• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
انتخابی عمل جمہوریت کا وہ جز ہے جس کی بدولت ان افراد کو منتخب کر کے ایوانوں میں پہنچایا جاتا ہے جوعوام کی نظر میں ان کی امنگوں کے ترجمان ہوتے ہیں۔ اس انتخابی عمل میں حصہ لینے کے لئے امیدواران کو جن شرائط پر پورا اترنا ہوتا ہے ان کا تذکرہ آئین پاکستان میں کیا جا چکا ہے۔ یہ وہی باسٹھ اور تریسٹھ ہے جس کو بنیاد بنا کر ریٹرنگ افسران امیدواروں سے مضحکہ خیزاور بعض اوقات تضحیک آمیز سوالات کرتے رہے۔ کہا گیا کہ اس عمل سے جمہوریت کی گندگی کو صاف کیا جائے گا، کتنی گندگی صاف ہوئی ۔۔۔ کتنی باقی رہ گئی میں اس کے بارے میں زیادہ کچھ نہیں کہنا چاہتا۔سابق وزیر اعظم راجہ پرویز اشرف ملزم ہونے کی وجہ سے انتخاب لڑنے کے اہل نہیں، مگر دوسری طرف ایسے امیدوار بھی ہیں جو الزامات کی وجہ سے جیل میں ہیں مگر انتخاب لڑنے کے اہل ہیں۔ میرے نزدیک کس شخص کو اقتدار کے ایوانوں میں پہنچایا جائے، یہ فیصلہ کرنے کا اختیار صرف اور صرف عوام کو حاصل ہے،کسی کے عوامی نمائندگی کے لائق ہونے یا نہ ہونے کا فیصلہ وہی بہتر انداز میں کر سکتے ہیں۔ اس ضمن میں باسٹھ اور تریسٹھ کو مزید واضح کرنے کی ضرورت ہے تاکہ ان شقوں میں موجود ابہام کی بنیاد پر امیدواروں کو سیاسی عمل سے فارغ نہ کر دیا جائے ۔
آنے والے انتخابات میں ایک اور فیکٹر دہشت گردی کا ہے۔۔۔ پچھلے چند دنوں میں ہونے والے واقعات اس بات کی طرف اشارہ کر رہے ہیں، یہ ایک بہت خطرناک طرز عمل ہے۔ مذہبی انتہا پسندی اور دہشت گردی کے خلاف صف آراء جماعتوں کے انتخابی جلسوں اور ریلیوں پر حملے کئے جا رہے ہیں اس سے آنے والے دنوں میں ان سیاسی جماعتوں کی سیاسی سرگرمیوں کے ماند پڑنے کا خدشہ ہے۔
صورتحال اس حد تک بگڑ رہی ہے کہ مسلم لیگ ن کے صدر میاں نواز شریف کو بھی مشورہ دیا جا رہا ہے کہ وہ عوامی اجتماعات میں جانے سے محتاط رہیں۔ ایک ایسے وقت میں جبکہ ملک بھر میں سیاسی سرگرمیاں پہلے ہی بہت محدود ہیں ، چند جماعتوں کو نشانہ بنا کر دہشت گرد انہیں الیکشن کے مرحلے سے بھگانا چاہتے ہیں۔ اس کی بنیادی وجہ یہی ہے کہ تحریک طالبان پاکستان میں کسی ایسے نظام کو نہیں دیکھنا چاہتی جو ان کے” فلسفہ“کے مطابق نہ ہو۔۔۔ او ر اس ضمن میں تحریک طالبان کچھ مخصوص سیاسی جماعتوں کو اپنے راستے کی بڑی رکاوٹ سمجھتی ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ اے این پی دہشت گردو ں کے عتاب کا کچھ زیادہ ہی شکار ہے، اے این پی کے پارٹی ورکر اور رہنما اپنے دور اقتدار میں بھی دہشت گردوں کے نشانے پر تھے۔ سوات میں افضل خان لالہ کے گھر کے کئی سالہ گھیراؤسے لے کر اسفندیار ولی پر ان کے حجرے میں ہونے والے خودکش حملے تک، اے این پی کے رہنما ہمہ وقت زندگی اور موت کی کشمکش میں رہے۔
اے این پی کے دور حکومت میں ہی ان کے وزیر اطلاعات میاں افتخار حسین کا جواں سالہ بیٹا دہشت گردوں کے ہاتھوں شہید ہوا، پھر سینئر وزیر بشیر احمد بلور بھی دہشت گردی کے ایک واقعہ میں شہید ہوئے ۔ یہ واقعات ان سینکڑوں کے علاوہ ہیں جن میں اے این پی کی صوبائی، ضلعی اور مقامی سطح کی لیڈرشپ کو نشانہ بنایا گیا۔ اے این پی کی جانب سے دہشت گردوں کے خلاف واضح اور سخت موقف کے باعث پچھلے پانچ سالہ دور حکومت میں اے این پی کے لیڈر اور کارکنان دہشت گردوں کی ہٹ لسٹ پر رہے لیکن شاید حکومت میں ہونے اور سیکورٹی کے حصار میں رہنے کے باعث بہت سے مزید ممکنہ سانحات سے بچ گئے ہوں۔ لیکن اب ایسا نہیں ہے، الیکشن سے پہلے اے این پی کے پاس اب کوئی سرکاری تحفظ نہیں ہے، تحریک طالبان پاکستان کھل کر اعلان کر چکی ہے کہ وہ آئندہ انتخابات میں اے این پی کے لئے انتخابی مہم کو ناممکن بنا دیں گے… انتخابی عمل کے دوران سیکورٹی کے حصار میں سیاسی سرگرمیاں چلانا مشکل ہوتا ہے کیونکہ لیڈر کا عوام سے رابطہ کسی بھی جماعت کی کامیابی کے لئے ضروری ہوتا ہے۔لیکن بغیر کسی سیکورٹی کے اے این پی کی انتخابی مہم چلانے والے افراد سٹنگ ڈکس ہیں۔ تحریک طالبان پاکستان کی نظر میں اے این پی نے بطور سیاسی جماعت صوبے اور ملک میں دہشت گردی کے خلاف جو اتحاد پیدا کیا تھا وہ ان کے لئے نا قابل قبول ہے اور ان کی جانب سے یہ حملے دراصل اے این پی کو سیاسی منظر نامے سے ختم کرنے کی ایک گھناؤنی سازش ہے۔ اے این پی خیبر پختوانخواہ میں موجود سیکولر اور صلح جو طبقے کی نمائندہ جماعت کے طور پر ماضی میں بھی اسٹیبلشمنٹ کے عتاب کا شکار رہی ہے لیکن قید وبند کی صعوبتوں کے بعد بھی اے این پی بطور جماعت خیبر پختونخواہ کے سیاسی منظر نامے پر ایک اٹل حقیقت کے طور پر موجود رہی۔
پچھلے پانچ سالہ دور حکومت میں اے این پی نے خیبرپختونخوا میں کس طرح کی کارکردگی دکھائی ان کے مستقبل کا فیصلہ اس بنیاد پر عوا می رائے کے اظہار کے بعد ہونا چاہئے نہ کہ سربازار خودکش حملوں میں اس کی لیڈرشپ کو نشانہ بنا کر۔ اگر خیبر پختونخواہ کے عوام اے این پی کی پانچ سالہ کارکردگی سے خوش نہیں ہیں، پھر چاہے وہ کارکردگی تعلیم کے شعبے میں ہو، صحت اور روزگار کے مواقع فراہم کرنے میں یا پھر دہشت گردی کے خلاف جنگ کے حوالے سے ، اس کا فیصلہ کرنے کا اختیار صرف صوبے کے عوام کو ہے… جو چاہیں تو بیلٹ کے ذریعے اے این پی کو اقتدا ر سے باہر کر سکتے ہیں۔ لیکن اس مقصد کے لئے جس طرح سے بارود کا استعمال کیا جا رہا ہے وہ سراسر خوف و ہراس پھیلانے کی سازش ہے، ان حالات میں وفاقی اور صوبائی سطح پر موجود قائم مقام حکومتوں کی بھی ذمہ داری ہے کہ وہ اے این پی اور اس کے ساتھ دیگر سیاسی جماعتوں کو فول پروف سیکورٹی دینے کے انتظامات کریں۔ الیکشن کمیشن کی جانب سے امیدواروں کے لئے سیاسی مشینری کے استعمال پر پابندی کی موجودگی میں بھی ایک ایسا لائحہ عمل بنانے کی ضرورت ہے جس کی مدد سے الیکشن مہم کے دوران ہونے والے خون خرابے کو روکا جاسکے… اگر کسی علاقے میں مخصوص سیاسی جماعتوں کو دہشت کی بنیاد پر انتخابی مہم چلانے سے روک دیا جائے تو انتخابی عمل کی شفافیت پر سوالیہ نشان اٹھیں گے۔ اگر قبائلی علاقوں میں کچھ جماعتیں تو جھنڈے لگا سکیں مگر پیپلز پارٹی اور اے این پی کو اس کی اجا زت نہ ہو ، باقی جماعتیں تو انتخابی مہم چلانے کے لئے محفوظ ہوں مگر پیپلز پارٹی ، ایم کیو ایم اور اے این پی کے راستے میں دہشت گردوں کی رکاوٹیں … تو یہ ان جماعتوں کے ساتھ زیادتی ہو گی۔ انہیں جن اقدامات کی سزا دی جا رہی ہے وہ کسی ذاتی حیثیت میں نہیں بنائی گئی تھیں بلکہ ان تمام اقدامات کا فیصلہ ریاست پاکستان کی سطح پرکیا گیا تھا …اس لئے ان افراد کی حفاظت کی ذمہ دار بھی ریاست پاکستان ہی ہے… میں یہاں اس بحث میں نہیں پڑنا چاہتا کہ یہ اعلان کر کے کہ مخصوص جماعتوں کو مخصوص علاقوں میں ہد ف بنایا جائے گا ، تحریک طالبان پاکستان دیگر جماعتوں کے حوالے سے عوام کو کیا پیغام دینا چاہتی ہے… یقینا عوام خود سمجھدار ہیں۔ میں اس بات کو بھی ریکارڈ پر لانا چاہتا ہوں کہ غلام احمد بلور نے کہا ہے کہ نہ تو وہ لادین ہیں اور نہ غیر مسلم، وہ احترام انسانیت پر یقین رکھتے ہیں، پھر وہ اور ان کی جماعت کیوں ہٹ لسٹ پر ہے۔
اور ان کے موقف کا اظہار حامد میر نے بخوبی کیا ہے کہ اللہ سے ڈرنے والا ، طالبان سے کیسے ڈر سکتا ہے۔ ملک میں ہر چیز کو شفاف بنانے کی بات کرنے والوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ الیکشن کو شفاف بنانے کے لئے تمام سیاسی جماعتوں کو لیول پلیئنگ فیلڈ فراہم کریں کیونکہ یہی انصاف کا تقاضاہے۔
تازہ ترین