• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ماہرین عمرانیات نے ریاست کی تشکیل اور جمہوریت کے استحکام اور کامیاب پیش رفت کے لئے جن عوامل کو اولین ترجیح کے طور پر پیش کیا ہے ان میں سر فہرست یہہے کہ ہر سیاسی جماعت کو اقتدار میں آنے سے پہلے عوام کو درپیش مسائل کا جائزہ لینے اور انہیں برسراقتدار آنے کی صورت میں حل کرنے کے لئے ایک موٴثر اور نتیجہ خیز منصوبہ بندی اور لائحہ عمل کو تمام شعبہ ہائے زندگی کے ماہرین کی مشاورت سے مرتب کرنے اور اس پر عملدرآمد کو یقینی بنانے کا اہتمام کرنا چاہئے تاکہ اقتدار سنبھالنے والی جماعت سے وابستہ عوام کی توقعات پوری ہوسکیں اور قومی سیاست اور سیاستدانوں پر عوام کا اعتماد متزلزل نہ ہونے پائے جس ملک کی سیاسی جماعتیں اس ذمہ داری کو نظر انداز کردیتی ہیں، وہ نہ صرف عوام کے اعتماد سے محروم ہوجاتی ہیں بلکہ عوام کے مسائل میں ہونے والا اضافہ ان کی محرومیوں اور مایوسیوں کو اس حد تک آگے لے جاتا ہے کہ ملک کسی بھی وقت انتشار و افتراق کا شکار ہوسکتا ہے جس سے مہم جو اور مفاد پرست عناصر کو فائدہ اٹھانے کا موقع مل جاتا ہے اور پورے سیاسی نظام کی تار پود بکھر کر رہ جاتی ہے۔
اس پس منظر میں پاکستان میں ہونے والے انتخابات کے حوالے سے سیاسی مبصرین، تجزیہ نگاروں اور ماہرین معاشیات کا یہ کہنا ملک کی ہر سیاسی جماعت کے لئے ایک رہنما اصول کا درجہ رکھتا ہے کہ نئی قیادت کو معاشی مسائل، غربت،بے روزگاری اور توانائی کے بحران کے علاوہ گرانی، بدامنی اور شہریوں میں جان و مال کے بڑھتے ہوئے عدم تحفظ کے احساس پر قابو پانے کے لئے ٹھوس منصوبہ بندی کرنا ہوگی۔
ملک میں حقیقی تبدیلی کے لئے سماجی و معاشی انصاف ضروری ہے قومی پیداوار اور سرکار ی محاصل کا دائرہ وسیع کئے بغیر غربت و افلاس کا خاتمہ ممکن نہیں اور اس کے لئے ماضی کی نسبت محض وعدوں کی بجائے عملی اقدامات کی ضرورت ہے اور انتخابات کے بعد جو بھی سیاسی قیادت سامنے آئے اسے ملک کے معاشی حالات کے پس منظر میں ایسی پالیسی نافذ کرنا ہوگی جس سے ملک کو درپیش سنگین مسائل کے حل میں مدد مل سکے اگر نئی قیادت نے روایتی سیاستدانوں والا رویہ اختیار کیا تو کوئی مسئلہ حل نہیں ہونے پائیگا۔
اس پس منظر میں سابقہ حکومت کے طرز عمل کو بالخصوص سامنے رکھتے ہوئے آئندہ حکمران جماعت کو ہی نہیں بلکہ تمام سیاسی جماعتوں کو عوام کو درپیش مسائل کے حل کے لئے ٹھوس منصوبہ بندی کا اہتمام کرنا ہوگاتاکہ جس جماعت کو بھی اقتدار حاصل ہو وہ اس منصوبہ بندی کی روشنی میں عوام کے مسائل کے حل کے لئے فوری اقدامات کا اہتمام کرسکے۔ سابقہ حکمرانوں نے عوام کو درپیش مسائل کے حوالے سے ہمیشہ یہ موٴقف اختیار کیا کہ انہیں یہ بحران ورثے میں ملا ہے لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ انہوں نے ورثے میں ملنے والے ان بحرانوں سے نمٹنے کے لئے اقتدار سنبھالنے سے پہلے کیا کوئی منصوبہ بندی کی تھی؟
ظاہر ہے کہ ایسا ہرگز نہیں ہوا اور یہ حکمرانوں کی غلط سوچ پالیسی اور ناکامی پر دلالت کرتا ہے اس لئے کہ یہ مسائل روز روشن کی طرح عیاں تھے ۔ عالمی اداروں کی طرف سے اپنی سروے رپورٹس میں پاکستان میں آبادی کی شرح میں اضافہ اور ان سے پیدا ہونے والے مسائل متعدد مرتبہ واضح کئے گئے تھے کیا حکمرانوں ان رپورٹس کو کوئی اہمیت دینے کی کوشش کی تھی۔ ظاہر ہے کہ ایسا ہرگز نہیں ہوا اسی طرح سرکاری محاصل میں ہونے والی کمی اور ٹیکس چوری کا مسئلہ بھی پوری قوم کے سامنے تھا۔ غلط معاشی پالیسی کی وجہ سے دولت کے ارتکاز نے غربت کے گراف میں اضافہ کیا اور تمام وسائل چند ہاتھوں میں جمع ہو کر رہ گئے مساویانہ تقسیم کا کوئی تصور ہی سامنے نہ آیا۔ کرپشن کی انتہا یہ تھی کہ غیر ملکی امداد کا غلط استعمال ایک معمول بن کر رہ گیا یہاں تک کہ بعض عالمی اداروں نے پاکستان کی مالی امداد بند کردی۔یہ وہ مسائل ہیں جو آئندہ برسراقتدار آنے والی حکومت کو ورثے میں ملیں گے لیکن انہیں جان چھڑانے کی بجائے ان مسائل کا حقیقت پسندانہ ادراک کرنے کے بعد ان کے حل کے لئے وسیع تر مشاورت کے ذریعے ایک موثر لائحہ عمل ابھی سے تیار کرلینا چاہئے تاکہ اقتدار سنبھالنے کے فورا بعد ان مسائل کے حل کا آغاز ہوسکے جب تک ان مسائل کا پائیدار اور مستقل حل تلاش نہیں کیا جاتا قوم آزادی کی نعمتوں اور برکتوں سے بہرہ ور نہیں ہوسکتی۔
تازہ ترین