبہ پاکستانی محنت کشوں، مزدوروں اور کسانوں میں پھونکا جائے اور انہیں خودداری اور اعتماد سے سرشار اور لیس کیا جائے۔ لیکن یہ کیا؟ وہاں تو معاملہ کچھ اور تھا۔ وزیراعظم بجائے خوش ہونے کے غمزدہ بیٹھے تھے۔ انہوں نے اپنا پسندیدہ مشروب اپنے سامنے رکھا ہوا تھا اور بار بار چسکیاں لے رہے تھے پھر وہ نوجوان بیرسٹر سے غمزدہ لہجے میں کہنے لگے۔ تم نے دیکھا کہ شمالی کوریا میں کس طرح ان کے لیڈر کی عزت کی جاتی ہے۔ اس کے سامنے کوئی سر اٹھا کر بات نہیں کرتا اس کے وزیر اس کی اسمبلی کے ممبر سب عزت و احترام سے اپنے لیڈر کی بات سنتے ہیں اور حکم کی تعمیل کرتے ہیں اور ایک تم لوگ ہو کہ ہر بات پر کیڑے نکالتے ہو۔ مجھ سے بحث کرتے ہو اور مجھے تنگ کرتے ہو۔ وزیراعظم جذباتی ہورہے تھے نوجوان بیرسٹر کی سمجھ میں نہ آیا کہ یہ کیا ہوا؟ کیوں ہوا؟ پھر اسے احساس ہوا کہ کسی نے وزیراعظم کے کان بھرنے شروع کر دیئے ہیں اور وہ ان پارٹی ارکان کو ناپسندیدگی کی نگاہ سے دیکھنے لگے ہیں جو پارٹی کے اجلاس میں مفید مشورے دیتے ہیں اور ان پر صحت مندانہ تنقید کرتے ہیں۔ اس دن سے نوجوان بیرسٹر نے اندازہ لگالیا کہ بہت جلد اس کی راہیں اس کے لیڈر سے علیحدہ ہوجائیں گی اور پھر یہی ہوا کہ لیڈر کا رویہ اس قدر سخت ہوگیا کہ اس نوجوان بیرسٹر نے پارٹی چھوڑنے کا کڑا فیصلہ کرلیا اور اس طرح وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو اور بیرسٹر تاج محمد لنگاہ کی سیاسی راہیں جدا ہوگئیں لیکن کہتے ہیں کہ پہلی محبت کبھی بھولتی نہیں۔ یہ دونوں کی پہلی سیاسی رفاقت تھی اس لئے تاج محمد لنگاہ بھی ہمیشہ سرد آہیں بھر کو بھٹو صاحب کے ساتھ اپنی یادوں کا تذکرہ کرتے رہے اور ان کے مطابق واقفانِ حال بتاتے تھے کہ بھٹو صاحب بھی تاج محمد لنگاہ کا ذکر عزت و احترام سے کرتے تھے کیونکہ ان کو معلوم تھا کہ اس دور میں اگر کسی نے ایوب صاحب کے خلاف پیپلزپارٹی کی احتجاجی تحریک میں بھٹو کے ساتھ تصویر بھی کھنچوائی تو اس کی پوری قیمت وصول کی۔ لیکن وہ شخص جو پارٹی کے قیام سے پہلے بھٹو کا ساتھی تھا اور جس نے لندن کی پرآسائش زندگی، سرکاری نوکری اور برٹش نیشنلٹی کے مواقع چھوڑ کر پاکستان میں ایک عام آدمی کی زندگی گزاری اس نے پارٹی اور حکومت سے کوئی مفاد حاصل نہ کیا۔ خواب سجانے اور خواب بیچنے والے اپنے خوابوں کے رومانس میں مبتلا رہتے ہیں۔ وہ خواب بیچتے ضرور ہیں لیکن اس کی قیمت وصول نہیں کرتے۔ لنگاہ صاحب کے جو بھی سیاسی نظریات تھے ان سے قطع نظر وہ ایک پرعزم، باہمت اور بااصول انسان تھے اور ان کی یہی خوبیاں مجھے ہمیشہ اچھی لگتی تھیں۔ ان سے تعلق آج سے تقریباً 31 سال پہلے 1982 میں اس وقت ہوا جب میں پاکستان میں وکالت کرتا تھا۔ لنگاہ صاحب اپنی وکالت کی پیشہ ورانہ ذمہ داریوں پر سلسلے میں یا پھر دوستوں سے ملنے کے لئے جب عدالت میں آئے تو ایک محفل سج جاتی۔ سینئر اور جونیئر وکلاء کا ایک ہجوم اکھٹا ہوجاتا اور پھر لنگاہ صاحب کی باتیں، نہ وہ باتیں کرتے ہوئے تھکتے اور نہ سننے والے اکتاتے تھے۔ پھر انہوں نے سرائیکی صوبے کے قیام کے لئے سرائیکی صوبہ محاذ قائم کیا۔ اس وقت سرائیکی صوبہ بنانے کی بات کرنا اپنے آپ کو طعن، تشنیع اور تضحیک کا نشانہ بنانے کے لئے پیش کرنا تھا۔ آج جو لوگ اور جو پارٹیاں سرائیکی صوبہ کے مطالبے کی چیمپئن ہیں اس وقت وہ سب لوگ لنگاہ صاحب کا مذاق اڑایا کرتے تھے انہیں فاتر العقل کہتے تھے۔ لیکن لنگاہ صاحب ڈٹے رہے اور کہنے لگے کہ ایک دن آئے گا کہ یہ ہی لوگ میرے مطالبے کے جائز اور حقیقت پر مبنی ہونے کا اعتراف کریں گے اور یہی ہوا۔ لیکن زبانی کلامی حد تک وہ مجھ سے کہتے تھے کہ بے نظیر بھٹو سے لیکر نواز شریف تک سب ہی سرائیکی صوبے کے مطالبے کے جائز ہونے کی بات کرتے ہیں لیکن کوئی بھی میرا ساتھ دینے کے لئے تیار نہیں ہے۔ میں ان سے کہتا تھا کہ آپ بے لوث ہوکر کام کرتے رہیں۔ جب بھی سرائیکی صوبہ بنا تو آپ کو بابائے سرائیکی صوبہ کے طور پر یاد کیا جائے گا اور لوگ آپ کے دن منایا کریں گے میں انہیں احمد ندیم قاسمی کا یہ شعر سنایا کرتا تھا۔
عمر بھر سنگ زنی کرتے رہے اہل وطن
یہ الگ بات ہے دفنائیں گے اعزاز کے ساتھ
جس پر لنگاہ صاحب اپنی مخصوص مسکراہٹ کے ساتھ ایک مخصوص فقرہ لڑھکا دیتے تھے اور پھر اپنی جدوجہد کی داستان شروع کر دیتے تھے۔ لنگا صاحب نے انگلستان میں بھی مجھے ڈھونڈ ہی لیا اور پھر جب وہ برطانیہ آئے تو اکثر ہمارے گھر دو تین دن ضرور قیام کرتے، وہ رات کو دیر سے سوتے اور صبح جلدی اٹھتے تھے۔ لوگ انہیں سوشلسٹ کے طور پر جانتے ہیں۔ میں انہیں صوفی منش سادہ زندگی گزارنے والے بے لوث انسان کے طور پر جانتا ہوں۔ زندگی کے آخری حصے میں وہ کہتے تھے کہ مجھ پر تصوف کا رنگ غالب آنے لگا ہے اور میں خواجہ غلام فرید کی شاعری اور ان کے خیالات و افکار کا پرچارک بن رہا ہوں۔ 2011 میں انہوں نے ملتان میں اپنے دفتر میں میرے لئے پریس کانفرنس کا اہتمام کرایا۔ پریس کے دوستوں سے ملاقات کرائی اور محبت بھرے انداز میں میرا تعارف کرایا۔ پھر ہم نے ”الطریقة المحدیہ“ کا پروگرام ایک بڑے ہال میں کرایا تو وہ اس میں آئے اور تقریر کی انہوں نے غالباً کہا کہ وہ جعلی پیروں کو نہیں مانتے لیکن خواجہ غلام فرید کے دل سے مداح اور معترف ہیں اب لنگاہ صاحب اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں حاضر ہوگئے ہیں اور اللہ تعالیٰ ان کی مغفرت فرمائے۔
عدل کریں تے تھر تھر کمبنڑ اُچیاں شاناں والے
فضل کرے تے جاون میں جیئں مونہہ کالے
تازہ ترین