• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پاکستان ایک زرعی ملک تھا، زرعی ملک ہے اور کم از کم 2025تک اس میں بنیادی تبدیلی کے آثار نظر نہیں آتے۔ یہ ضروری ہے کہ زراعت جو کبھی جی ڈی پی کا 80فیصد ہوا کرتی تھی اب 20فیصد پر آچکی ہے۔ گو شہروں کی آبادی تیزی سے بڑھ رہی ہے اور دس لاکھ آبادی والے شہر 17ہوچکے ہیں مگر اب بھی دیہی آبادی شہری آبادی سے زائد ہے۔ اب بھی زراعت بشمول مویشی ماہی گیری اور جنگلات 45فیصد آبادی کو روزگار کے ذرائع مہیا کرتی ہے۔ پاکستان میں غیرمنقسم پنجاب کا بڑا حصہ شامل ہے اور یہ وہ علاقہ تھا جو برطانوی دور میں برطانوی افواج کی ضروری خوراک مہیا کرتا تھا مگر اب سرحد پار کے علاقے میں زرعی پیداواروں کا اوسط ہم سے زائد ہے۔ یہ امر باعث حیرت ہے کہ خوردنی اشیا میں دودھ، کریم، بچوں کا دودھ، پام آئل، چائے، مسور، مونگ، ماش کی دالیں، پیاز، لہسن، ادرک، خشک میوے، ہلکی اور بھاری مشروبات باہر سے آتی ہیں اور ہم اربوں روپے کا زرمبادلہ ان کی خرید پر صرف کرتے ہیں جس کی وجہ سے ہمارا توازن تجارت غیرمتوازن ہوجاتا ہے۔ بجٹ خسارے میں رہتا ہے اور ہمیں اپنی ضروریات کیلئے قرض لینا پڑتا ہے۔ مجھے یاد ہے کہ سات آٹھ سال پہلے میں نے لکھا تھا کہ ’’کیا ہم دالیں پیدا کرنے کے قابل نہیں۔ اس درمیان دالوں کی پیداوار بڑھانے کی کوئی کوشش نہیں گئی۔49-50اور اس کے اردگرد کا قصہ ہے کہ ہمارے یہاں گندم کی قلت ہوگئی ہمیں امریکہ سے گندم خریدنا پڑا۔ جو بندرگاہ سے گوداموں تک اونٹ گاڑیوں کے ذریعے منتقل ہوتا تھا جنکے اونٹوں پر ’’امریکہ تیرا شکریہ‘‘ کی تختیاں لٹکی ہوا کرتی تھیں، PL-480کا آغاز یہیں سے ہوا اسکا مطلب یہ تھا کہ امریکہ ہم سے اس گندم کی نقد قیمت نہیں لیگا بلکہ یہ ملک کے فلاحی تنظیمی کاموں پر صرف ہوتی رہینگی، ’’ولیج ایڈ‘‘ اور مرکزی اور صوبائی ملازمین کی امریکہ میں تربیت کا سلسلہ شروع ہوا۔
وفاقی اور صوبائی حکومتوں نے زراعت پر وہ توجہ نہیں کی جس کی وہ مستحق تھی، سینیٹ اور قومی اسمبلی اور صوبائی اسمبلیوں کے دیہات کے ارکان شہروں کی آسائشوں میں اپنے غریب ہم وطنوں اور ووٹروں کو بھول گئے جن کے ووٹوں کی بدولت ان کو یہ عزت و عظمت حاصل ہوئی تھی۔ پنجاب کے وزیراعلیٰ جن کے متعلق مشہور ہے کہ وہ عوامی اور فلاحی کاموں میں غیرمعمولی دلچسپی لیتے ہیں ان کا ایک مضمون مندرجہ بالا عنوان سے متعلق اخبار جنگ میں شائع ہوا جس سے پنجاب میں زرعی حالت کا اندازہ ہوا۔ وہ بات یوں شروع کرتے ہیں کہ ’’پنجاب حکومت ترقی کے ایک جامع ایجنڈے پر عمل پیرا ہے اور زراعت اس کا مرکزی نقطہ ہے صرف اس لئے اناج ہی نہیں، بلکہ زراعت پر بھی انڈسٹری کیلئے بھی خام مال فراہم کرتی ہے۔ یہ انڈسٹری مقامی مارکیٹ کی ضرورت کے علاوہ برآمد کیلئے مصنوعات بھی فراہم کرتی ہے‘‘۔تشریح کرتے ہوئے انہوں نے لکھا ’’وطن عزیز کے بیرون زرمبادلہ کا بہت بڑا حصہ زراعت ہی کے ذریعے حاصل کیا جاتا ہے جس میں پنجاب کا حصہ سب سے نمایاں ہے۔ لائیو اسٹاک ہماری مجموعی جی ڈی پی 11.8فیصد ہے جبکہ مجموعی طور پر زرعی سیکٹر کا حصہ 55فیصد ہے۔ لائیو اسٹاک کا 40سے 43فیصد حصہ پنجاب میں پایا جاتا ہے۔ پنجاب کی فوڈ انڈسٹری جی ڈی پی کے لحاظ سے پاکستان میں دوسری بڑی صنعت ہے۔ یہ کہنا بجا ہوگا کہ پنجاب کی زراعت نہ صرف کروڑوں لوگوں کیلئے روزگار کے مواقع فراہم کررہی ہے بلکہ ہماری صنعتوں بالخصوص ٹیکسٹائل، شوگر ملز، خوردنی تیل، چاول کی صنعت کیلئے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے جس سے کروڑوں لوگوں کا روزگار وابستہ ہے‘‘انہوں نے مزید لکھا ’’پنجاب حکومت کی پالیسی اور نفاذ کا مرکزی محور دیہی معیشت کی ترقی ہے۔ مقامی سطح پر تمام کوششوں کے باوجود زراعت کو چند چیلنجز درپیش ہیں۔ متعدد علاقائی اور عالمی عوامل کی وجہ سے زرعی پیداوار کی قیمتوں پر منفی اثر پڑا ہے، کاشت کاری کے پرانے اور فرسودہ طریقوں سے ہماری زرعی پیداوار فی ایکٹر زوال پذیر ہے، ہماری یونیورسٹیوں اور زرعی تحقیقاتی اداروں نے شعبہ زراعت میں جدید تحقیق کی جانب توجہ نہیں دی۔ مجھے پورا یقین ہے کہ زراعت کو ریسرچ کے ساتھ منسلک کرنے سے خوش گوار اثرات ظاہر ہوں گے۔‘‘ حکومت نے زراعت کی ترقی کیلئے 100ارب روپے کے دو سالہ منصوبے کا اعلان کیا ہے۔ چھوٹے کاشت کاروں کیلئے 341ارب روپے کا انقلابی کسان پیکیج ۔ اس وقت پنجاب میں گندم کی ایک کروڑ 92لاکھ 82ہزار ٹن، کپاس کی ایک کروڑ 2لاکھ 77ہزار ٹن، چاول کی 74ہزارٹن، مکئی کی 37لاکھ ٹن، گنے کی 4کروڑ 10لاکھ 74ہزار ٹن اور آلو کی ریکارڈ 38لاکھ 39ہزار ٹن پیداوار ہوئی ہے۔ آئندہ ان پیداواروں میں مزید اضافہ ہوگا۔ یہ امر باعث اطمینان ہے کہ وزیراعلیٰ نے کمزوریوں کا عملی اعلان اظہار کیا۔سندھ ملک کا دوسرا بڑا صوبہ ہے۔ اس کی اپنی خصوصیات ہیں یہاں شہری آبادی دیہی آبادی پر فوقیت رکھتی ہے۔ کراچی ملک کا سب سے بڑا شہر ہے۔ بینکوں، صنعتی اور تجارتی اداروں کے صدر دفاتر یہاں ہیں۔ دو بندرگاہیں بحری تجارت کی ذمہ دار ہیں۔ سندھ یہ باور کرتا ہے کہ بڑھتی ہوئی آبادی کے مطابق اس کے ساتھ بعض ناانصافیاں ہورہی ہیں اس لئے وہ جلد سے جلد مردم شماری کا خواہاں ہے۔ اب اس کو یقین دلایا گیا ہے کہ ’’دسمبر تک‘‘ یا ’’دسمبر میں‘‘ مردم شماری ہوگی۔ تاہم وہ زراعت کو نظرانداز نہیں کررہا۔ سندھ کے وزیراعلیٰ نے اعلان کیا کہ وہ خوراک میں خود کفالت کا درجہ حاصل کرچکے ہیں۔ ان کے مطابق زراعت سندھ کی زندگی ہے۔ گندم، کپاس اور کھجور سندھ کی سونے کی فصلیں ہیں۔ سندھ پنجاب سے فی ایکٹر پیداوار کے اوسط میں آگے بڑھ گیا ہے۔ سندھ میں 70فی صدی افراد کا گزر زراعت سے ہے، کسانوں کو جدید معلومات فراہم کرنے کی پوری کوشش کی جارہی ہے۔ سندھ کو آب پاشی کے پانی کی قلت کا بڑا شکوہ ہے، دریائوں میں پانی کی قلت کی وجہ سے ساحلی علاقوں پر 20لاکھ ایکٹر زرعی زمین سمندر بُرد ہوچکی ہے اور اس کے مالکان، کاشت کار اور ماہی گیر بےروزگار ہوچکے ہیں۔راقم کو پختونخوا کے زرعی پروگرام کا علم نہیں۔ البتہ زراعت کے شعبے میں 20لاکھ پودے لگائے جارہے ہیں جو صوبے کے اس نقصان کی تلافی کرنے میں معاون ہونگے جو غیرقانونی افغان مہاجرین اور ان کے مویشیوں سے پہنچا ہے۔ 11ہزار چوہوں کی ہلاکت سے فصلیں محفوظ ہوجائیں گی۔ملک میں زراعت کے قدیم (60فیصد) اور جدید (40) فیصد طریقے استعمال ہورہے ہیں، چھوٹے کاشت کار جن کی تعداد زیادہ ہے اپنے مالی حالات اور چھوٹے فارموں کی بدولت ٹریکٹر، بارو لیٹر اور دوسری زرعی مشینیں نہ خریدسکتے ہیں اور نہ استعمال کرسکتے ہیں، وہ بیلون کے ذریعے ہل سے زمین تیار کرتے ہیں درانتیوں سے فصل کاٹتے ہیں۔ دھان کو پتھروں پر مار مار کر چاول علیحدہ کرتے ہیں جس میں چوتھائی چاول ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوجاتا ہے۔ ملک میں زراعت ایک پرانی روایت کے مطابق ہوتی ہے کہ فلاں مہینے میں بونی ہوگی اور فلاں مہینے میں کٹائی۔ اب موسم تبدیل ہورہے ہیں، عالمی درجہ حرارت میں اضافہ ہورہا ہے، بارش بے وقت ہونے لگتی ہے، کسانوں کو ان تبدیلیوں سے ہم آہنگ ہونا ہے۔ دوسرے کاشت کاروں کو ناقص بیج، جعلی کھاد، جعلی کیڑے مار دوائوں، جعلی سلوتریوں اور استحصال کرنے والے دلالوں سے بچانا اور ان کے خون پسینے کی پیداوار کو بروقت صحیح قیمت دلوانا ہے۔ کسان کی خوشحالی میں ملک کی خوشحالی مضمر ہے۔ تازہ ترین خبر پانالیکس کا انکشاف ہے جس سے ملک میں بھونچال آگیا ہے، ہر کالم نویس اس پر اظہار خیال کررہا ہے۔ غازی صلاح الدین کی بات بھی سنیئے کہ ہمیں دو ڈھائی ہزار میل جانے کی کیا ضرورت ہے پاناما لیکس تو ملک کے ہر اس بڑے شہر میں موجود ہے جہاں تعمیرات کا کام زوروں پر ہے۔
تازہ ترین