• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ضلع کچہری اسلام آباد میں بدھ کو ایک افسوسناک واقعہ پیش آیا جس کے نتیجے میں سینٹ کےسابق چیئرمین سید نیر بخاری اور ان کے گن مین کے خلاف پولیس مزاحمت کارسرکار میں مداخلت اور جان سے مار دینے کی دھمکی دینے کے الزامات میں مقدمہ درج کیا گیا اور آئی جی پولیس اسلام آباد نے ان کی گرفتاری کا حکم جاری کر دیا۔ مقدمے کے مدعی پولیس اہلکار نے تھانہ مارگلہ میں ایف آئی آر درج کرائی کہ وہ سادہ کپڑوں میں ملبوس واک تھرو گیٹ پر اندر جانے والوں کی چیکنگ کر رہا تھا کہ ان حضرات نے تلاشی دینے سے انکار کیا۔ سید نیر بخاری نے اسے دھکا دیا جبکہ ان کے گن مین نے زوردار تھپڑ مارا اور دھمکیاں دیتے ہوئے آگے نکل گئے۔ سید نیر بخاری کا کہنا ہے کہ انہوں نے کسی کو تھپڑ مارا نہ دھمکی دی مقدمہ میرے خلاف سازش ہے اپوزیشن لیڈر سید خورشید شاہ نے واقعے کی جوڈیشل انکوائری کا مطالبہ کیا ہے جبکہ وفاقی وزیر داخلہ نے آئی جی پولیس سے واقعے کی رپورٹ طلب کر لی ہے۔ سید نیربخاری ایک بردبار شخصیت ہیں اور تحقیقات کے بعد ان کی بے گناہی بھی ثابت ہوسکتی ہے مگر اس واقعے سے قطع نظر اس طرح کے ناخوشگوار واقعات ہمارے ملک میں موجود وی آئی پی کلچر کا عمومی شاخسانہ ہیں۔ بڑے عہدوں پر فائز موجودہ یا سابق عہدیدار اور شخصیات کو قانون سے ماورا بہت سے حقوق حاصل ہیں جن میں چیکنگ اور تلاشی بھی شامل ہے۔ دہشت گردی کے موجودہ ماحول میں یہ استثنا کسی بڑے سانحے کا پیش خیمہ بن سکتا ہے اس لئے کوئی چھوٹاہو یا بڑا سب کو خوش دلی کے ساتھ قانونی ضابطوں کی پابندی کرنی چاہئے، خاص طور پر بڑی شخصیات کو دوسروں کیلئے عملی نمونہ پیش کرنا چاہئے۔ وی آئی پی کلچر کے باعث عوام کو کئی طرح کی پریشانیاں لاحق ہیں۔ کسی وی آئی پی کیلئے گھنٹوں سڑکیں بند رکھنا بھی اس کلچر کا حصہ ہے جس سے لوگوں کے معمولات زندگی بری طرح متاثر ہوتے ہیں۔ اس طرح کے اور بھی کئی مسائل عوام کو بھگتنا پڑتے ہیں۔ ریاست اس کے حکمرانوں کارپردازان مملکت اور سیاستدانوں کافرض ہے کہ وہ اس کلچر کے خاتمے میں اپنا کردارادا کریں۔
تازہ ترین