• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
وفاقی وزیر خزانہ سینٹر اسحاق ڈار نے 12/جون 2013ء کو نو منتخب حکومت کا پہلا بجٹ پیش کیا ۔ توقعات کے مطابق بجٹ پر ملا جلا رد عمل سامنے آیا۔ کچھ لوگوں کے خیال میں بجٹ حقائق پر مبنی اور سرمایہ کاری کیلئے سازگار جبکہ دیگر لوگوں نے اسے عوام اور تجارت دشمن بجٹ قرار دیا۔ معاشی مشکلات کے پیش نظر اورمحدود وقت میں تیارکیا گیا یہ بجٹ حکومت کیلئے ایک کڑا امتحان ثابت ہوسکتا ہے۔ مالی سال 2013-2014ء کا بجٹ ایک نا مناسب وقت میں تیار کیا گیا ہے کہ جب ملک کو بیرونی اور اندرونی طور پر معاشی مشکلات درپیش ہیں۔ اندرونی طورپر خراب معاشی صورتحال کی ذمہ دار گزشتہ دور حکومت ہے۔حقیقت یہ ہے کہ پاکستان کے اندر اور باہر ایک عام تا ثر پایا جاتا ہے کہ پاکستان کی حالیہ معاشی صورتحال ماضی میں اس سے قبل کبھی اتنی خراب نہیں رہی جتنی کہ اب ہے ۔ توقع کی جارہی تھی کہ بجٹ 2013-2014ء بے شمار فوری مسائل کا خاتمہ کردے گا لیکن کیا یہ ایک ہفتے کے دورانیے میں ممکن ہوسکتا تھا ؟اس کا جواب یقینی طور پر نفی میں ہوگا ۔البتہ بجٹ سے توقع کی جارہی تھی کہ اس کے ذریعے سے چند مسائل کو فوری طور پر حل کیا جاسکے گا ، جن میں گشتی قرضے کی ادائیگی کا مسئلہ اور بجلی کے شعبے کا انتظامی مسئلہ شامل ہے لیکن ان مسائل کے علاوہ وسط مدتی پروگرام کی راہ بھی ہموار ہوئی ہے ۔حکومت کی جانب سے آئندہ 3 سالوں کیلئے تغیر پذیر معاشی مسائل کے حل کیلئے مقرر کردہ جرات مندانہ اہداف سے اختلاف کیا جاسکتا ہے تاہم کم از کم یہاں ایک بصیرت ضرور موجود ہے اور امید بھی کی جارہی ہے کہ حکومت ان مسائل کو ترجیحی بنیادوں پر حل کر لے گی ۔بد تر ین معاشی صورتحال کی بحالی کیلئے متعین اہداف فطری طور پر گردش کر رہے ہوتے ہیں اور یہ مستقبل میں تبدیل ہو جائیں گے جب ہم آگے کی طرف چلیں گے۔ میرے خیال سے یہ اس پس منظر برخلاف ہے جس کے مطابق کہ بجٹ 2013-2014ء ایک کڑا امتحان ثابت ہوگا۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ کسی خاطر خواہ مشاورت کے ایک ہفتے کی مدت میں تیار کیا گیا بجٹ تمام اسٹیک ہولڈرز کی توقعات پر پورا نہیں اتر سکتا ہے ۔میں اس کالم کے ذریعے سے بجٹ کو درپیش کچھ خطرات سے آگاہ کرنا چاہتا ہوں۔ وزارت خزانہ اور ان کی ٹیم کو ان خطرات سے آگاہ ہونا چایئے اور اس کے تدارک کیلئے حکمت عملی دوئم تیار رکھنی چاہئے ۔
پہلا خطرہ آمدنی کا ہے۔فیڈریل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر )کیلئے مختص کیاگیا آمدنی کا ہدف توقعات سے کئی گنا زیادہ ہے ۔مالی سال 2011-2012ء میں ایف بی آر نے 18کھرب 81ارب روپے جمع کئے جبکہ مالی سال 2012-2013ء کیلئے ایف بی آر کو 23کھرب 81 ارب روپے کا ہدف دیا گیا ہے یعنی گذشہ ہدف کے مقابلے میں 5کھرب روپے زائد کی رقم مختص کی گئی ہے یا دوسرے لفظوں میں ہم کہ سکتے ہیں کہ ایف بی آر کو گزشتہ مالی سال کے مقابلے میں 26.6 فیصد زائدکا ہدف دیا گیا ہے۔ دوسری جانب ایف بی آر کی جانب سے19کھرب 70 ارب تک کی آمدنی جمع کئے جانے کی توقع نہیں یعنی صرف 5 فیصد زائد کی آمدنی بھی جمع نہیں ہوپائے گا۔اسی طرح مالی سال 2013-2014ء میں ایف بی آر کو 24کھرب اور 75 ارب روپے کے محاصل جمع کرنے کا ہدف دیا گیا ہے ، یعنی مالی سال 2012-2013ء کے مقابلے میں 50کھرب 5 ارب روپے زائد یا 25.6فیصد زائد کا ہدف متعین کیا گیا ہے۔کیا ایک ادارہ ایسا ادارہ جو رواں سال صرف 89 ارب روپے کی زائد کی رقم جمع کریگا وہ آئندہ سال 5 کھرب روپے زائد کی رقم جمع کرپائے گا ۔اسی لئے بجٹ میں توقعات سے بڑھ کر آمدنی کے اہداف متعین کرنے کے سنگین نتائج مرتب ہوں گے۔ سب سے پہلے تو این ایف سی ایوارڈ کے ذریعے ایف بی آر کی جانب سے حاصل کئے جانے والی آمدنی کی بنیاد پرصوبائی حکومتوں کیلئے وسائل مختص کئے جائیں گے۔ اور اگر یہ اہداف توقعات سے بڑھ کر ہوں گے تو صوبوں کیلئے مزید وسائل مختص ہوسکیں گے ۔اسی طرح صوبائی حکومتیں ان کیلئے مختص کردہ ریونیو کی روشنی میں اپنا اپنا بجٹ تیار کریں گی۔ ٹیکس وصولی میں کمی کی صورت میں صوبائی حکومتیں اپنے اخراجات کو کم نہیں کرسکیں گی جس کانتیجہ صوبائی اور مجموعی مالی خسارے کی صورت میں سامنے آئے گا ۔دوسرا یہ کہ این ایف سی ایوارڈ کے مطابق بلوچستان حکومت بجٹ کیلئے مختص کردہ آمدنی کی بنیاد پر اپنا حصہ لے گی نہ کہ جمع ہونے والی اصل رقم کی بنیاد پراور اس طرح بجٹ آمدنی میں کسی بھی قسم کی کمی کا بلوچستان کے حصے پر کوئی اثر نہیں پڑے گا اور وفاقی حکومت اس بات کی پابند ہے کہ وہ اپنے حصے میں سے بلوچستان کو حصہ دے جو مجموعی مالی خسارے کو مزید بڑھائے گا ۔اس کیساتھ ساتھ ایک کھرب 12 ارب روپے کے کولیشن سپورٹ فنڈ (سی ایس ایف)کی موجودگی بھی آمدنی کیلئے ایک اور بڑا خطرہ ہے۔امریکی نقطہ نظر سے ان کی جانب سے اعلان کردہ فنڈ کی بقیہ رقم بہت زیادہ نہیں ہے اور وہ بقایاجات کی ادائیگی کیلئے ایک نیا طریق کار وضع کر رہے ہیں ۔ اسی طرح اس رقم کے جاری ہونے کے حوالے سے بھی خطرات لاحق ہیں۔ بجٹ کو درپیش تیسرا اہم خطرہ موبائل کمپنیوں کو تھری جی لائسینس کی فروخت کا ہے۔1کھرب 20 ارب روپے کی رقم ٹیکس کے علاوہ آمدنی کے زمرے میں شامل کی جاچکی ہے۔ کیادو کمپنیوں کی جانب سے تھری جی لائسینسوں سے دستبردای کے بعد موجودہ موبائل فون کمپنیاں یہ لائسینس لینے کی خواہش رکھتی ہیں؟اگر ہاں تو کیا یہ کمپنیاں لائسینس کی رقم ادا کر سکیں گی۔ اخراجات کی مد میں 11کھرب اور 53 ارب روپے کا ہدف رکھا گیا ہے تاہم چوتھا بڑا خطرہ سود کی رقم کی ادائیگی کا ہے۔ حکومت گشتی قرضے کی ادائیگی کیلئے 5 کھرب روپے کی امداد فراہم کر نے جارہی ہے، جس میں سے کچھ رقم رواں سال اور کچھ آئندہ سال ادا کی جائیگی ۔لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ہم گشتی قرضے کی ادائیگی کیلئے تقریباً 55 ارب روپے کی سودی رقم جمع کرچکے ہیں۔اسی طرح پانچواں بڑا مسئلہ سبسڈیز کا ہے جن میں بجلی پر آنے والی لاگت اور اس کی قیمت میں فرق کا مسئلہ خصوصی طور پر شامل ہے۔
حکومت نے اس کے حل کیلئے بجٹ میں ایک کھرب اور 50 ارب روپے کی رقم مختص کی ہے۔یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ نیپرا کی جانب سے بجلی کی مختص کردہ قیمت میں اور موجودہ قیمت میں فی یونٹ 6 روپے کا فرق ہے۔ہم سالانہ بجلی کے 80 ارب یونٹ یا ماہانہ ساڑھے چھ ارب یونٹ خرچ کرتے ہیں۔ اگر ہم نے بجلی کی قیمتوں میں اضافہ نہ کیا تو اس کیلئے مختص کردہ سالانہ سبسڈی4کھرب اور80 ارب روپے ہوجائیگی۔اس بات کو مد نظر رکھا جائے کہ بجٹ میں بجلی پر سبسڈی کی غرض سے ایک کھرب 50 ارب روپے کی رقم مختص کی جاچکی ہے جس کا مطلب ہے کہ بجلی کی فی یونٹ پر حکومت کی جانب سے 2 روپے کی سبسڈی دی جائیگی اسی لئے فی یونٹ پر4 روپے کے فرق کو ختم کرنے کیلئے یکم جولائی سے بجلی کی قیمت میں فی یونٹ 4 روپے کا اضافہ کر کے اسے صارف پر ڈالا جائے۔کیا حکومت یکم جولائی سے بجلی کی قیمت میں فی یونٹ 4 روپے کا اضافہ کرے گی؟اس ضمن میں کوئی بھی تاخیر نرخوں میں مزیداضافہ کریگی اور اس کا بوجھ قومی خزانے کو برداشت کرنا پڑیگا۔چھٹا بڑا مسئلہ حکومت کی جانب سے بجٹ میں نئے ترقیاتی منصوبوں کیلئے مختص کی جانے والی 1کھرب اور15 ارب روپے کی رقم ہے۔ بجٹ کے عمل میں یہ ایک نئی چیز سامنے آئی ہے اور اس طرح کے غیر ضروری اقدام سے ترقیاتی بجٹ میں اضافہ کردیا گیا ہے۔ میرے خیال سے حکومت کو نئے قدرتی وسائل کیلئے اس طرح کے اقدامات کرنے چاہئے تھے بصورت دیگر بجٹ خسارے میں معقول حد تک اضافہ ہوسکتاہے۔سرمایہ کاری کے معاملے میں بھی بجٹ خسارے کیلئے خطرات موجود ہیں۔
گزشتہ بجٹ کے دوران ایک کمپنی کی جانب سے واجب الادا رقم کو بجٹ سرمایہ کاری کیلئے اہم ذریعہ سمجھا جاتا رہا ہے تاہم اب تک یہ رقم وصول نہیں کی جاسکی ہے۔ کیا نئی حکومت آئندہ مالی سال میں اتصلات کی طرف 79 ارب روپے کی بقایہ رقم حاصل کرنے میں کامیاب ہوجائیگی؟۔اسی طرح ایک کھرب اور 10 ارب روپے کی رقم بیرونی ذرائع سے قرضہ پروگرام کے تحت شامل کی گئی ہے۔ یہ رقم آئی ایم ایف کے کامیاب پروگرام کی شمولیت سے مشروط کی گئی ہے جبکہ اس کیساتھ ساتھ قرضہ پروگرام کے اہداف کو حاصل کرنے کیلئے مشکل فیصلے کئے گئے ہیں اسی لئے بیرونی آمد زر کے اس پروگرام کے حوالے سے بھی شدید خطرات موجود ہیں۔ پاکستان نے یورو بونڈ کے ذریعے سے عالمی منڈی میں دوبارہ شمولیت کیلئے2013-2014ء تک کا ہدف مقرر کیا ہے۔کیا ہمارے پاس اتنے ذخائر موجود ہیں کہ ہم عالمی سرمایہ کاروں کو متوجہ کر سکیں۔ کیا پاکستان کی کریڈٹ ریٹنگ اس قابل ہے کہ وہ بیرونی سرمایہ کاروں کو ملک میں سرمایہ کاری کرنے کی ترغیب دے سکے۔یہ تمام معقول سوالات ہیں۔ بجٹ 2013-2014ء ایک چیلنجنگ بجٹ ہے۔ وزیر خزانہ اور ان کی ٹیم برقت بجٹ پیش کرنے پر مبارکباد کی مستحق ہے۔یہ بجٹ پاکستان کے تمام معاشی مسائل حل نہیں کریگا تاہم اس نے ہمیں ایک نئی راہ دکھائی ہے، ایک بصیرت سے روشناس کرایا ہے، ایک نئی سمت دکھائی ہے اور ایک امید دی ہے۔ میں نے بجٹ کو درپیش چند خطرات کی نشاندہی کی ہے۔ وزیر خزانہ اور ان کی ٹیم کو ان خطرات کو مد نظر رکھتے ہوئے ایک متبادل حکمت عملی بھی اختیار کرنی چاہیئے تاکہ ان سے نمٹا جاسکے نہ کہ وہ تمام غلطیاں دہرائی جائیں جو گزشتہ 5سال میں کی گئی ہیں۔
تازہ ترین