• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ہم اپنے خاندان میں بچوں کو پولیوکے قطرے پلاتے ہیں اور احتیاطی تدبیر کے طور پر دیگر بیماریوں سے بچاوٴ کے لئے حفاظتی ٹیکے بھی لگواتے ہیں۔ میرے خاندان میں الحمدلله متعدد ڈاکٹر ہیں، صرف میرے بڑے بھائی کے خاندان میں آٹھ ڈاکٹر ہیں جنہوں نے سرجری، میڈیسن اور دیگر شعبوں میں اسپیشلائیزیشن کر رکھا ہے یا مختلف مراحل میں ہیں ۔ پاکستان میں پولیو ویکسین کے قطرے پلانے کی مخالفت یا مزاحمت پہلے صوبہ خیبرپختونخوا کے بعض علاقوں، قبائلی علاقوں اور بلوچستان کے بعض علاقوں تک محدود تھی لیکن گزشتہ سال سندھ اور پنجاب کے بعض علاقوں میں بھی اس کے اثرات سامنے آئے۔ اس لئے اس مسئلے کو نہایت سنجیدگی سے لینے کی ضرورت ہے۔ صرف وقتاً فوقتاً میڈیا پر آنے والے علماء کی کانفرنسیں یا مشترکہ ومتفقہ اعلامیہ جاری کرنے سے یہ مسئلہ حل نہیں ہوگا۔ مصر ، سعودی عرب اورعرب وعجم کے سارے علمائے کرام ہمارے لئے قابلِ احترام ہیں لیکن آپ کو معلوم ہونا چاہئے کہ القاعدہ اور اُن سے وابستہ لوگوں کے لئے سعودی عرب کے علماء بھی حجت نہیں رہے کیوں کہ ان کی سوچ کے مطابق سعودی عرب اور دیگر مسلم ممالک کے ایسے تمام علماء جو اپنی اپنی حکومتوں کے خلاف مزاحمت نہیں کررہے یا ان کا ساتھ دے رہے ہیں، وہ ”توحیدِ حاکمیّتِ الٰہی“ کی نفی کررہے ہیں۔گزشتہ دنوں ہم کراچی کے مختلف مسالک کی تمام بڑی جامعات کے مراکزِ افتاء کے 15جید مفتیانِ کرام کی ایک جماعت کیساتھ کراچی یونیورسٹی کے مائیکرو بیالوجی ڈیپارٹمنٹ میں گئے۔ ہم نے پولیو ویکسین مہم کے مخالفین کے مندرجہ ذیل شبہات ان کے سامنے رکھے:(الف)پولیو ویکسین میں ایسے اجزاء ملائے جاتے ہیں جن کے نتیجے میں بلوغت کے بعد افزائشِ نسل کی استعداد میں نقص پیدا ہو جاتا ہے۔ (ب)اس میں دوسری بیماریوں کے پھیلاوٴ کے وائرس ملا دیئے جاتے ہیں۔ (ج)اس میں حرام اجزاء ملائے جاتے ہیں۔ (ہ) ویکسین پلانے پر اتنا اصرار کیوں کیا جاتاہے وغیرہ؟ (و)ایک شبہ یہ بھی بیان کیا جاتا ہے کہ پاکستان میں پولیو وائرس وقتاً فوقتاً دریافت ہوتا رہے گا تاکہ گلشن کا کاروبار چلتا رہے۔
وہاں ہمیں ڈیپارٹمنٹ کے چیئرمین پروفیسر ڈاکٹر محمد عقیل احمد نے پولیو ویکسین کی تاریخ اور سائنسی و فنی معلومات پوری تفصیل کے ساتھ فراہم کیں۔ ان کی فراہم کردہ معلومات کے مطابق پولیو ویکسین تقریباً پچیس سال پہلے بندر کے بافتوں (Tissues)سے حاصل کی گئی تھی، بندر حرام ہے۔ اس کے بعد اُسی سے ویکسین کا سلسلہ آگے بڑھایا جاتا رہا ہے اور اب تو شاید پولیو ویکسین میں اس کا ایک اربواں حصہ بھی نہ ہو لہٰذا ہم نے قرار دیا کہ اس حوالے سے کوئی شرعی خرابی نہیں ہے کیونکہ جس چیز کی ماہیت بدل جائے، شریعت کی رو سے اس کا حکم بھی بدل جاتا ہے۔
اس کے ساتھ ساتھ ہمیں پروفیسر ڈاکٹر شکیل فاروقی جینیٹکس ڈیپارٹمنٹ کراچی یونیورسٹی نے بھی بریفنگ دی اور اپنے بعض تحفظات پیش کئے۔ انہوں نے بتایا کہ ایسے شواہد بھی آئے ہیں کہ دو بھائیوں میں سے ایک کو پولیو کے قطرے پلائے گئے اور وہ بعد میں پولیو کا مریض بنا، جب کہ اسی کے دوسرے بھائی کو پولیو کے قطرے نہیں پلائے گئے اور وہ پولیو کے مرض سے محفوظ رہا۔ یہ اتفاق بھی ہو سکتا ہے لیکن یہ امکان بھی تو ہے کہ پولیو قطرات غیر معیاری ہونے یا حفاظتی تدابیر ناقص ہونے کی وجہ سے غیر موٴثر ہوگئے ہوں۔ اسی طرح ہمارے ایک انتہائی مستند اور معتمد عالمِ دین مفتی محمد الیاس رضوی اشرفی نے بتایا کہ ان کے ایک بھتیجے کو پولیو کے قطرات پلائے گئے، اس کو بعد میں پولیو کی بیماری لاحق ہوئی اور اسی مرض میں اس کا انتقال ہو گیا۔ اس کے دوسرے بہن بھائیوں کو پولیو کے قطرے نہیں پلائے گئے ، وہ سب الحمدلله بقیدِحیات ہیں۔اسی طرح بعض افریقی اور عرب افریقی ممالک میں پولیو ویکسین کے جو منفی اثرات مرتب ہوئے ہیں، اس کے بارے میں جو تفصیلی رپورٹیں چھپتی رہی ہیں، ہم نے ان کا بھی حوالہ دیا اور پروفیسر ڈاکٹر شکیل فاروقی نے بھی کہا کہ یہ کسی حد تک درست ہے۔ واضح رہے کہ ان رپورٹوں کو وہ طبقات بہت اہمیت دیتے ہیں اور زیادہ معتبر مانتے ہیں، اس کی وجہ یہ ہے کہ ان کا موقف بھی بیان ہوتا رہتا ہے اور اسی لئے اُن حلقوں میں ان رپورٹوں کو زیادہ پڑھا بھی جاتاہے اور آج تک کسی ذمہ دار ادارے نے ان رپورٹوں کو نہ تو چیلنج کیا ہے اور نہ ہی ان کے بارے میں کوئی قابلِ قبول وضاحت پیش کی ہے۔
پروفیسر ڈاکٹر شکیل فاروقی نے بتایا کہ ہم اپنے بچوں کو پولیو کے قطرے پلاتے ہیں لیکن کسی مستند اسپتال میں، اور سچ یہ ہے کہ ہم بھی ایسا ہی کرتے ہیں لیکن سب لوگوں کے لئے اور خاص طور پر دور افتادہ علاقوں کے لوگوں کے لئے ایسا کرنا عملاً ممکن نہیں ہے یا تو اُن کی رسائی ہی نہیں ہے اور یا وہ اس کے متحمل نہیں ہیں، پس مذکورہ بالا شواہد کی روشنی میں مخالف ومزاحم طبقے پر اِتمامِ حجت کرنا اور ان کے شبہات کا ازالہ ضروری ہے۔ اس کیلئے بعض اقدامات نہایت سنجیدگی سے اٹھانے چاہئیں، جو ہماری نظر میں درج ذیل ہیں:
(1)ہمارے ملک میں عوامی سطح پر دور افتادہ علاقوں، گاوٴں ،قصبوں اور شہروں میں محلے محلے گھوم کر جو قطرے پلائے جاتے ہیں اس کے اجزائے ترکیبی کیا ہیں، یہ بات پولیو ویکسین کی پیکنگ سے عیاں نہیں ہوتی لہٰذا اس کا قطعی اور مُصدَّقہ اہتمام ہونا چاہئے۔(2)اس کی کوالٹی کنٹرول کا معیار کیا ہے ، اس کی ہر ترسیل کی تصدیق کہاں سے ہوتی ہے، اس بارے میں کوئی معلومات نہیں، اس کا بھی قطعی اور مُصدَّقہ اہتمام ہونا چاہئے اور اس کیلئے سرکاری سطح پر ہر صوبے میں ایک ایسی معیاری لیبارٹری ہو جو تصدیق کرے اور پھر وقتاً فوقتاً چیکنگ اور اچانک معائنے کابھی اہتمام کرے۔(3)پولیو کی ہرترسیل کو مطلوبہ سائنسی اور طبی معیار کے مطابق رکھنے کا مُصدَّقہ اور قابل اعتبار انتظام ہوناچاہئے ۔(4)ہوتا یہ ہے کہ پولیو ویکسین کی مہم شروع ہوگئی، جو بچہ سامنے آیا اسے قطرے پلا دیئے گئے، اس سے پہلے اُسے کتنے قطرے پلائے گئے ہیں، کسی کے پاس ریکارڈ نہیں ہوتا، جب کہ مستند اسپتالوں میں اس کیلئے باقاعدہ ہر بچے کا ایک کارڈ ہوتا ہے، جس پر مختلف مطلوبہ وقفوں سے قطرے پلانے کا ریکارڈ درج ہوتاہے لہٰذا مکمل آگہی اور مطلوبہ ریکارڈ کا بھی اہتمام ہونا چاہئے کہ ہر بچے کو پولیو ویکسین کے کتنے قطرے پلانے ضروری ہیں؟ کتنے وقفے سے پلائے جائیں؟ ایک بچے کو پہلے کتنے قطرے پلائے جا چکے ہیں اور اس کا کتنا کورس باقی ہے؟ یہ نہ ہو کہ دروازہ کھٹکھٹایا جو بچہ سامنے آیا اسے قطرہ پلایا اور چل دیئے۔ اگر حکومت یا متعلقہ محکمے کیلئے یہ ریکارڈ محفوظ رکھنا مشکل ہے تو کم ازکم والدین کے پاس ایک کارڈ ہو ،جس میں بچے کا نام، تاریخ پیدائش اور پولیوکے قطرے پلانے کی مطلوبہ وقفوں کیساتھ تواریخ درج ہوں۔ (5) NIHS میں پولیو کی پروڈکشن کیوں بند کی گئی؟سوال یہ ہے کہ کیا پولیو ویکسین ٹھیکیداروں کے ذریعے تیار یا درآمد کیا جاتا ہے؟اگر ایسا ہے تو پاکستان میں سرکاری ٹھیکوں میں جو کرپشن ہوتی ہے، کوالٹی پر سودے بازی کر لی جاتی ہے، اس کے لئے نگرانی کا کوئی فول پروف انتظام ہونا چاہئے اور سدِّذرائع کیلئے جو طریقے اختیار کئے جا رہے ہیں ؟ وہ طے شدہ ہونے چاہئیں۔(جاری ہے)
تازہ ترین