• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
سپریم کورٹ میں ایک مقدمے کی سماعت کے دوران فاضل جج جسٹس آصف سعید کھوسہ کے یہ ریمارکس ہماری عدالتوں میں غلط فیصلوں کا سبب بننے والے ایک بنیادی نقص کی بھرپور نشان دہی کرتے ہیں کہ ’’جھوٹی گواہیوں کی بناء پر ملزمان کا رہا ہونا اللہ کا عذاب ہے، اکثر مقدمات میں گواہ جھوٹے ہوتے ہیں اور عدالتوں کو قانون اور دستیاب شہادتوں ہی پر فیصلہ کرنا ہوتا ہے۔‘‘ گزشتہ روز قتل کے ایک مقدمے میں ملزم کی رہائی کا فیصلہ سناتے ہوئے فاضل جج نے مزید کہا کہ ’’جھوٹی گواہی ثابت ہونے پر جھوٹے گواہ کو پچیس سال کے لئے جیل بھیج دینا چاہئے، عدالتیں دوچار جھوٹے گواہوں کو جیل بھیجیں تاکہ لوگ عبرت پکڑیں۔‘‘ ان ریمارکس سے جس حقیقت کی عکاسی ہوتی ہے وہ کوئی راز نہیں۔ ہمارے منتخب نمائندے اور قانون ساز، ہماری عدالتیں، وکلاء و جج صاحبان اور نفاذ قانون کے ذمہ دار ادارے، سب جانتے ہیں کہ جھوٹے گواہ تیار کرنے اور انہیں باقاعدہ سکھا پڑھا کر عدالتوں میں بھیجنے کا ایک پورا نظام موجود ہے۔ جھوٹی گواہی باقاعدہ ایک پیشہ اور بہت سے لوگوں کا مستقل ذریعہ معاش ہے۔ اس ضمن میں نہایت قابل توجہ نکتہ یہ ہے کہ بسا اوقات حق پر ہونے والے فریق کو بھی مختلف خطرات کی بناء پر اپنے حق میں گواہی دینے کے لئے کسی فرد کے آمادہ نہ ہونے کی وجہ سے جھوٹے گواہوں کا سہارا لینا پڑتا ہے۔ اس صورت حال نے متاثرہ فریق کے لئے انصاف کے حصول کو انتہائی دشوار بنادیا ہے۔لہٰذا ضروری ہے کہ عدالتی نظام کو ایک طرف جھوٹے گواہوں سے پاک کیا جائے اور دوسری طرف برسرحق فریق کا تحفظ یقینی بنایا جائے۔اسلام کی رو سے جھوٹی گواہی شرک اور قتل کی طرح گناہ کبیرہ ہے جبکہ سچی گواہی چھپانے والوں کے لئے بھی سخت تنبیہات کی گئی ہیں۔ اس کے باوجود اسلامی جمہوریہ پاکستان میں جھوٹی گواہی کے نیٹ ورک کا کسی روک ٹوک کے بغیر پھلتے پھولتے رہنا قانون ساز اداروں کی فوری توجہ کا طالب ہے۔
تازہ ترین