• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
یہ بات کتنی درست ہے کہ خیال اور ادراک کی درمیانی مسافت طے کرنا اصل اظہار ہے۔ اچھے لوگ کہتے ہیں کہ اگر آسانیاں ہوں تو زندگی دشوار ہو جاتی ہے لیکن آسانیاں ان کے لئے ہیں جو عالمی اور مقامی سرمایہ دار ہیں۔ عام آدمی کی دنیا بھر میں زندگی جہنم زار بن گئی اور اس سلسلے میں پاکستان کے عوام سرفہرست ہیں لہٰذا خیال اور ادراک کا درمیانی فاصلہ طے کرنا اک کڑا دور ہے جو الفاظ میں ڈھلتا ہی نہیں، دل کے تیرہ شگافوں سے نکلتا ہی نہیں لیکن پھر سوچتا ہوں کہ دکھ تو ہے دائمی، یہ تو ہمارا ساتھی ہے جیسے زندگی کے ساتھ موت تخلیق ہوئی ہے، البتہ خوشی بے وفا ہے کبھی آتی اور کبھی چلی جاتی ہے پھر تسلّی ذہن کے گوشوں میں در آتی ہے اور کہتی ہے کہ اگر تاریکیاں نہ ہوتیں تو روشنی اندھی ہو جاتی، تضادات ہی زندگی کو مسلسل آگے بڑھاتے رہتے ہیں۔ یہ جان لینا اور مان لینا کتنا ضروری ہے کہ نرم اور گداز بستروں پر سونے والوں کے خواب زمین پر سونے والوں سے کیسے حسین ہو سکتے ہیں؟ ابھی انہی سوچوں میں گم تھا کہ میرا دوست جسے میں ہمزاد کہتا ہوں، بچّوں نے بتایا کہ وہ آئے ہیں۔ میں بیٹھک میں جا کر ان سے ملا لیکن وہ بہت مغموم دکھائی دیئے۔ میں نے پوچھا! میرے ہمزاد خیریت تو ہے۔ اس نے کہا تہی دامن اور تہی دستوں کی خیریت اس مہنگائی اور خلفشار کے دور میں کیسے ہو سکتی ہے، اب تو اچھے خواب بھی روٹھ گئے ہیں پھر ہم ”تارکین وادی“ جنہوں نے جوانی آدرشوں کے لئے گزار دی اور لوگ کاندھا مارتے ہوئے آگے نکل گئے، آدرش پیچھے رہ گئے، جھوٹ آگے نکل گیا۔ حکومتوں نے لوٹ مار مچائی، قرضوں پر ملک چلایا، کرپشن کی خسارہ ہی خسارہ ہر سمت دکھائی دیا۔ خرابہ کرنے والے بات ہی بات میں ذی شرف ہو گئے اور خساروں کا ازالہ عوام کر رہے ہیں جن کی پاؤں کی چادر بھی اب رومال بن گئی ہے۔ تمہیں تو علم ہے کہ میں سفید پوشی کی زندگی گزار رہا ہوں، میری بیوی بیمار ہے اس کی ہڈیوں میں درد رہتا ہے، ہر وقت کرّاہتی رہتی ہے۔ یہ آوازیں مجھے ڈستی ہیں۔ ہم نے ہمیشہ سیدھے راستے پر چلنے کی کوشش کی، کسی بڑی خواہش کا پیچھا نہیں کیا۔ تم تو میرے کاشف حالات اور دکھوں سے واقف ہو، والد صاحب کو پاکستان کے سب ہی کرتا دھرتا جانتے تھے۔ بس انہوں نے ایک ہی کام کیا کہ بڑی بستی میں انہوں نے گھر خرید لیا لیکن میری قوت خرید تو اتنی بھی نہیں ہے کہ اس مہنگائی کے دور میں بیٹے کیلئے ایک کمرہ بنوا دوں۔ میں نے اس سے کہا تم تو مرمریں پھولوں کے خواب دیکھتے تھے اور سب کیلئے نوید سحر کا پیغام دیتے تھے اور اب تم جذباتی ہو رہے ہو، شعور کی منزل کھو گئی کیا؟ جب معاشی عذاب نازل ہوں میرے دوست، ہر بڑی کرسی پر چھوٹا آدمی بیٹھا ہو، نکمّوں کی پذیرائی ہو تو شعور ماند پڑ جاتا ہے۔ تم تو جانتے ہو کہ والد صاحب کی ایک دوست کے ساتھ اچھے کاروبار میں شراکت داری تھی۔ والد صاحب اپنے کاروباری دوست پر اندھا اعتبار کرتے تھے حالانکہ وہ خود سوشلسٹ تھے، جانتے تھے کہ سرمایہ داری نظام ایک بہت بڑا دھوکہ ہے، اس میں انسان، انسان کا ماس نوچ لیتا ہے پھر یہ ہوا کہ والد صاحب کی آنکھیں بند ہوتے ہی اس نے ہمیں آنکھیں دکھانا شروع کر دیں۔ سرمایہ کاری ہماری تھی، زمین اس کے نام تھی، اس کے بچّے شراکت دار تھے، مشینری اور دیگر لوازمات ہمارے نام تھے۔ آفیشل اسائینی نے قانونی گنتی کرائی۔ اب کہاں پڑے یہ لاکھوں روپے کے لوازمات اور مشینری اس کے بارے میں نیا آفیشل اسائینی خاموش اور تم کہتے ہو کہ مجھے کیا ہوا؟ جسٹس صبیح الدین احمدسے جسٹس مشیر عالم تک تمام آرڈرز بہترین پڑھنے کے لائق ہیں خاص طور پر سیشن جج نے تو سو صفحات پر مشتمل مکمل فیصلہ دے دیا اور کہا کہ شراکت دار میرا سب کچھ ہضم کرنے کے چکر میں ہیں اس کے باوجود مجھے انصاف نہیں ملا۔ 18 سال ہو گئے ہیں حتمی فیصلہ قریب ہونے کے باوجود دور ہے البتہ میں نے سب کچھ لٹا کر اپنے گھر کو جو گروی تھا کسی نہ کسی طور بچا لیا، اب میں تھک چکا ہوں۔ یہ تو سب ٹھیک ہے، فیصلہ تمہارے حق میں آئے گا۔ یہ تو شراکت دار کے دائرکردہ مقدمے ہیں پھر تمہیں معاوضے کیلئے مقدمہ کرنا پڑے، کب تک تم لڑو گے؟ 15 سال تک 80 برس کے ہو جاؤ گے اور کیا پتہ اگلی سانس کا بھی… یہ بتاؤ اس وقت کون سا مسئلہ درپیش ہے۔ اس پر میرے ہمزاد نے کہا پراپرٹی ٹیکس والوں نے گزشتہ کئی سالوں کا ٹیکس نوٹس بھیج دیا ہے، اس میں بل کا 60 فیصد تو صرف جرمانہ ہے۔ سات دن کے اندر اپنی معروضات بیان کرنے کو کہا ہے۔ ایک بات سمجھ میں نہیں آتی کہ ایسا قانون کیوں نہیں بنتا جس میں لوگوں کی قوت خرید اور حالات کار دیکھ کر ٹیکس کا اطلاق ہو۔ کروڑ پتی تو ملی بھگت سے آزاد ہو جاتے ہیں، ہم چکر کاٹتے کاٹتے بوڑھے ہو جاتے ہیں، آدرش پیچھے اور جھوٹ آگے نکل جاتا ہے۔ بالواسطہ ٹیکس اور یوٹیلٹیز بلوں کی بھرمار اس لئے علاج معالجہ بھی ملتوی کرتے رہتے ہیں، یہ کالونیل نظام اور لارڈ میکالے کا قانون کب تک مسلّط رہے گا؟ پراپرٹی ٹیکس کے عوض کیا دیا جاتا ہے کیونکہ ٹیکس کے نفاذ کا مطلب یہی ہوتا ہے اور یہاں ان ٹیکسوں سے محکمہ جاتی تنخواہیں اور کرپشن کا دامن بھرا جاتا ہے۔ یہ بتاؤ آخر تم کیا چاہتے ہو؟ اس نے کہا میرے پاس پراپرٹی ٹیکس ادا کرنے کیلئے رقم نہیں ہے البتہ یہ ہے کہ سردیوں میں میری کتاب شائع ہو گئی تو اس پر اشتہارات خاصے لے لوں گا اور رقم ادا کر دوں گا۔ مجھے مہلت چاہئے۔
میرے ہمزاد ان محکموں میں بھی دل رکھنے والے انسان بیٹھے ہوتے ہیں، زیادہ نہیں تھوڑے تو ہیں، کوئی نہ کوئی راستہ نکل آئے گا۔ پراپرٹی ٹیکس کے فلسفے میں مت جاؤ، یہ تو چھ ہزار سال پرانا ہے، جب بادشاہوں کو عیاشی اور فوج کیلئے پیسے کی ضرورت تھی تو انہوں نے ہر گھر سے ٹیکس کی صورت رقم وصول کی۔ بعد میں جب انگریز ہندوستان آیا تو پھر غلاموں کو کہا گیا یہ زمین بادشاہ سلامت کی ہے، اس پر تم مفت نہیں رہ سکتے اس لئے ٹیکس ادا کرنا ہو گا پھر انگریزوں کے آنے کے بعد جاگیرداری نظام بھی متعارف ہوا، یہ ایک طویل کہانی ہے۔ لارڈ میکالے نے غلاموں کیلئے جو قانون بنایا وہ آج تک مسلّط ہے۔ یہ حکمران طبقے کو پسند بھی ہے اس لئے اسی کی تشریح کی جاتی ہے لیکن میرے ہمزاد تم جاؤ محکموں میں اچھے لوگ بھی ہیں جو معروضی حالات سے واقف بھی ہیں۔ زیادہ فکر کرنے سے اپنا نقصان کرو گے۔ دیکھو آدرش والوں نے اس ملک میں بڑے عذاب جھیلے ہیں۔ تمہیں یاد ہو گا کہ کشمیر کی آزادی جنگ میں جنرل اکبر خان کو اگلے روز جموں اترنا تھا، اسے وفاقی حکومت نے کمک نہ پہنچائی بلکہ لیاقت علی خان نے امریکہ کی ہدایت پر ”سیز فائر“ کر دیا تھا۔ اس کے ردّعمل پر نوجوان فوجی افسران میں اشتعال پھیلا جس میں جنرل اکبر خان پیش، پیش تھے جس کے بارے میں جنرل گریسی نے جنرل ایوب خان کو کہا تھا کہ تمہاری فوج میں ایک بہادر سپاہی ہے، اس کا نام جنرل اکبر خان ہے، یہ کمال پاشا ہے، اس پر نظر رکھنا۔ (ماخوذ فرینڈناٹ ماسٹر) بعد میں محب وطن فوجیوں کو نکالنے اور ترقی پسندوں کو نذر زنداں کرنے کیلئے امریکی پالیسیوں پر عملدرآمد کرنے کے سلسلے میں فیض احمد فیض، محمد حسین عطا اور سجاد ظہیر کو بھی گرفتار کر لیا گیا۔ بند کمرے میں مقدمہ چلایا گیا۔ یہ 1951ء کی بات ہے جب میں بچّہ تھا۔ میرے والد زیر زمین تھے، گرفتاری کیلئے چھاپے مارے جا رہے تھے۔ ہمارے گھر پر پولیس آئی، میرے نانا کو اذیت دیتے، مارتے، پیٹتے۔ میری ماں45 برس بستر مرگ پر رہی تھی۔ ڈاکٹر کے پاس جانے کیلئے رقم نہیں تھی۔ لوگوں نے ہمارے گھر آنا بند کر دیا، بعض لوگ تو راتوں کو جاگتے تھے کہ محمد حسین عطا آئے تو اسے گرفتار کرا کے انعام حاصل کیا جائے۔ یہ طویل داستان ہے جو منظرعام پر آ چکی ہے۔ بائیں بازو والوں نے وہ قرض چکائے جو واجب بھی نہ تھے۔ اس لئے صرف پراپرٹی ٹیکس مسئلہ نہیں ہے بلکہ انگریزوں اور امریکی سامراج کے حاشیہ برداروں کا ملک پر قبضہ ہے اس لئے کہ ابتدا ہی سے غریبوں کے ملک پر امیروں کا قبضہ ہو گیا تھا۔ میرے ہمزاد پراپرٹی ٹیکس تو معمولی مسئلہ ہے، یہاں لوگوں کو سانس لینے کیلئے تازہ ہوا نہیں ملتی، ٹرانسپورٹ سسٹم ہے ہی نہیں، سامراجی قرضوں پر مشینیں لے کر مزارعانہ پیداوار میں کیا بچے گا اور غریب کو کیا ملے گا؟
تازہ ترین