• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
دنیا بھر میں بجلی کی پیداوار کے اہم ذرائع میں کو ئلہ ، گیس ، تھرمل ، ہوا ، ہائیڈل ، نیو کلیئر شامل ہیں ۔لیکن سب سے کم لیکن تیزی سے پھیلتا ہوا ذریعہ سولر سے بجلی کا حصول ہے ۔آسٹریلیا میں بجلی کی قلت کو پورا کرنے کے لئے سولر طریقہ کا ر کو اپنایا گیا ۔اس طریقہ کا فوٹو والٹکس (photovoltaics) کہتے ہیں ۔ اس میں سورج کی شعاعوں کو براہ راست بجلی کے کرنٹ میں تبدیل کیا جاتا ہے۔
یہ امر قابل ذکر ہے کہ آسٹریلیا میں بھی اس سسٹم سے جو بجلی پیدا کی جارہی ہے وہ ملکی ضروریات کا صرف تین فی صد ہے لیکن لوگ خود بخود اس سسٹم کی طرف مائل ہو رہے ہیں اور اور پچھلے چند ایک سال سے اب تک میں یہ سسٹم چار لاکھ لاکھ سے زائد گھروں میں استعمال ہورہا ہے ۔اس کو استعمال کرنے والوں کی تعداد میں حیران کن اضافہ جاری ہے ۔یہ سسٹم کیا ہے ؟اس پر کیا لاگت آتی ہے ؟کیا پاکستان کا موسم اس کو سوٹ کرتا ہے ؟اور لوگ اس کو از خود کیوں ترجیح دیتے ہیں ؟ یہ ہیں کچھ سوالات جن کے جوابات جاننے کے بعد ہم یہ محسوس کریں گے کہ پاکستان میں بھی اس سے بجلی کا مسئلہ کافی حد تک حل ہو جائے گا۔
آسٹریلیا کے شہروں ایڈلیڈ ، الائس سپرنگز ، بلیک ٹاون، سینٹرل وکٹوریہ اور بعد ازاں پرتھ اور کاو برگ کو بھی آسٹریلیا میں سولر سیٹیز ڈیکلئر کیا گیا۔وہاں بجلی قیمیتوں میں اضافہ ہوا ۔بجلی کی کھپت میں کمی آئی ۔ گھروں (تین بیڈ ) کا تین ماہ بل 300 سے 500 آسٹریلوی آتا تھا ۔لیکن ہوا کیا؟جن گھروں کا اتنا بل آتا تھا یہ سسٹم لگانے کے بعد الٹا گورنمنٹ کو انہیں بل دینا پڑتا تھا ۔ اس سسٹم کیلئے 4.6 *1.7 سائز کی چھت درکار ہے ۔اسے چھت پر سورج کے سامنے 30 ڈگری کے اینگل پر رکھا جاتا ہے ۔شروع میں آسٹریلوی حکومت نے اس سسٹم کو پرموٹ کرنے کے لئے بہت سی ترغیبات دی ۔لوگوں نے یہ سسٹم اپنے گھروں میں لگائے اس کے ساتھ سمارٹ میٹرز بھی لگائے گئے ۔جو بجلی گھر کی ضروریات سے زیادہ ہو وہ نیشنل گرڈ میں چلی جاتی ہے اور یوں جتنی بجلی نیشنل گرڈ میں جاتی ہے اس کی قیمت حکومت آپ کو ادا کرتی ہے ۔سادہ سی بات ہے آپ جتنی بجلی کمپنی کی لیتے ہیں یعنی جو بجلی گھر میں امپورٹ ہوتی ہے اس کا بل اور جو بجلی آپ پیدا کرتے ہے اور نیشنل گرڈ کو ایکسپورٹ کرتے ہیں اس کا فرق دیکھا جاتا ہے ۔ظاہر سی بات ہے جب آپ اس کو ایک کاروبار کی طرح لین گے آپ کی کوشش ہو گی کہ زیادہ سے زیادہ بجلی ایکسپورٹ ہو اور بل دینے کی بجائے آپ کو آمدنی آنی شروع ہو جائے ۔یہ اصل ترغیب تھی جس کی وجہ سے لوگوں نے یہ سسٹم اپنے گھروں میں لگوانے شروع کئے ۔پاکستان میں اس سسٹم کے لئے حالات زیادہ ساز گار ہیں۔ لیکن مشکلات بھی ہیں ۔یہاں سورج زیادہ دیر کے لئے دستیاب ہے ۔آسٹر یلیا میں سورج کا دورانیہ پاکستان سے کم ہے اس لئے یہاں یہ سسٹم زیادہ اچھے نتائج دے گا ۔ لیکن مشکل یہ ہے کہ لوگ اسے لگوئیں گے اس لئے کہ یہ کاروبار بن جائے اور بجلی نیشنل گرڈ میں ایکسورٹ کی جائے ۔لیکن اس کیلئے ضروری ہے لوڈشیڈنگ نہ ہو ۔اگر نیشنل گرڈ کی تاروں میں کرنٹ نہ ہو تو بجلی ایکسپورٹ نہیں کی جاسکتی ۔یہ سسٹم پینل ، انورٹر ،بیٹریز اور سمارٹ میٹر پر مشتمل ہے پاکستان میں اس کی قیمت ایک گھر کے لئے تقر یبا 6 سے 8لاکھ تک بنتی ہے ۔
حکومت کو چاہئے کہ لاہور ،اسلام آباد ، کراچی ، پشاور اور فیصل آباد کے پاش علاقوں کو پائلٹ پراجیکٹ کے طور پر سولر ایریاز ڈیکلئیر کر دیا جائے ۔یہ لوگ اس سسٹم کو افورڈ بھی کر سکتے ہیں اس لازمی کر دیا جائے ان علاقوں میں لوڈ شیدنگ نہ کی جائے تاکہ بجلی نیشنل گرڈ میں ایکسپورٹ بھی ہو ۔اسی طرح بالکل غریب آبادیوں میں لوگوں اس سسٹم کے لئے سافٹ لانز دئے جائیں اور یوں یہ لوگ اپنی بجلی پیدا کریں اور لود شیڈنگ میں کسی ھد تک کمی آ سکے ۔اگر یہ سسٹم کامیاب ہو جائے تو بہت جلد بہت سے لوگ اسے اپنا لیں گے ۔یہ ایک طرح سے کاروبار بن جائے گا ۔ایک دفعہ تو خرچہ کرنا پڑتا ہے لیکن اس کی مینٹینس اتنی مہنگی نہیں ۔
تازہ ترین