• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پاناما لیکس نے پاکستان سمیت دنیا بھر میں کرپشن کے حوالے سے ایک تہلکہ مچا دیا ہے بلا شبہ کرپشن اب ایک مقامی نہیں بین الاقوامی مسئلہ بن چکا ہے۔ اور ’’ نزلہ بر عضوِ ضعیف‘‘ کے مصداق پاکستان سمیت تیسری دنیا کے اکثر ممالک میں جہاں اور بہت سے امراض پائے جاتے ہیں کرپشن بھی ایک موذی مرض کی شکل اختیار کر گیا ہے۔ لیکن ہمارا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ ہم اپنے مسائل کا غیر جانبدارانہ تجزیہ نہیں کرتے بلکہ اسے ایک دوسرے کی ٹانگ کھینچنے کا ذریعہ بنا لیتے ہیں۔ یہی کچھ آجکل کرپشن کے سلسلے میں بھی ہورہا ہے۔ جس میں مخصوص لابی کے لوگ ایک مخصوص طبقے یعنی سیاستدانوں کو نشانہ بنا کر پورے سیاسی عمل کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کی کوشش میں ہیں ۔ اس کا مطلب قطعََا یہ نہیں کہ اگر سیاستدان کرپشن کرتے ہیں تو ان کا محاسبہ نہ کیا جائے اور انہیں سزا نہ دی جائے لیکن اس کے لئے کسی بھی مخصوص ادارے کو ٹارگٹ کرنا مسئلے کا حل نہیں۔ کچھ ٹی وی اینکرز اور تجزیہ نگار جو شاہ سے زیادہ وفاداری کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ ان کے خیال میں یہ سب کرپشن صرف سیاست دان ہی کرتے ہیںلہٰذا سیاسی عمل اور سیاستدانوں پر پابندی عائد کر دینی چاہئے۔ اصل میں یہی سوچ کرپشن کو فروغ دینے والی ہے جو ہمارے تمام مسائل کی جڑ ہے۔ یہ ایسے ہی ہے جیسے انگلی میںپھانس چب جائے تو اسے نکانے کی بجائے انگلی ہی کاٹ دی جائے۔ آرمی چیف جنرل راحیل شریف کے اس بیان کے بعد کہ فوج کو کرپشن پر تشویش ہے اور وہ کرپٹ افراد کا محاسبہ بلا تخصیص و تفریق کرنا چاہتی ہے۔ ایسے افراد نے جمہوریت اور سیاستدانوں کے خلاف اپنے پروپیگنڈے کو تیز کر دیا ہے۔ حالانکہ ایک محّبِ وطن سپاہی ہونے کے ناطے آرمی چیف کا یہ بیان انہی جذبات کا اظہار ہے جو ہر پاکستانی کے دل کی پکار ہے لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ آرمی چیف نے پورے جمہوری عمل پر ہی تشویش کا اظہار کردیاہے۔ حالانکہ ان کا یہ بیان کہ دہشت گردی کی وجہ کرپشن ہے۔ اس پر ضرور اختلاف ِ رائے کیا جا سکتا ہے۔ کیونکہ تاریخ ہمیں یہ بتاتی ہے کہ دہشت گردی کی وجہ سے کرپشن سمیت کئی مسائل جنم لیتے ہیں کیونکہ کرپشن ان ممالک میں بھی موجود ہے جہاں کسی قسم کی دہشت گردی نہیں ہور ہی ۔ باقی ممالک جہاں کرپشن کے معاملات میں سیاستدان ملّوث پائے گئے ہیں۔ وہاں ان کے خلاف تو تحقیقات کا مطالبہ کیا جا رہا ہے لیکن وہاں سے ایسی کوئی آواز بلند نہیں ہو رہی جس میں سیاسی عمل یا جمہوریت کو ہدف بنا یا جائے وہاں یہ راسخ عقیدہ پایا جاتا ہے کہ اپنی تمام تر خامیوں کے باوجود جمہوریت ہی وہ واحد نظامِ حکومت ہے جو کرپشن کو روکنے اور ملک کو ترقی دینے کے لئے ضروری ہے کیونکہ آج کے تمام ترقی یافتہ ممالک نے محض جمہوریت کےبل بوتے پر ہی ترقی کی منازل طے کی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ وہ جمہوری عمل کو زیادہ سے زیادہ شفاف اور غیر جانبدار بنانے کی تراکیب سوچتے رہتے ہیں۔ پاکستان دنیا کا شاید واحد ملک ہے جس میں دنیا بھر کے سیاسی نظام اپنائے گئے ہم نے یہاں جنرل ایوب کا بی ڈی سسٹم بھی دیکھا جس نے نہ صرف بائیس خاندانوں کو جنم دیا بلکہ جمہوریت اور سیاستدانوں کو بے توقیر کرنے اور سیاسی عمل کو روک دینے کی وجہ سے مغربی اور مشرقی پاکستان کے درمیان علیحدگی کی بنیادیں بھی استوار کردیں بعد میں یحییٰ خان کے اسی جمہوریت دشمن روّیے نے پاکستان کو دو لخت کردیا۔مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے بعد یہ خیال کیا جاتا تھا کہ اتنے بڑے سانحے کے بعد کوئی جمہوری عمل کے ساتھ کھلواڑ کرنے کی کوشش نہیں کرے گا۔لیکن ضیاء الحق نے ایک ایسے شخص کی حکومت کا نہ صرف تختہ الٹ دیا جس کے خلاف مالی کرپشن کا کوئی الزام نہیں تھا ۔ بلکہ اسے ایک ایسے مقدمہ ء قتل میں سزائے موت بھی دے دی جو قانونی ماہرین کے مطابق عدالتی قتل کے زمرے میں آتا ہے۔ اور جس کی نظیر یا مثال پاکستان کی کسی عدالت میں پیش نہیں کی جاتی یہی حال جنرل پرویز مشرف کا تھا۔ جنہوں نے کرپشن کے سدّ ِ باب کے نام پر بنائے جانے والے ادارے نیب کو سیاستدانوں کے خلاف ایک ہتھیار کے طور پر استعمال کیا۔ اور اپنے آمرانہ اختیارات استعمال کرتے ہوئے بلوچستان میں انتہا پسندی ، علیحدگی اور دہشت گردی کو فروغ دیاجو معاشرہ کرپٹ ہو جاتا ہے اس کے تمام ادارے اس کی لپیٹ میں آجاتے ہیں۔ ہماری تاریخ سیاستدانوں ، جرنیلوں ، ججوں اور افسر شاہی کی کرپشن سے بھری پڑی ہے ۔ کیونکہ پاکستانیوں سے زیادہ اس حقیقت کو کوئی نہیں جانتا کہ فوجی حکمرانوں کے دور میں جس طرح کرپشن کو فروغ ملا اور لوگ راتوں رات امیر ہو گئے اسی کرپشن کی وجہ سے لوگ زیادہ دیر تک فوجی آمریت کو برداشت نہ کر سکے اور عوام نے جمہوریت کی بحالی کے لیے ہر مرتبہ عظیم جدوجہد کی۔ کرپشن صرف مالی ہی نہیں ہوتی بلکہ ہر طرح کی قانون شکنی کرپشن کے زمرے میں آتی ہے۔ ہمیں یہ بھی دیکھنا ہوگا کہ کون سی کرپشن سب سے بڑی کرپشن ثابت ہوتی ہے۔ کیا طاقت کے زور پر آئین کو بلڈوز کردینا اور زبردستی عوام کی گردن پر سوار ہوجانا کرپشن نہیں۔ بلکہ یہ سب سے بڑی کرپشن ہے جس سے آگے کئی کرپشنز (Corruptions)جنم لیتی ہیں۔ جب وقت کے نارمل دھارے کو روک دیا جاتا ہے تو وہ سیلابی کیفیت میں تبدیل ہو جاتاہے۔ جو سب کچھ بہا کر لے جاتا ہے۔ جس عمل کی بنیاد ہی کرپشن پر ہو وہ کبھی بھی خیر کا حامل نہیں ہو سکتا۔ اگر ایسا ہوتا تو دنیا کے مہذب ملک اپنی طاقتور فوجوں کی موجودگی کے باوجود پارلیمنٹ اور جمہوری عمل پر زرِ کثیر صرف نہ کرتے بلکہ یہ کام بھی اپنے جرنیلوں پر چھوڑ دیتے ۔ پاکستان پہلے ہی جمہوریت کی پامالی کی خوفناک سزا بھگت چکا ہے۔ جنرل راحیل شریف نئے زمانے کے آدمی ہیں وہ جانتے ہیں کہ اقتدار میں آنے کے بعد وہ زیادہ دیر تک وہ مقبولیت برقرار نہیں رکھ سکیں گے جو انہیں بطورِ آرمی چیف اپنے جنگی کارناموں کی وجہ سے حاصل ہے۔ اور انہیں ہر فوجی ڈکٹیٹر کی طرح بالآخر ناکامی کا منہ دیکھنا پڑے گا جیسا کہ جنرل راحیل شریف نے کہا ہے کہ احتساب سب کا ہونا چاہیے۔ اس لیے جمہوری عمل کو ڈی ریل کیے بغیر ہر ادارے کے سربراہ کو اپنے اپنے ادارے میں منصفانہ احتساب کی ذمہ داری لینی چاہئےکیونکہ یہاں سوال ادارے کی حرمت سے زیادہ ملک کی بقا کا ہے۔ آرمی چیف کو ان خوشامدیوں سے ہوشیار رہنے کی ضرورت ہے جو انہیں ایسے مسائل کی ایسی دلدل میں دھکیلنا چاہتے ہیں جو ان کے فرائض میں شامل نہیں۔ اور نہ ہی آج تک کوئی جرنیل اس دلدل سے سرخرو ہو کر نکلا ہے۔
تازہ ترین