• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
مجھے کنٹریکٹ پر فون لینے کی عادت نہیں ہے اس لئے میں ”پے ایز یو گو“ فون سے اپنا کام چلاتا ہوں۔ اس سے بہت سے جھنجھٹوں سے جان چھوٹ جاتی ہے۔ ہر مہینے بل دینے کی بجائے جب آپ کو ضرورت ہو ادائیگی کریں اور فون استعمال کریں۔ آزادکشمیر کی موجودہ حکومت بھی ”پے ایز یو گو “کی اس ایجاد سے مکمل طور پر استفادہ کر رہی ہے۔ تاہم وہ اس سہولت کو موبائل فون کی بجائے اپنے وزیروں اورمشیروں کے لئے استعمال کر رہی ہے۔ آزادکشمیر کے 48 منتخب ارکان کے اوپر 90 سے زائد وزیر اور مشیر اسی سہولت کو استعمال کرتے ہوئے لگائے گئے ہیں۔ مشیروں کے لئے باقاعدہ ٹیرف موجود ہے۔ آپ کو کس قسم کا مشیر لگنا ہے؟ جھنڈی والا یا بغیر جھنڈی کے؟ تنخواہ والا یا پھر بغیر تنخواہ کے جیسا کہ ”پے ایز یو گو“ کے 5 پونڈ کے ٹیرف میں 100 ٹیکسٹ اور 50 منٹ فری ہوتے ہیں بالکل ایسے ہی مشیروں کی مراعات کے حوالے سے ٹیرف موجود ہیں یعنی جتنا گڑ ڈالیں گے اتنا ہی میٹھا ہوگا جب سے غیر ریاستی جماعتیں آزادکشمیر کے مقدر کی مالک بنی ہیں وہاں کی سیاست کا محور مرکز بھی تبدیل ہوچکا ہے۔ آزادکشمیر میں کے ایچ خورشید، سردار قیوم، سردار سکندر حیات یا سردار ابراہیم جیسے سیاست دان صرف ایک مثال کی حیثیت اختیا رکر چکے ہیں۔ ان جیسا کوئی بھی سیاستدان اب موجود نہیں جو مرکز کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرسکے۔ موجودہ لیڈر شپ اقتدار کے لئے فرمائشی پروگرام کے گرد گھومتی ہے اور آزادکشمیر کے وزراء ”پے ایز یو گو“ کے طریقہ کار کا سہرا لیتے ہیں اور اپنے کام نکلواتے ہیں۔ اس حوالے سے عیاش مافیا نٹ ورک کے سرگرمِ عمل ہونے کی افواہیں بھی گردش کرتی رہتی ہیں۔ گزشتہ دنوں مظفرآباد کے ایک ہوٹل میں ایک طالبہ کے ساتھ اجتماعی عصمت دری کے مبینہ واقعہ میں بہت سے پردہ نشینوں کے نام لئے جارہے ہیں۔جس میں اعلیٰ شخصیات شامل ہیں۔
اگرچہ حکومتی ذرائع اس امر کی تردید کر رہے ہیں اور ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ مظفرآباد کی طرف سے ایک پریس نوٹ بھی جاری کیا گیا ہے جس میں 4 اپریل کو مظفرآباد میں ایک طالبہ کے ساتھ جنسی زیادتی کے واقعے کے حوالے سے کہا گیا ہے کہ کسی طالبہ کے ساتھ جنسی زیادتی کا کوئی واقعہ نہیں ہوا اور نہ ہی کوئی طالبہ فوت ہوئی ہے۔ بلکہ جس طالبہ کی بات کی جارہی ہے وہ زندہ ہے اور اس کے ساتھ کوئی زیادتی نہیں ہوئی۔ پریس نوٹ کے مطابق ابتدائی تحقیقات کے بعد کسی وزیر یا سرکاری ملازم کے ملوث ہونے کے کوئی شواہد بھی نہیں پائے گئے جب کہ ڈپٹی سیکرٹری داخلہ کو اس مبینہ واقعہ کی تحقیقاتی کے لئے انکوائری آفیسر مقرر کیا گیا ہے اگرچہ یہ پریس نوٹ خود ایک کہانی بیان کر رہا ہے۔ تاہم ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ عوام کی طرف سے اس قدر شور کے بعد اس قسم کی انکوائری کے لئے کسی ریٹائرڈ اور اچھی شہرت والے جج کی سربراہی میں کمشن بنایا جاتا جو غیر جانبدار طریقے سے اس واقعہ کی تحقیقات کرتا اور قوم کے سامنے حقائق پیش کرتا۔ حکومتی سطح پر ہونے والی تحقیقات کسی بھی طرح غیر جانبدار نہیں ہوسکتی کیونکہ اس مبینہ واقعہ میں آزادکشمیر حکومت کے وزراء اور دیگر اہم شخصیات کے نام آرہے ہیں۔ جو کہ اپنا اثر و رسوخ استعمال کرنے اور تحقیقات کا رخ موڑنے کی مکمل دسترس
رکھتے ہیں اور جیسا کہ حالات سے بھی ظاہر ہورہا ہے کہ ایسا کیا گیا ہے۔ اگرچہ اس حوالے سے بہت متضاد رپورٹنگ ہوتی ہے۔ کسی رپورٹ میں طالبہ کا انتقال اور کسی میں اسے زندہ قرار دیا گیا ہے۔ لیکن یہ بھی اپنی جگہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ دھواں وہاں ہی سے اٹھتا ہے جہاں آگ لگ چکی ہو اور اگر اس واقعہ میں وزراء اور دیگر اہم لوگوں کے نام آرہے ہیں تو آزادکشمیر حکومت کو فوری طور پر آزاد عدالتی کمیشن بنانا چاہئے تھا۔ ادھر بہت دیر کی مہرباں آتے آتے کے مصداق وزیراعظم آزادکشمیر چوہدری مجید نے طالبہ زیادتی واقعہ میں ملوث افراد کو گزشتہ روز تختہ دار پر لٹکانے کا اعلان کرتے ہوئے آئی جی پولیس اور ڈپٹی کمشنر مظفرآباد سے رپورٹ طلب کی ہے۔ لیکن ایسا لگتا ہے کہ یہ مسئلہ کسی کمہار کی مدد کے بغیر حل ہونے والا نہیں؟۔
ایک بار ایک بادشاہ نے ایک کمہار کے گدھوں کو ایک قطار میں چلتے دیکھا تو کمہار کو بلا کر پوچھا کہ یہ کس طرح سیدھے چلتے ہیں۔ کمہار نے کہا کہ جو لائن توڑتا ہے اس کو سزا دیتا ہوں۔ بادشاہ نے کہا کہ میرے ملک میں امن و امان ٹھیک کر سکتے ہو۔ کمہار نے حامی بھرلی اور بادشاہ کے ساتھ چل پڑا۔ دارلحکومت پہنچتے ہی عدالت لگائی، چور کا مقدمہ آیا تو چور کے ہاتھ کاٹنے کی سزا دی۔ جلاد نے وزیراعظم کی طرف اشارہ کیا کہ چور کو ان کی سرپرستی حاصل ہے۔ کمہار نے پھر حکم دیا چور کا ہاتھ کاٹا جائے۔ وزیراعظم سمجھا شائد جج کو پیغام صحیح سمجھ نہیں آیا۔ وہ آگے بڑھا، کمہار کے کان میں کہا کہ یہ اپنا آدمی ہے۔ کمہار نے بطور جج اعلان کیا چور کا ہاتھ اور وزیراعظم کی زبان کاٹ دی جائے۔ بادشاہ نے فیصلے پر عمل کرایا۔ آگ و خون کی لپیٹ میں آئے ہوئے ملک میں ایک فیصلے سے ہی مکمل امن قائم ہوگیا۔
اگر گناہ گار کی سفارش کرنے والی زبان کاٹ دی جائے۔ اگر غلط کاموں میں اپنوں کی سرپرستی چھوڑ دی جائے۔ اگر مخالفین کو پھنسانے کی سیاسی چالیں بند کر دی جائیں۔ تو ملک میں کہ صرف انصاف کا بول بالا ہوگا۔ بلکہ ظلم ختم ہوجائے گا کسی طالبہ کو نوکری دلائے گا جھانسہ دیکر عصمت دری کے واقعات نہیں ہونگے۔ گولیاں بھی بند ہوجائیں گی، قتل و غارت بھی رک جائے گی اور امن بھی قائم ہوجائے گا۔
لیکن اس کے لئے ضروری ہے کہ کسی کمہار کی خدمات حاصل کیں جائیں جو ”گدھوں کو سیدھی لائن میں چلانا جانتا ہو“ مگر پھر یہ سوال اٹھ کھڑا ہوگا کہ یہاں بادشاہ کون ہے!!!۔
زہر ہوا کا راج تھا طاہر شہروں کے گلدانوں میں
سارے رنگ ہی کھو بیٹھیں وہ رنگ برنگی تتلیاں
(طاہر حنفی)
تازہ ترین