• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
دوڑتی بھاگتی زندگی میں روحانی مسرتیں، جذباتی وابستگیاں اور رشتوں کی نزدیکیاں معدوم ہوتی جارہی ہیں۔ مشینیں زندہ اور معاشرتی اور اخلاقی قدریں مردہ ہوتی جارہی ہیں۔ جدید ٹیکنالوجی نے انسانوں کے بیچ دوریاں بڑھا دی ہیں۔ خاندانی اور معاشرتی اقدار یہیں ٹوٹ پھوٹ ہورہی ہے۔ ارسطو نے کہا تھا انسان معاشرتی حیوان ہے۔ لیکن آج ارسطو کے اس قول سے معاشرتی نکال دیجئے اور آس پاس نظر ڈالئے تو اس تلخ سچائی کو ماننے میں قطعی کوئی تامل نہیں ہوگا۔ خاندانی اقدار میں جو ٹوٹ پھوٹ ہورہی ہے برطانیہ میں وقوع پذیر ہونے والے گزشتہ چند واقعات بھی اس کی مثال ہیں۔ مانچسٹر میں 46 سالہ کونمن اسٹیفن نے اپنے بوڑھے ماں باپ کو پیسے اور جائیداد کی خاطر قتل کردیا اور ڈربی شائر میں گزشتہ برس حقیقی والدین نے اپنے چھ بچوں کو اپنے مادی مفادات کے حصول اور خودغرضی کی خاطر آگ لگا کر جھلسا دیا۔ انسانوں کی اس سفاکانہ ذہنیت کے پیچھے حرص و ہوس اور مشینی مادی زندگی سے پیدا شدہ غیر انسانی رویئے ہیں۔ مشینوں سے دوستی ایسے بڑھی کہ پہلے انسان مشینوں کو آپریٹ کرتے تھے اب مشینیں انسانوں کو آپریٹ کر رہی ہیں۔
اہل خرد نے دن یہ دکھائے
گھٹ گئے انسان بڑھ گئے سائے
جذباتی اور فطری تقاضے تک بدل چکے ہیں۔ ہم جنسیت پہلے فیشن پھر تجرباتی جدیدیت اور اب قانونی استحقاق حاصل کر چکی ہے۔ اس سے بڑھ کر انسان کی معاشرتی زندگی کی زوال پذیری اور اخلاقی انحطاط کا اور کیا ثبوت ہو سکتا ہے۔ مغرب میں مخالف جنس شادی شدہ جوڑوں کی تو ویسے بھی کمی تھی اور لوگCohabitation یا Facto Marrage کو ترجیح دیتے ہیں یہ وبا اب مغرب تک محدود نہیں رہی بلکہ مشرقی اور ایشیائی ممالک تک پھیل چکی ہے۔ شادی کے بندھن سے آزاد ہوکر ساتھ رہنے کا مقصد بھی معاشرہ میں بڑھتی ہوئی مادیت اور خود غرضی کا شاخسانہ ہے۔ ازدواجی ذمہ داریوں سے فرار اور محض جسمانی اور مادی مسرتوں کے حصول پر ٹکا ہوا یہ رشتہ کس قدر کھوکھلا ہوسکتا ہے۔ اس میں کسی شک و شبہ کی گنجائش نہیں ہوسکتی ۔ ایسے زیادہ تر جوڑے بچوں کے جھنجھٹ میں بھی پڑنا پسند نہیں کرتے۔ بھارت کے بڑے شہروں میں بھی Premarital Cohabitation کا رحجان بڑھتا جارہا ہے۔ اسی طرح جاپان، ساؤتھ کوریا، سنگاپور، تائیوان اور چین میں بھی رفتہ رفتہ معاشرتی اور اخلاقی اقدار تبدیل ہورہی ہیں۔ ان ممالک میں معاشرتی ترقی کی رفتار میں اضافہ کے ساتھ ساتھ معاشرتی اور اخلاقی اقدار میں بھی تبدیلی آتی جارہی ہے اور مادیت اور ٹیکنالوجی کی ترقی کے زیر اثر ازدواجی رشتوں کا پرانا روایتی ڈھانچہ بھی تبدیل ہونا شروع ہوا ہے۔ Marriages Are Made In Heaven کا تصور کب کا ختم ہوچکا ہے۔ جس تیزی سے گے میرج کو مغرب میں قانونی حیثیت دی جارہی ہے اور مخالف جنس شادی شدہ جوڑوں میں طلاق کا رحجان بڑھ رہا ہے اس کے بعد تو آسمانی فیصلوں پر سے اعتبار اٹھنا کوئی تعجب کی بات نہیں۔ مصدقہ رپورٹس کے مطابق برطانیہ میں طلاق کا تناسب یورپ کے دیگر ممالک کے مقابلے میں سب سے زیادہ ہے۔ انسانوں میں Intolerance کا بڑھ جانا یا مصالحت پسندی کا کم ہو جانا کس ذہنی رویے کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ محبت، اعتماد، دوستی، رومان زندگی سے کیوں خارج ہورہا ہے۔ جمالیاتی حس اور رومان کی موجودگی معاشرتی زندگی کے حسن اور رشتوں میں جذباتی وابستگی کیلئے بہت ضروری ہوتی ہے۔ مشرقی محبتوں میں حجاب کا عنصر ہمیشہ غالب رہا ہے۔ فاصلے اور دوری، اخلاقی حدود جو مرد و عورت کے درمیان فطری کشش، جاذبیت اور نفسیاتی لگاؤ کا باعث ہوا کرتے تھے۔ یہ سارے عناصر رفتہ رفتہ تہذیبِ جدید اور مادہ پرستی کے سیلاب میں بہتے چلے جارہے ہیں۔
بہت بے باک آنکھوں میں تعلق ٹِک نہیں پاتا
محبت میں کشش رکھنے کو شرمانا ضروری ہے
ادھر سوشل نیٹ ورکنگ نے بھی انسانوں کو قریب لانے کی بجائے دوریاں بڑھائی ہیں۔ خاندانی اور معاشرتی اجتماع، دوستوں کی محفلیں، چھوٹی چھوٹی خوشبو میں شراکت، کچھ کہنا کچھ سہنا، روٹھنا منانا یہ سب کچھ ایک گرم جوش اور بھرپور معاشرتی ماحول بنائے رکھنے کیلئے ضروری ہوتا تھا۔ لیکن اب تو کمپیوٹر کے سکرین پر ایک جہان آباد ہے جس میں رابطوں کے ساتھ فاصلے ہیں اور فاصلوں کے ساتھ رابطے ہیں اور حقیقی اور سچے معاشرتی رشتہ مشینیں کبھی نہیں بنا سکتیں۔ فیس بک سے فیس ٹو فیس Relationship نہیں بن سکتا اور ٹیکسٹ میسجنگ سے ایک دوسرے کی دل کی بات نہیں سمجھی جاسکتی۔ اب کومل جذبوں رشتوں اور محبتوں کے نازک احساس کی کہانیاں شاعری کی کتابوں میں ہی ملتی ہیں۔ بقول شاعر:
کبھی کتابوں میں پھول رکھنا کبھی درختوں پہ نام لکھنا
ہمیں بھی یاد ہے آج تک وہ نظر سے حرفِ سلام لکھنا
لیکن اب کاغذ پہ محبتوں کے پیام یا آرزو کے خواب لکھنے کا وقت کس کے پاس ہے۔ وہ وقت زیادہ دور نہیں جب ہم کسی کمیونیکیشن میوزیم میں کھڑے حیرت سے سوچ رہے ہوں گے کہ کیا لوگ ایک دوسرے کو خط بھی لکھا کرتے تھے اور پھر ان خطوط کو لفافوں میں بند کرکے لال رنگ کے پوسٹ بکس میں ڈالا جاتا تھا جہاں سے ڈاکیا انہیں جمع کرتا اور ڈور ٹو ڈور تقسیم کرتا تھا۔ ہمیں حیرت ہوگی کہ محبت کرنے والے ایک دوسرے کی تصویروں اور گلابوں کو کتابوں کے اوراق میں سنبھال کر رکھا کرتے تھے۔ ہوسکتا ہے کچھ عرصہ بعد ہم کسی میوزیم میں Old Eastern Civilisation قدیم مشرقی تہذیب کے نممونے کے طور پر کچھ مجسمے یا تصویریں دیکھ کر حیرت زدہ ہوں کہ لڑکیاں اپنی شادی کے ذکر پر شرمایا کرتی تھیں۔ مشرقی ملبوسات میں خواتین خاص وضع اور ستر پوشی کا خیال رکھتی تھیں یا لباس کا ایک جزو دوپٹہ بھی ہوا کرتا تھا۔ مادہ پرستی اور تہذیب جدید کی ہلچل میں معاشرتی اقدار جس طرح ڈانواں ڈول ہیں۔ اسے دیکھتے ہوئے محسوس ہورہا ہے کہ وہ دن دور نہیں جب گود میں بچوں کی جگہ لیپ ٹاپ اور پہلو میں بیوی کی بجائے مونچھوں والے شریک حیات ہوں گے۔
تازہ ترین