• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ملکی اور بین القوامی سیاست کے سٹیج پر کھیلے جانے والے تماشوں اور ڈراموں کو دیکھ کر یہ اندازہ لگانا مشکل ہوتا ہے کہ ان کے پیچھے اصل مقاصد کیا ہیں کیوں کہ سیاست میں جو نظر آتا ہے وہ ہوتا نہیں اور جو ہوتا ہے وہ نظر نہیں آتا۔ اکثر تو سیاست میں چاہے وہ ملکی ہو یا بین القوامی کٹھ پتلی تماشا ہی ہوتا ہے ۔ کٹھ پتلیاں تو بس ڈوری ہلانے والے کے ہاتھ میں کھیل رہی ہوتی ہیں ۔سیاست اور میڈیا کا بھی چولی دامن کا ساتھ ہے ۔ موجودہ صدی میڈیا کی صدی قرار دی گئی ہے اور آئندہ جنگیں بھی میڈیا کی جنگیں ہونگی ۔ میڈیا کے زریعے سیاسی پروپیگنڈا مقاصد کو بھی حاصل کیا جا رہا ہے ۔میڈیا وہ طاقت ہے جو دنیا بھر کے انسانوں کے خیالات میں ایک انقلابی اثر پیدا کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے لہٰذا میڈیا کے زریعے پہلے انسانوں کے ذہن تبدیل کیے جاتے ہیں اور پھر ان کے ملکوں کی تقدیر ۔ اپنی پسند کے رجحانا ت اور اثرات کو بھی اپنے ایجنڈے کے مطابق پھیلانے کی کوشش کی جاتی ہے اور اس کٹھ پتلی تماشے میں میڈیا بھی ایک کٹھ پتلی کی طرح استمال کیا جاتا ہے ۔
آج دنیا کے مختلف خطوں میں دہشت گردی،انتہا پسندی اور سول وار کی جو صورت حال پیدا ہوچکی ہے اس کے پیچھے بھی کئی طرح کی آئیڈیا لوجیز اور ان کا پروپیگنڈا ہے ۔ کچھ ایسی آیڈیا لوجیز ہیں جن کو مذہب کے ساتھ جوڑ دیا گیا ہے حالانکہ جو انتہا پسندی یا دہشت گردی مذہب کے نام پر ہورہی ہے مذہب کا اس سے دور دور کا واسطہ نہیں ۔ القاعدہ اور طالبان بھی اب ایک آئیڈیا لوجی بن چکے ہیں اور دنیا بھر میں ہونے والی دہشت گردی سے منسوب کی جانے والی کاروائیوں میں ان کا نام سرفہرست رہتا ہے ۔القاعدہ اور طالبان کا اسلام یا ان کا تصور جہاد آج پوری دنیا کے مسلمانوں کے لئے بھی اور اسلام کے لیے بھی ایک بہت بڑا خطرہ بن چکا ہے ۔ پوری دنیا میں بیگناہ مسلمان بھی کن نظروں سے دیکھے جاتے ہیں یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں رہی ۔ عالمی دنیا میں مسلمانوں کے وقار کو جو دھچکا اس انتہاپسند اور تنگ نظر آئیڈیالوجی نے پہنچایا ہے شاید ہی کسی اسلام دشمن قوت نے پہنچایا ہو ۔ انتہاپسندی میں ایک طرف مذہبی جنون میں مبتلا قوتیں ہیں تو دوسری طرف وہ قوتیں بھی ہیں جو پوری دنیا پر اپنا تسلط اور برتری حاصل کرنے کے لیے اور عالمی وسائل کو قبضے میں لینے کے لیے بڑی ہوشیاری سے اپنا جال بچھا رہی ہیں ۔ دونوں صورتوں میں دنیا کا امن خطرے میں ہے ۔ آج دنیا میں امن قائم کرنے کے لیے انتہا پسندی کے اونٹ کو نکیل ڈالنے کی ضرورت ہے ۔ عالمی سیاست میں طاقت کی توازن کی بھی بڑی اہمیت ہے کیونکہ یہ اگر بگڑ جائے تو بھی بے نکیل اونٹ کی طرح خطرناک ہوسکتا ہے۔
آج دنیا ایک گلوبل ولیج کی صورت اختیار کرگئی ہے اور عالمی امن کے قیام کے لیے اس امر کی سخت ضرورت ہے کہ اقوام عالم اپنے اپنے نظریات میں لچک پیدا کریں اور بدامنی اور انسان دشمنی کے راستے پر چلنے والے انتہا پسند خفیہ اور غیر خفیہ عناصر کا قلع قمع کیا جائے ۔ مذہبی انتہا پسندوں پر نظر اور گرفت رکھنے کے ساتھ ساتھ معاشی اور سیاسی غلبہ حاصل کرنے والی انتہا پسند قوتوں پر بھی اقوام عالم کو نظر رکھنا ہوگی جو اپنے بھرپور وسائل کے ساتھ جن میں جدید ذرایع ابلاغ اور جدید عسکری اور مواصلاتی وسائل شامل ہیں پوری دنیا پر اپنی حکومت چاہتے ہیں۔
دنیا میں امریکہ سمیت جہاں جہاں دہشت گردی کی لہر آئی ہوئی ہے وہاں ملکی اور بین القوامی سیاست کی ڈوریوں سے بندھی کٹھ پتلیوں کا رقص بھی جاری ہے ۔ بے گناہ اور معصوم جانیں چاہے وہ دنیا کے کسی خطے میں بسنے والے انسانوں کی ہیں بے حد قیمتی ہیں جان کا ضیاع انسانیت کے لئے ایک بڑا المیہ ہے ۔ اکیسویں صدی کے اس ترقی یافتہ دور میں انسانی تہذیب اپنے ارتقا کی کس منزل پر ٹھہری ہوئی ہے جہاں قتل ہونے والے کو یہ نہیں معلوم کہ اسے کیوں مارا گیا اور مارنے والا اس حقیقت سے لاعلم ہے کہ درحقیقت اس کے اس بہیمانہ عمل کے پیچھے کیا حقیقت چھپی ہوئی ہے کیونکہ وہ دہشت گرد تو ایک نادیدہ قوت کا آلہ کار ہے اور اس دست نادیدہ کی پہچان اور تحقیق نہ کبھی ہوئی ہے نہ ہوسکتی ہے ۔ پکڑی جاتی ہیں تو صرف کٹھ پتلیاں جو پہلے ہی بے جان ہوتی ہیں ۔ جن کے ذہن نہ سوچ سکتے ہیں اور نہ جن کی زبانیں بول سکتی ہیں ۔ آپ چاہیں انہیں قید کر دیں یا مار ڈالیں ان کے بعد ان ہی جیسی دوسری کٹھ پتلیاں بنا دی جائیں گی اور نادیدہ ہاتھوں میں ان کی ڈوریاں ہونگی ۔
کٹھ پتلی تماشا پھر کسی خونی کھیل کو کسی نئے سٹیج پر لے آئے گا۔میڈیا کو نیا مواد ملے گا جس پر ہفتوں تبصرے، تجزیے اور رپورٹیں دیکھتے ،سنتے اور پڑھتے رہیں گے ۔کچھ نئے امیج ابھریں گے بنیں گے یا بگڑیں گے ۔ نئے رجحانات اور اثرات پھر جنم لیں گے ۔ کوئی اپنے مقاصد کی جنگ ہارے گا تو کوئی فتح یاب ہوگا ۔ عالمی نیوز میڈیا بھی مسائل کی بجائے شخصیات اور مواد کی بجائے اسلوب پر توجہ دیتا نظر آئے گا۔ ایسے ہی کٹھ پتلی تماشے ٹیلی ویزن کے سامنے بیٹھے دنیا کے لاکھوں اربوں لوگ نیوز چینل پر دیکھتے ہیں اخبارات میں سیاستدانوں کے بیانات پڑھتے ہیں ،تجزییاور تبصرے سنتے ہیں اور اور ان اخبارات وجرائد اور ٹی وی رپورٹوں سے کسی ایک خیال کو سچائی سمجھ کر قبول کر لیتے ہیں۔ کٹھ پتلی تماشا چلتا رہتا ہے ، اذہان کی برین واشنگ ہوتی رہتی ہے ، اخبارات ، ٹی وی ،ریڈیو شور مچاتے رہتے ہیں ۔
ان سیا سی لوگوں کو آپ لوگ کیا جانیں
قتل بھی یہ کرتے ہیں دوسروں کے ناموں سے
تازہ ترین