• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
آزادی رائے ہر کسی کا حق ہے، اس کے اظہار کے لئے بہت سے ذرائع بھی موجود ہیں۔ یہ ذرائع ہی آگاہی کا سبب ہیں اور یہی بے نوائوں کی آواز کو توانائی دیتے اور اقتدار کے ایوانوں تک پہنچاتے ہیں۔ 26مارچ کے روزنامہ’’ جنگ‘‘ میں ایک مضمون بعنوان ’’نریندر مودی اور سراج الحق میں حیران کن مماثلتیں‘‘ شائع ہوا ۔ مضمون نگار نے دونوں شخصیات کی بہت سی مماثلتیں شمار کی ہیں۔ جن میں ان دونوں شخصیات کا ’’لوئر کلاس ‘‘ ہونا بھی ایک مماثلت ہے اور مضمون نگار اسے شاید برا سمجھتے ہیں حالانکہ یہ ایک بہت بڑی خوبی ہے، کہ سراج الحق نے اگر لوئر کلاس گھرانے میں آنکھ کھولی اور وہ بچپن میں ٹوٹی ہوئی جوتی پہننے پر مجبور تھے ، وہ تو اب بھی سادگی پسند ہی ہیں، ایک سیاسی مذہبی جماعت کے امیر ہونے کے باوجود ان میں دکھاوے اور بناوٹ کی جھلک نہیں دیکھی جاسکتی۔ بتایا گیا ہے کہ دونوں نے کیریئر اور تعلیم پر توجہ دینے کی بجائے سیاست پر توجہ دی۔ شاید موصوف کی نگاہ میں ایک کا وزیراعظم بن جانا اور دوسرے کا ایک بین الاقوامی سطح پر تعارف رکھنے والی جماعت کا سربراہ بننا ’’کیریئر‘‘ نہیں۔ سیاست میں کبھی پارٹی تبدیل نہ کرنے کو بھی مماثلت کے زمرے میں لکھا ہے۔ اپنے ہاں عجیب سیاست پروان چڑھ رہی ہے کہ بے شمار سیاستدان راتوں رات اڑان بھر کر ایک سے دوسری پارٹی کی شاخِ تمنا پر بیٹھ جاتے ہیں۔ اگر پارٹی نہیں بدلی تو یہ بھی ایک زبردست خوبی ہے۔مماثلتیں تلاش کرتے کرتے مضمون نگار دونوں لیڈروں کے ایک ایک ایسے واقعہ تک پہنچے جو اُن کی بدنامی کا موجب بنا اوربتایا کہ ابھی تک ان پر تنقید ہورہی ہے، جس میں سراج الحق پر 2006ء میں ڈمہ ڈولا کے ایک مدرسے پر امریکی ڈرون حملے کے نتیجے میں 80سے زائد معصوم بچوں کی شہادت پر ان کی نمازِ جنازہ پڑھانے کا الزام ہے۔ یہ تو حقیقت ہے کہ یہ معصوم بچے دہشت گرد نہیں تھے، تاہم مذکورہ بالا امریکی ڈرون حملہ ضرور متنازع تھا، جس میں بچوں کی اتنے بڑے پیمانے پر ہلاکتیں ہوئیں۔ عسکریت پسندی بھی دونوں کی مشترکہ عادت قرار دی گئی ہے۔ سراج الحق کو افغان جنگ میں سرگرم کہا گیا۔ افغان جنگ پاکستان کی حکومت نے لڑی تھی، پاک فوج کا اس میں کردار بہت مثبت اور اہم تھا،پاک فوج سمیت افغان جنگ کے حامی آج بھی اس پر فخر کرتے ہیں۔ مضمون نگار کے ذہن پر حیرت ہوتی ہے کہ اس نے لکھا’’دونوں کا میل ملاپ کا طریقہ اس قدر مشترک ہے کہ دونوں جڑواں بھائی لگتے ہیں ۔۔ عام آدمی ہو یا قومی یا بین الاقوامی شخصیت، یہ دونوں اس سے بے تکلفی اور پر جوش انداز میں ملتے ہیںجیسے برسوں کی جان پہچان ہو‘‘ دوسروں کو اپنا بنانا اور پہلی ملاقات میں ہی برسوں پرانے تعلقات کا ماحول پیدا کردینا تو شعائر اسلام بھی ہے، کیا مضمون نگار کے آئیڈیل وہ سیاسی رہنما ہیں جو اپنے ہی ممبرانِ اسمبلی تک کو کئی کئی ماہ تک وقت نہیں دیتے؟ عام کارکن باہر ہی دھکے کھاتے رہتے ہیں، ان کے پروٹوکول کا عالم یہ ہوتا ہے، کہ انسان نما مخلوق (سوائے سیکورٹی اہلکاران) کے ان کے قریب نہیں آسکتی؟ اگلی مماثلت یہ بیان کی کہ دونوں کی پیدائش کا مہینہ بھی ایک ہی ہے تو مودی سترہ ستمبر اور سراج الحق پانچ ستمبر کو پیدا ہوئے۔بہت سے لیڈر ہیں جو ایک ہی مہینے حتیٰ کہ ایک ہی تاریخ کو پیدا ہوئے، اس بنیاد پر سب کو پلڑے میں نہیں رکھا جا سکتا۔ بانیٔ پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح اور وزیراعظم پاکستان، دونوں کا یومِ پیدائش 25دسمبر ہے، اس ایک چیز کو بنیاد بنا کر دونوںرہنمائوں کا موازنہ تو نہیں کیا جا سکتا۔رہی بات نریندر مودی اور سراج الحق کی تو مودی صاحب پر بھارت کے علاوہ امریکہ میں بھی مسلمانوں کے قتل کے مقدمات درج ہیں ، اسی باعث ایک امریکی عدالت انہیں اشتہاری بھی قرار دے چکی ہے جبکہ سراج الحق کا دامن اس حوالے سے بالکل صاف ہے۔ علاوہ ازیں جماعت اسلامی کا خاکسار تحریک کے ساتھ موازنہ کرتے ہوئے بھی مضمون نگار نے حقائق کی بجائے جذبات سے کام لیا ہے۔جماعتِ اسلامی ملک کی سب سے بڑی مذہبی سیاسی جماعت ہے لہٰذا اس کا خاکسار تحریک کے ساتھ موازنہ کسی بھی طور درست نہیں ہے۔
تازہ ترین