• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پاناما لیکس کے انکشافات کے بعد جہاں دنیا بھر میں ایک ہنگامہ برپا ہے وہیں پاکستان میں سیاستدانوں نے آسمان سر پر اٹھا لیا ہے اور اس کے باوجود کہ آف شور کمپنیوں کے حوالے سے وزیر اعظم نواز شریف کا براہ راست نام موجود نہیں تاہم ان کے دو صاحبزادوں پر آف شور اکائونٹس کے الزام ہیں۔ اس پر وزیر اعظم محمد نواز شریف نے قوم کے نام خطاب میں جوڈیشل کمیشن کے قیام کا اعلان کیا لیکن اپوزیشن کی بڑی جماعتوں بالخصوص تحریک انصاف کا مطالبہ تھا کہ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کی سربراہی میں کمیشن بنایا جائے اور جب ان کا یہ مطالبہ بھی تسلیم کر لیا گیاتو اس کے ٹرم آف ریفرنس کو وجہ تنازع بنا کر بیانات کی نئی جنگ شروع کر دی گئی۔ پیپلز پارٹی جو پہلے حکومتی پارٹی کی مخالف نہ تھی وہ بھی کھل کر سامنے آگئی اور گزشتہ روز کوٹلی آزاد کشمیر میں جلسہ عام سے خطاب کرتے ہوئے پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے نیا مطالبہ یہ کیا ہے کہ جب تک پاناما لیکس کی تحقیقات جاری ہیں وزیر اعظم اقتدار سے الگ ہو جائیں۔ تحریک انصاف اور جماعت اسلامی نے کرپشن کے خلاف عوامی رابطہ مہم شروع کر رکھی ہے جبکہ گزشتہ روز لاہور گورنر ہائوس میں ایک اعلیٰ سطح کے اجلاس اور بعد میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے وزیر اعظم نے ایک بار پھر اپنے اور اپنے خاندان کو یہ کہہ کر احتساب کیلئے پیش کر دیا ہے کہ سپریم کورٹ ٹرم آف ریفرنس تبدیل اور تحقیقات میرے خاندان سے شروع کر سکتی ہے۔ ان کا یہ کہنا درست ہے کہ ماضی میں بھی ان کے خلاف مقدمات بنائے گئے اور احتساب کیا گیا ہے اب جبکہ حکومت کی جانب سے ٹرم آف ریفرنس تبدیل کرنے پر بھی آمادگی ظاہر کی گئی ہے اور احتساب ان کے خاندان سے شروع کرنے کی پیشکش کی گئی ہے تو اپوزیشن جماعتوں کو مثبت ردعمل کا اظہار کرنا چاہئے کیونکہ صرف وزیر اعظم اور ان کاخاندان ہی نہیں مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے ڈھائی سو کے قریب افراد کا نام ان لیکس میں موجود ہے ۔
تازہ ترین