• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
کیا 11 مئی کو پاکستان میں تبدیلی آجائے گی …! کیا پاکستانی عوام کے دکھ درد ختم ہوجائیں گے۔ کیا اس تاریخ کے بعد ملک سے غربت کا خاتمہ ہوجائے گا ، دودھ کی نہریں بہنا شروع ہوجائیں گی ، کرپشن کا مکو ”ٹھپ“ دیا جائے گا ، لوگ امن اور چین سے رہنا شروع ہوجائیں گے ، دہشت گردی کا خاتمہ ہوجائے گا ، عام لوگوں کو انصاف تک رسائی حاصل ہوجائے گی ، ملک سے قبضہ مافیا کوچ کرجائے گی ، موروثی سیاست کا دور ماضی بن جائے گا ، حکمران محلات کی بجائے عام گھروں میں منتقل ہوجائیں گے ، لوڈ شیڈنگ کا نام و نشان مٹ جائیگا، سی این جی قطاریں دیوار چین کی لمبائی سے کم ہوجائیں گی“ ، مہنگائی کے جن کو بوتل میں قید کردیا جائے گا ، تعلیم عام ہوجائے گی ، صحت کی سہولیات بلاتفریق سب کو میسر ہوں گی ، جعلی ڈگری والے ہمیشہ کے لئے فارغ ہوجائیں گے اور کیا صادق اور امین اب ہمارے حکمران ہوں گے ……… ؟ کھلی آنکھوں سے دیکھے جانے والے خوش گمانی کے اس خواب کی تعبیر کیا ہوگی …… !!!
اگر آپ ایک گن گولیوں سے بھر کر اپنے گھر کے ”پورج“ میں (اس کا رخ باہر کی طرف کرکے) رکھ دیں گے تو آپ دیکھیں گے کہ ڈاکیا آپ کو ڈاک دیکر صحیح سلامت چلا جائے گا …… باہر بچے سڑک پہ ………
ذرا سوچئے اگر آپ گولیوں سے بھری ہوئی ایک بندوق اپنے گھر کی دہلیز پر رکھ دیں گے تو کیا ہوگا؟ ڈاکیا آپ کی ڈاک دیکر صحیح سلامت چلا جائے گا …! باہر بچے سڑک پر کھیلتے ہوئے گزر جائیں گے ، ٹریفک بھی آپ کے گھر کے سامنے رواں دواں رہے گی لیکن گولیوں سے بھری ہوئی آپ کی وہ خطرناک بندوق پھر بھی خاموش ہی رہے گی۔ کیونکہ وہ خود نہیں چل سکتی وہ خود کسی کو نہیں مار سکتی جب تک کہ وہ آپ کے ہاتھ میں نہ ہو اور آپ اپنے ہاتھوں کو حرکت نہیں دیتے۔ اس کا واضح مطلب یہ ہے کہ پاکستان میں آج جتنی بھی خرابیاں ہیں رشوت ، مہنگائی ، ناانصافی ، موروثی سیاست ، کرپٹ حکمران ، لوٹ مار ، بدامنی ، یہ صرف سیاستدانوں اور لٹیروں کی پیدا کردہ نہیں ہیں بلکہ اس میں عوام کا بھی سو فیصد ہاتھ ہے۔ سیاستدان اور لیڈر تو وہ بھری ہوئی بندوقیں ہیں جن کے ٹریگر پر ہمارے اپنے ہی ہاتھ ہیں۔ بار بار آزمانے کے باوجود پھر ہم ان کے ہی ”نعرہ مستانہ“ بلند کرتے ہیں۔ اصل میں ہم اپنے راستے سے بھٹک گئے ہیں اور جو بھٹک جاتے ہیں اللہ تعالیٰ ان پر ایسے کتے مسلط کردیتے ہیں جو انہیں واپس راستے پر لے آئیں۔
بغداد پر تاتاری فتح کے بعد ہلاکو خان کی بیٹی شہر میں گشت کررہی تھی کہ ایک ہجوم پر اس کی نظر پڑی۔ پوچھا یہاں لوگ کیوں اکٹھے ہوئے ہیں جواب آیا ایک عالم کے پاس کھڑے ہیں ، دختر ہلاکو نے عالم کو اپنے سامنے پیش ہونے کا حکم دیا … عالم کو ”تاتاری شہزادی کے سامنے لا کھڑا کیا گیا۔ شہزادی مسلمان عالم سے سوال کرنے لگی۔ کیا تم لوگ اللہ پر ایمان نہیں رکھتے ؟
عالم … یقیناً ہم ایمان رکھتے ہیں۔
شہزادی … تو کیا تمھارا ایمان نہیں کہ اللہ جسے چاہے غالب کرتا ہے ؟
عالم......یقیناً ہمارا اسی پر ایمان ہے۔
شہزادی … تو کیا اللہ نے آج ہمیں تم لوگوں پر غالب نہیں کردیا۔
عالم … یقیناً کردیا ہے۔
شہزادی … تو کیا یہ اس بات کی دلیل نہیں کہ خدا ہمیں تم سے زیادہ چاہتا ہے۔
عالم … نہیں !
شہزادی … کیسے ؟
عالم … تم نے کبھی چرواہے کو دیکھا ہے ؟
شہزادی … ہاں دیکھا ہے۔
عالم … کیا اس کے ریوڑ کے پیچھے چرواہے نے اپنے کتے بھی رکھ چھوڑے ہوتے ہیں ؟
شہزادی … ہاں رکھے ہوتے ہیں۔
عالم … اچھا تو اگر کچھ بھیڑیں چرواہے کو چھوڑ کر کسی طرف کو نکل کھڑی ہوں اور چرواہے کی ایک نہ سن رہی ہوں تو چرواہا کیا کرتا ہے ؟
شہزادی … وہ ان کے پیچھے اپنے کتے دوڑاتا ہے تاکہ وہ ان کو واپس اس کی کمان میں لے آئیں۔
عالم … وہ کتے کب تک ان بھیڑوں کے پیچھے پڑے رہتے ہیں۔
شہزادی … جب تک وہ فرار رہیں اور چرواہے کے اقتدار میں واپس نہ آجائیں۔
عالم … تو آپ لوگ بھی زمین پر ہم مسلمانوں کے حق میں اللہ کے چھوڑے ہوئے کتے ہیں۔ جب تک ہم خدا کے در سے بھاگے رہیں گے اور اس کی اطاعت میں واپس نہیں آجائیں گے تب تک خدا تمہیں ہمارے پیچھے دوڑائے رکھے گا۔ تب تک ہمارا امن چین تم ہم پر حرام کئے رکھو گے۔ ہاں جب ہم خدا کے در پر واپس آجائیں گے اس دن تمہارا کام ختم ہوجائے گا …
مجھے لگتا ہے کہ ابھی کام ختم نہیں ہوا … خوش گمانی کے اس خواب کی شاید تعبیر الٹی ہو جس میں تبدیلی کی نوید سنائی جارہی ہے۔
گزشتہ پانچ سال تو شاید 60 سالوں پر بھاری تھے لیکن پھر بھی ہم سیدھے راستے پر نہ آسکے یونہی بھٹکے رہے اور رہنا چاہتے ہیں پھر وہی آوے آوے اور جاوے جاوے کے نعرے ہیں …
وہی خاندانی سیاست ، برادری ازم کے تال میل ہیں۔ تبدیلی کا نعرہ اس ”پاکستانی سیاست“ پر حاوی نظر نہیں آتا۔ ماضی کے وہی کھیل اس مرتبہ ذرا نئے ڈھنگ سے کھیلے جارہے ہیں۔ نئے Sophisticated ہتھیار آزمائے جارہے ہیں۔ مجھے لگتا ہے کہ کتے ہم پر ابھی اور مسلط رہیں گے۔ ہم جو بھیڑوں کے ریوڑ سے دور نکل آئے ہیں۔ چرواہے کی ایک بھی نہیں سن رہے اور اس چرواہے نے ہم پر ”کتے“ مسلط کردیئے ہیں تاکہ ہم اس کی کمان میں واپس چلے جائیں۔ یقیناً یہ کتے ہمیں اس وقت تک چین نہیں لینے دیں گے اور ہمیں ادھر سے ادھر بھگائے رکھیں گے جب تک ہم واپس چرواہے کی اطاعت میں نہیں آجاتے …… !! تاہم اس بار ان کتوں کا انداز نگہبانی کچھ حیران کن ہوسکتا ہے۔
اس بار اضطراب بھی حیران کن سا ہے
حالات کا نصاب بھی حیران کن سا ہے
لمبی ہیں رت جگوں کی رتیں اور نتیجتاً
نیندوں سے عاری خواب بھی حیران کن سا ہے
شہر منافقت میں ہے منصف بکاؤ مال
مجرم کا احتساب بھی حیران کن سا ہے
کردار بھی الگ سے انوکھے نقالی
نعرہ انقلاب بھی حیران کن سا ہے
اعمال بے خلوص عقیدے بھی کھوکھلے
اور وعدہ ثواب بھی حیران کن سا ہے
(سالک صدیقی)
تازہ ترین