• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پاکستان میں سیاسی پارٹیوں، دیگر بڑے اداروں اور عوام کوچلانے والی اصل طاقت اب تک تو اوورسیز پاکستانیوں کو سونے کا انڈہ دینے والی مرغی یا دودھ دینے والی بکری سمجھتی رہی ہے ۔ اسی لئے ان سے کبھی سیاستدانوں کے ذریعے قرض اتارو ملک سنوارو کے نام پر اور کبھی زلزلے کے نام پر پیسہ لوٹا جاتا ہے۔ مشرف کی شکل میں فوجی آمریت کا دور ختم ہوا اور اللہ اللہ کرکے ایک لولی لنگڑی جمہوریت کا آغاز ہوا تو اوور سیز پاکستاینوں نے پھر سب کچھ بھلا کر جلاوطنی کے کفن سے باہر نکل کر پاکستان میں پھرسے سرگرم ہو نے والی سیاسی پارٹیوں کا ہاتھ بٹانے کے لئے ان کے کندھے سے کندھا ملا کر چلنا شروع کر دیا۔ ملک کی اصلی طاقت کا خیال تھا کہ یہ سیاسی پارٹیاں سال چھ مہینے کے اندر خود ہی ایک دوسرے کو نوچ کھائیں گی مگر ان کی خواہش پوری نہ ہوئی ۔ پھر اس نے دو اداروں کو ان کے پیچھے لگا دیا مگر پھر بھی ان کا کام نہ بنا تو اس طاقت کو فکر لاحق ہوئی کہ آخر ان سیاسی پارٹیوں میں اتناشعور کہاں سے آگیا۔ شایداس موقع پر ان کو بتایا گیا کہ یہ اوورسیز پاکستانیوں کی صحبت کا نتیجہ ہے۔ پاکستان کی اس اصلی طاقت کو سب کچھ گوارا ہے مگر اس طرح کا لانگ ٹرم شعور اس کی نظر میں زہر قاتل ہے اس کے بعد پہلے تو حکومت میں موجود بعض اوورسیز پاکستانی وزرا اس کی آنکھ میں رگڑنے لگے۔ جب وہ اچھی طرح قابو نہ آئے تو اسے ن لیگ اور دوسری اپوزیشن جماعتو ں کے اوور سیز اراکین پارلیمنٹ سے بھی تکلیف ہونے لگی۔ اس طرح پاکستان کے اندر مضبوط ہوتی ہوئی سیاسی پارٹیوں کو کمزور کرنے کے لئے شاید یہ ضروری ہو گیا کہ ان کے اندر سے اوورسیز پاکستانوں کا پتہ صاف کیا جائے۔ اس طرح پہلے تو راتوں رات سب اوورسیز پاکستانی اراکین اسمبلی کی رکنیتیں ختم کرا دی گئیں اور بڑی چالاکی، بڑی ہوشیاری کے ساتھ اِدھر اُدھر کی قانونی موشگافیوں کے ذریعے اوورسیز پاکستانیوں کو رجسٹر کرایا گیا کہ وہ خود کو پاکستانی سمجھنے کا گناہ کرنا چھوڑ دیں اور اچھی طرح جان لیں کہ وہ غیر ملکی ہیں۔ اس ساری کارروائی میں اس طاقت نے مسلم لیگ ن اور پی پی کی ایسی مشکیں باندھیں کہ وہ اس ساری کارروائی کو انتہائی بے بسی سے دیکھنے کے سوا کچھ نہ کر پائیں بلکہ کچھ کرنے کی بجائے شرمندہ شرمندہ سی ہو کر پھرتی رہیں۔
اس طرح جب اوورسیز پاکستانیوں کا سیاسی پارٹیوں کو کمزور کرنے کے لئے اچھی طرح پتہ صاف کر دیا گیا ان کو اپنے ہی ملک کی سیاست سے باہر نکال کر غیر ممالک میں نکرے لگا دیا گیا تو پھر گونگلوں سے مٹی جھاڑنے کے لئے ان کو ووٹ کا حق دینے کا لولی پاپ بلند کر دیا گیا۔ کسی ادارے سے راتوں رات انہیں ووٹ کا حق دینے کی آوازیں آنے لگیں تو کہیں سے یہ آوازیں آنے لگیں کہ اتنے کم وقت میں ووٹ ڈلوانے کا انتظام ممکن نہیں ۔ یعنی کہ اب یہ مصر کا بازار اس قدرگرم ہے کہ جن اوورسیز پاکستانیوں کی تقدیر کے فوری فیصلے کی سب کو فکر ہے ان بیچاروں کا آپس آپس میں ہی سودا کرکے سب اپنے اپنے نمبر بنانے کے چکر میں ہیں جس طاقت نے اوورسیز پاکستانیوں کو نکرے لگایا ہے وہ چاہتی ہیں کہ اپنا الو سیدھا کرنے کے بعد اب ووٹ کا حق دینے کا جھوٹا کریڈٹ بھی حاصل کر لیا جائے۔
میری ان باتوں سے کوئی اتفاق کرے یا نہ کرے لیکن یہ تو سب کو ماننا پڑے گا کہ ووٹ کے حق کے اس ڈرامے میں اوورسیز پاکستانیوں سے کسی نے ایک بار بھی نہیں پوچھا کہ آپ کو ووٹ کا حق چاہئے یا کہ نہیں چاہئے۔ اس صورتحال میں ایسا لگ رہا ہے کہ دودھ دینے والی بکری کو بھوک ہے یا نہیں اب اپنے دودھ کی فکر میں چارہ اس کے منہ میں ٹھونس کر ہی دم لیا جائے گا ۔ یعنی کہ ہمیں اسمبلیوں میں شامل کر لیا جائے یا نکال دیا جائے ،ہم کون ہوتے ہیں بولنے والے ؟ اب ہمیں بغیر پوچھے ووٹ کا حق دے دیا جائے تو ہم کون ہوتے ہیں بولنے والے۔ لگتا ہے اب تو ہمیں ووٹ کا حق دے کر ہی دم لیا جائے گا اور ووٹ بھی ایسا کہ آپ ووٹ دے سکتے ہیں ووٹ لے نہیں سکتے ۔ کیا یہ عجیب سی پارٹنر شپ نہیں کہ آپ صرف دودھ دے سکتے ہیں اسے چکھ نہیں سکتے یعنی ہم ووٹر ہو کر بھی اچھوت ووٹر ہی رہیں گے۔ اس ڈرامے میں مزید رنگ بھرنے کے لئے گزشتہ ہفتے سے غیر ممالک میں ووٹ کا حق حاصل کرنے کیلئے مظاہرے بھی شروع ہوگئے ہیں مگر یہ مظاہرے کرنے والے نئے نئے چہروں والے لوگ کون ہیں کہاں سے یا کس کے یا کن کے اشاروں سے بھیجے گئے ہیں کوئی نہیں جانتا۔
سب سے پہلی اور اہم بات یہ ہے کہ ووٹ کا حق ہمیں دینا ہے تو پہلے ہم سے باضابطہ طور پر پوچھا جائے۔ یہ پوچھنا زبانی کلامی نہیں ہونا چاہیے جب تک یہ فیصلہ نہیں ہو جاتااس وقت تک ہمیں اس اچھوت ووٹ کی ضرورت نہیں۔ اس معاملے کو آئندہ آنے والی حکومت پر چھوڑ دیا جائے۔ عام انتخابات کے ذریعے بننے والی حکومت اس معاملے کو حل کرنے کیلئے دنیا بھر کے ممالک میں ریفرنڈم اوورسیز پاکستانیوں سے ریفرنڈم کے ذریعے پوچھے کہ کیا ان کو ووٹ کا حق چاہئے یا کہ وہ اس کے بغیر ہی اپنے ملک پاکستان کی خدمت کر سکتے ہیں۔ ریفرنڈم سے قبل اوورسیز پاکستانیوں کو آپس میں بحث مباحثے کا وقت بھی دیا جائے تاکہ وہ اس ریفرنڈم میں اپنی رائے کو بغیر کسی کنفیوژن کے استعمال کر سکیں۔
ہم اوورسیز پاکستانیوں کو چاہئے کہ ہم اس معاملے کو اچھی طرح سمجھنے کے لئے ایک دوسرے کا نقطہ نظر کھلے دل سے سنیں اور اس بات کا بھی اچھی طرح جائزہ لیں کہ اگر ہمیں الیکشن لڑنے کے لئے اچھوت کا اچھوت ہی رکھا جائے گا تو پھر ہمیں ووٹ ڈال کر اپنی محب الوطنی کی قبض توڑنے کی کیا ضروورت ہے۔ کیا ہمیں ’اسی عطار کے لونڈے سے دوا لینے‘ کی ضرورت ہے یا کہ ہم اس کے بغیر ہی ٹھیک ہیں۔
میری امی جن پرانے کمیونٹی رہنماؤں کو جانتی ہیں وہ سمجھتے ہیں کہ ہمیں الیکشن لڑنے کا حق لئے بغیر اچھوت ووٹ کا حق ہرگز نہیں لینا چاہئے۔ ان کے خیال کے مطابق بھی پاکستان کی خارجہ پالیسی کو کنٹرول کرنے والی طاقت نے اوورسیز پاکستانیوں کو بھی کنٹرول کر لیا ہے کیوں کہ ان کی صفوں میں اب بھی ایسے انتہا پسند موجود ہیں جو ملک کو اپنے نظریات کے بوری بند ڈبے کے ماڈل میں ہی چلانا چاہتے ہیں انہیں جمہوری، معاشی، سیاسی، سماجی، انسانی حقوق اور اقلیتوں کے حقوق کا شعور رکھنے والے اوورسیز پاکستانیوں کی قربت اور اپنے ملک کے لئے خدمات سے خوف آتا ہے۔ ہمارے ساتھ اس ضمن میں اب تک جو ہوا ہے اسی کی خفیہ کارستانیوں کا نتیجہ ہے۔ اس ضمن میں ہماری لنگڑی لولی جمہوریت کی سیاسی منی کو تو حسب معمول ویسے ہی بدنام کر دیا گیا ہے۔ اسی کو جلدی ہے کہ آنے والی حکومت سے قبل اس اہم معاملے کو لاش بنا کر بوری میں بند کر دیا جائے مگر ہمارے لئے ضروری ہے کہ ہم اس معاملے کو حل کرانے کیلئے اس ایشو کو آنے والی حکومت تک زندہ رکھیں ۔ جمہوری خومت جیسی بھی آئے پروا نہیں اسی کے ذریعے یہ جمہوری مسئلہ بہتر طریقے سے حل ہو گا۔
تازہ ترین