• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
کوئی ظالم یا جاہل شخص ہی خواتین پر ظلم و تشدد کی حمایت کرسکتا ہے۔ خاص طور پر خواتین کو قتل کرنے، ان پر تیزاب پھینکنے اور مارپیٹ سے ان کی ہڈیاں توڑنے کو درندگی اور پاگل پن ہی کہا جاسکتا ہے۔ پاکستانی معاشرے خاص طور پر جنوبی پنجاب کے کچھ حصے میںخواتین پر ظلم و تشدد ہوتا ہے اور اس کے تدارک او ر خاتمے کے لئے ہر قسم کی کوششوں کی تائید و حمایت ہر مسلمان کا فرض ہے۔ اس بیانیے میں کوئی دو رائے معلوم نہیں ہوتیں لیکن یہاں اصل مسئلہ اس مقصد کے حصول کے طریق کار کا ہے۔ تحفظ نسواں بل کا بنیادی مقدمہ ہی محل نظر ہے۔ یہ بل پہلے ہی سے طے شدہ اس نظریے کے تحت تیار کیا گیا ہے کہ مرد و عورت کے درمیان پیش آنے والے معاملات میں صرف خواتین ہی مظلوم ہوتی ہیں اور مرد ظالم ہوتا ہے اور دوسرا یہ کہ خواتین کی تمام شکایات جائز ہیں۔ لہٰذا مدعی بننے کا حق بھی صرف خواتین کو حاصل ہے اور اس مدعی کی شکایت (ایک اندازے کے مطابق پاکستان میں درج ہونے والی شکایات یا ایف آئی آرز 70فیصد سے زیادہ جھوٹی ثابت ہوتی ہیں) پر کارروائی شروع کردینی ضروری ہے۔ گویا قانون بنانے اور نافذ کرنے کے اہم ترین بنیادی اصول مساوات اور عدل کی پہلے ہی نفی کردی گئی ہے۔ صرف خواتین کو ہی مظلوم تسلیم کر کے مدعی بننے کا حق دے کر مرد کے مدعی بن سکنے کے حق کو چھین لیا گیا ہے۔ یہ بات اسلام اور انسانی مساوات کے حق اور اصول کے منافی معلوم ہوتی ہے۔ اس سلسلے میں چند گزارشات پیش کی جاتی ہیں۔
1۔ تشدد اور حق تلفی مرد کرتا ہے اور بعض صورتوں میں زیادہ کرتا ہے لیکن خواتین بھی غلطی کرتی ہیں۔ شاید کچھ کم کرتی ہوں۔ اس بات کی وضاحت روزانہ اخبارات میں شائع ہونے والے واقعات سے ہو جاتی ہے۔ مردوں کے تشدد کے واقعات کو تسلیم کرتے ہوئے روزنامہ جنگ 3 مارچ 2016ء کی صرف ایک دن کی تین خبروں پر غور کرلیا جائے۔ 1۔ خاوند کی قاتل آشنا کے ہمراہ بیوی نکلی جو مدعیہ بن کر پولیس کو چکر دیتی رہی۔ 2۔ مکان نام نہ کرنے پر بیوی نے پٹرول چھڑک کر شوہر کو آگ لگا دی۔ 3۔ خاتون کی ڈی پی او آفس کے سامنے خودسوزی کی کوشش، پٹرول چھڑک لیا، ماچس ساتھ نہ لائی۔ ڈی پی او نے کہا کہ بعض خواتین خودسوزی کی دھمکی دے کر پولیس کو بلیک میل کرتی ہیں۔ مذکورہ خاتون نے فیملی کیس میں مخالفین کے خلاف پہلے ہی مقدمات درج کرا رکھے ہیں جن میں انہوں نے عدالتوں سے ضمانتیں کرالیں اور بعدازاں دو روز قبل بھی پولیس کو بلیک میل کر کے مذکورہ افراد کے خلاف ایک اور مقدمہ بھی درج کرالیا۔ زیر نظر تحریر میں زیادہ واقعات درج کرنے کی گنجائش نہیں لیکن کیونکہ یہ بنیادی مقدمے کی اہم بات ہے اس لیے کئی دن کی خبریں چھوڑ کر صرف 19 مارچ کی دو خبریں 1۔رحیم یار خان میں ہمسائی نے لڑکی کو شادی کے بہانے ساتھ لے جا کر فروخت کردیا۔ ملزمہ نے ساتھیوں کی مدد سے بے ہوش کر کے بیچا۔ نامعلوم ملزمان کی زیادتی، مقدمہ درج۔ 2۔ کسٹم عدالت لاہور کے جج نے بارہ کروڑ روپے کی غیر ملکی کرنسی بیرون ملک لے جانے کے الزام میں پکڑی جانے والی کینٹ کی خاتون کو 5 سال قید اور 13 کروڑ روپے جرمانے کی سزا کا حکم سنایا۔
2۔ مشہور ہے کہ گھر کی بات گھر میں رہنی چاہئے۔ مسئلے کو وہیں حل کر لینا چاہئے۔ یہ بات نسواں بل پاس کرنے والے حکمرانوں کی سمجھ میں آئے یا نہ آئے ایک برطانوی جج کے ذہن میں تو بہت صاف اور واضح ہے۔ ’’برطانوی جج نے امریکی گلوکارہ میڈونا کو مشورہ دیا ہے کہ وہ اپنے 15 سالہ بیٹے کو تحویل میں لینے کا معاملہ اپنے سابق شوہر کے ساتھ افہام و تفہیم سے حل کر لیں اور اس معاملے کو عدالت لے جانے سے گریز کریں‘‘۔ (جنگ 22مارچ 2016ء) پاکستانی معاشرہ بے شک جتنا بھی تنزلی کا شکار ہو، بہرحال اب بھی کافی تعداد میں اچھی سماجی اقدار موجود ہیں۔ جس گھر میں بھی عورت پر ظلم و تشدد ہوتا ہے، اس عورت کے بھائی، بہن، والدین، چچا، بہنوئی، ہمسائے اور دیگر کئی مخلص خیر خواہ عزیز اپنی اپنی حیثیت میں گھر کے مسئلے کو حل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ایسی مثال تو شاید ہی ہو کہ یہ سب لوگ تشدد کے ہی حامی بن جائیں۔ ظاہر ہے ان سب مخلص خیر خواہوں کی کوششوں کے مقابلے میں حکومت کے ملازم پروٹیکشن آفیسر/پولیس کی مداخلت کیا حیثیت رکھتی ہے۔ اگر گورنمنٹ ملازموں اور پولیس کی کارکردگی اچھی ہوتی تو امن و امان اور صحت و تعلیم کے مسائل حل ہو چکے ہوتے۔ دفاتر اور عدالتی کارروائی کی اس ایک جھلک سے کچھ اندازہ کیا جاسکتا ہے۔ سپریم کورٹ نے منشیات فروشی کے مقدمے میں ملوث خاتون کی بیماری کی بنیاد پر درخواست ضمانت مسترد کرتے ہوئے ریمارکس میں کہا’’طبی ضمانتوں کے قانون کا وکلا، ملزموں اورسرکاری ڈاکٹروں نے غلط استعمال شروع کردیا ہے‘‘ (جنگ 22مارچ 2016) نسواں بل میں تشدد کے حوالے سے طبی سرٹیفکیٹ کو خاص اہمیت حاصل ہے۔ جنرل مشرف کے طبی سرٹیفکیٹس تو مذاق بن کر رہ گئے ہیں (اس کیس میں خاتون کے کردار پر بھی غور کرلیاجائے۔)
3 ۔ ذرا تصور توکیجئے کہ جب اپنے گھر کے مخلص عزیزوں کی خیرخواہانہ کوششوں کو چھوڑ کر بیوی اپنے خاوند کے خلاف، بہن اپنے بھائی کے خلاف یا بیٹی اپنے باپ کے خلاف پروٹیکشن آفیسر کو درخواست دے گی تو کیا نفرتوں کے بیج نہیں پڑ جائیں گے اور جس کے خلاف درخواست ہوگی وہ کارروائی اور سزاکے بعد چڑ کر غصے سے گھرنہیں لوٹے گا اور بجائے اس کے کہ مسئلہ حل ہو اس سے کئی گنا اور بڑے مسائل کھڑے نہیں ہو جائیں گے۔
4۔ تحفظ نسواں بل صرف خواتین کو نفسیاتی اور جذباتی دبائو سے بچانے کے لئے ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا نفسیاتی اور ذہنی دبائو کا شکار صرف خواتین ہی ہوتی ہیں، مرد نہیں ہوتا۔ اخبارات میں تقریباً روزانہ خواتین کی خودکشیوں کی خبریں ہوتی ہیں اور مردوں کی بھی۔ نمونے کے طور پر یہ کہ ’’گھریلو حالات اور جھگڑے کی وجہ سے تین نوجوانوں نے موت کو گلےلگا لیا۔ ایک واقعہ میں کوٹ ادو کے نابینا شخص کا بیٹا کراچی میں مزدوری کرتا تھا۔ گھر آیا تو روزگار نہ ملا۔ حالات سے تنگ آ کر خودکشی کرلی۔‘‘ (جنگ 3مارچ2016) کھانے پینے، رہائش اور صحت و تعلیم کے اخراجات پورے کرنے کی مردکی ذمہ داری ایسااہم ترین کام ہے جو زندگی کی ساری محنت اور سرگرمیوں کا محور ہے۔ 90فیصدگھریلو جھگڑے مالی وسائل کی کمی اور غربت کی وجہ سے ہوتے ہیں اور مرد عام طور پر معاشی کفالت کی ذمہ داری کے بوجھ اور ساتھ ہی زیادہ تر خواتین کی طرف سے حوصلہ افزائی کی بجائے شکایتوں اور طعنوں کی وجہ سے ذہنی دبائو کاشکار رہتے ہیں۔ خواتین کی شکایتیں کس کس طرح پریشان کرتی ہیں، سب کو معلوم ہے۔
5۔ کتنی عجیب مگر نہایت ہی دلچسپ صورتحال ہے کہ جن اداروں کو حکومت خود بناتی ہے اور جن کو چلانا حکومت کی ذمہ داری ہے ان کو تو حکومت کامیابی سے چلا نہیں سکتی حتیٰ کہ سپریم کورٹ تنگ آ کر یہ کہتی ہے کہ ’’جس ادارےپر ہاتھ ڈالا جائے ایک نئی داستان نکلتی ہے۔‘‘ PIAجیسے اہم اور صاف ستھرے ادارے کو سالانہ اربوں کے نقصان کے بعد نجی ملکیت میں دینے کی کوشش جاری ہے۔ سرکاری اسکولوں کو نجی ملکیت میں دیا جارہا ہے (نجی تعلیمی اداروں کے مالکان بھی سرمایہ داروں کی فہرست میں شامل ہوچکے ہیں) کئی اہم مسافر ٹرینوں کو نجی شعبے کے حوالے کیاجارہا ہے لیکن خاندان جیسے انتہائی نجی نوعیت کے ادارے جس کو مردو عورت کے دلی تعاون کے بغیر چلانا ممکن ہی نہیں، کو حکومت اپنے پروٹیکشن آفیسر اورپولیس کے ذریعے کامیابی سے چلائےگی!
6۔ جن اسباب کی وجہ سے گھریلو جھگڑے ہوتے ہیں نسواں بل میں ان کی طرف ذرا بھی توجہ نہیں دی گئی اور اس لئے نہیں دی گئی کہ طے شدہ پروگرام کے تحت ٹارگٹ صرف مرد ہی ہیں۔ ایک اہم سبب کی طرف توجہ کے لئے ذرا 18 مارچ 2016 کی اس خبر پر غور کرلیا جائے ’’موبائل فون پر دوستی: ملتان کی لڑکی ڈیرہ غازی خان پہنچ گئی۔ دوست اکیلا چھوڑ کرفرار‘‘ یہاں اسلامی تعلیم کی بات نہیں کی جاتی لیکن کیالڑکی کا یہ فعل پاکستانی ثقافت سے مطابقت رکھتا ہے۔ یقیناً مار پیٹ بالکل غلط لیکن کیا لڑکی کے اکیلے گھر سے چلے جانے سےگھر کے تمام مرد و خواتین ذہنی دبائو کا شکار نہیں ہوں گے۔ کیا ان سب متعلقین کو غصہ نہیں آئے گا؟ کیا مناسب تنبیہ کی ضرورت نہیں ہے؟ کیا اس طرح کی باتوں کے تدارک کے لئے کوئی طریقے تجویز نہیں کئے جانے چاہئیں تاکہ معاملات زیادہ خرابی کی طرف نہ بڑھیں۔
تازہ ترین