• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
چیف آف آرمی اسٹاف جنرل راحیل شریف کی طرف سے اپنے ادارے سے صفائی کا آغاز کرتے ہوئے بدعنوانی کے مرتکب افسران کے خلاف کی جانے والی کارروائی نے جنوبی ایشیا کی سیاست میں ایک ہلچل سی مچادی،خاص طور پر پاکستانی سیاسی بساط کو ہلاکر دکھ دیا۔ یہ اقدام ایک حوالے سے تاریخ کا دھارابدل سکتا ہے کیونکہ کل تک یہ ادارہ کچھ استثنیٰ کے ساتھ ’’مقدس گائے‘‘ کا درجہ رکھتا تھا۔ اب اس’’سہولت ‘‘ کے خاتمے کا پیغام واضح اور قطعی ہے ، اور سچی بات یہ ہے کہ اعلیٰ سطح کے فوجی افسران کومنصب سے ہٹائے جانے کے عمل نے دنیا کوورطۂ حیرت میں ڈال دیا ہے ۔
اس سے پہلے چیف آف آرمی اسٹاف نے ’’معاشی دہشت گردی کے خلاف جنگ ‘‘ کو ضرب ِ عضب کا پارٹ ٹو قرار دیتے ہوئے کہا تھا کہ دہشت گردی کے خلاف مجموعی طور پر کامیابی کے لئے بدعنوانی کی جڑ کاٹنا ضروری ہے ۔ اُنھوں نے پاکستان میں بدعنوانی کے خلاف عمل کو تحریک دیتے ہوئے اپنے ادارہ کو حاصل استثنیٰ ختم کردیا اور بدعنوانی کے خلاف اپنے موقف کو عملی طور پر ثابت کردکھایا۔ آرمی چیف کے اس عمل نے اب گیند سیاست دانوں کے کورٹ میں ڈال دی ہے ۔ اب ناقدین جمہوری حکومت سے بھی ایسے ہی طرز ِعمل کی توقع کر رہے ہیں۔ فوج کا ایکشن صرف پاناما لیکس تک محدود نہیںبلکہ اس کی نوعیت اور دائرۂ کار کہیں زیادہ وسیع اور مربوط ہے۔ پاکستان کی سیاسی انتظامیہ کا ڈھانچہ بدعنوانی کے برسوں پر محیط اسکینڈلوں سے داغدار ہے ،لیکن افسوس، کبھی اس کے حقیقی احتساب کی نوبت نہ آئی۔ اب احتساب کا استثنیٰ ختم، چنانچہ اس واضح اور دوٹوک پیغام نے حکمران جماعت ، سیاسی پارٹیوں کی اشرافیہ اور منہ زور بیوروکریسی کے پائوں تلے سے زمین سرکادی ہے ۔ عوامی حلقوں کی جانب سے قومی دولت لوٹنے والوں کے محاسبے کا مطالبہ زور پکڑ رہا ہے۔
اس وقت سیاسی اشرافیہ کے لئے پیغام بہت واضح اور غیر مبہم ہے ۔ اُنہیں بھی اسی اقدام کی پیروی کرنی ہے ، کوئی جائے مفر باقی نہیں۔ اُنہیں ہرممکن طریقے سے اپنی صفوں میں راسخ ہوجانے والی بدعنوانی کو جڑسے اکھاڑ پھینکنا ہوگا تاکہ اپنی سیاسی شناخت کا بھرم قائم رکھ سکیں۔ جن رہنمائوں کی ساکھ دائو پر لگ چکی ہے ، یا جنہیں اس چیلنج کا سامنا ہے ، اُن کے لئے ضروری ہے کہ وہ سامنے آکر اپنی پوزیشن واضح کریں۔ سیاسی قیادت کو اب اپنے محفوظ مورچوں اور جذباتی پناہ گاہوں سے باہر نکل کر اپنے اعمال کا خمیازہ بھگتنا پڑے گا۔ اس سے جمہوریت اور سیاسی جماعتیں کمزور نہیں، مضبوط ہوں گی اور اگر وہ خود کو بدعنوانی کے الزامات سے پاک کردکھاتی ہیں تو ان کی ساکھ اور وقار میں اضافہ ہوگا۔
سیاسی قیادت کو چاہئے کہ وہ جمہوریت کو پروان چڑھانے کے لئے نوجوان قیادت کو آگے آنے کا موقع دیں۔ سیاسی جماعتوں کے لئے لازمی ہے کہ وہ بدعنوانی کی طویل تاریخ رکھنے والے گندے انڈوں کو اپنی صفوں سے باہر نکال پھینکیں تاکہ مجموعی طور پر سیاسی جماعتوں کو انہدام سے بچایا جاسکے ۔ سنسکرت کی ایک قدیم کتاب کی کہاوت ہے ،’’ خاندان کے تحفظ کے لئے فرد کو، معاشرے کے لئے خاندان کو، ملک کے لئے معاشرے کو اور روح کے لئے تمام دنیا کو قربان کرنے کے لئے تیار رہیں۔‘‘مفکرین کے نزدیک یہاں ’روح ‘ سے مراد مفاد ِعامہ ہے ۔ چنانچہ انسداد ِ بدعنوانی کی یہ مہم مفاد ِعامہ کے لئے ہے ، اس کے لئے قربانی کا آغاز آرمی چیف نے اپنے ادارے سے کیا ہے ۔ اس طرح اُنھوں نے ملک بھر کی سیاسی قیادت کو ایک دوٹوک پیغام دے دیاہے کہ وہ بھی اس کے لئے تیار رہے ، قبل اس کے کہ بہت دیر ہوجائے ۔ آرمی چیف کی طرف سے اٹھایا گیا قدم قابل ِفہم ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ یہ عالمی رہنمائوں سے ملاقاتوں کے بعد افکاروخیالات میں پیدا ہونے والی وسعت اور پروان چڑھنے والی دانائی کا عملی نتیجہ ہے کہ ملک کو اس دلدل سے نکالنا ضروری ہے ۔ میں سیاسی قیادت پر حیران ہوں کہ وہ غلط کاری، خاص طور پر بدعنوانی، کا ارتکاب کرنے والے افراد ، جن پر اس سے پہلے ہاتھ نہیں ڈالا گیا تھا، کے خلاف کارروائی کو سمجھنے میں کیوں ناکام دکھائی دیتی ہے ۔ حقیقت یہ ہے کہ دنیا کی بڑھتی ہوئی آبادی کی وجہ سے دستیاب وسائل سمٹ رہے ہیں، دنیا میں پانی اور خوراک کی کمی کا مسئلہ پوری شدت سے سراٹھارہا ہے ۔ اس عالم میں پاکستانی اشرافیہ کس طرح پوری قوم کو دائو پر لگا کرمالی بدعنوانی کی گنگامیں ہاتھ دھو سکتی ہے ؟اس وقت پاکستان کا بنیادی مسئلہ مستقبل کے تقاضوں پر نظر رکھتے ہوئے کی جانے والی مینجمنٹ کا فقدان ہے ۔ اس ایجنڈے کے تسلسل کاآرمی چیف کی مدت ِ ملازمت سے کوئی تعلق نہیں، اُنھوں نے اس عمل کا آغاز کردیا ہے ، اب اسے روکنا یا واپس پھیرنا ممکن نہیںہوگا۔
گیند سیاسی جماعتوں کےکورٹ میں ہے ، اب انھوں نے اپنے گھر کو درست کرنا ہے ، چنانچہ وہ کسی قانون سازی کی آڑلے کر اس عمل سے نہیں بچ سکیں گے ۔ اگرفوج کو حاصل سمجھا جانے والا استثنیٰ ختم ہوسکتاہے تو کسی سویلین کوبھی مقدس گائے نہیں سمجھا جاسکتا۔ اب شتر مرغ کی طرح ریت میں سردباکر خود کو دھوکہ دینے کا کوئی فائدہ نہیںہوگا، بلکہ تبدیل ہوتے ہوئے نئے حقائق کو دیکھتے ہوئے اپنے افعال پر جواب دہی کے لئے تیا ر رہنا ہوگا۔ اسی میں جمہوریت کا فائدہ ہے ۔ اورمجھ سے بہتر یہ بات کون سمجھتا ہوگاکیونکہ میں نے مشرف دور میں بغیر کسی ثبوت کے دوسال جیل میں گزارے یہاں تک کہ نیب عدالت نے مجھے رہا کیا۔ اس سے پہلے میں نے اور میرے بیوی بچوں نے آٹھ سال تک چلنے والے مقدمے، جس میںہفتے میں دوسماعتیں ہوتی تھیں، کی مشقت اٹھائی، حالانکہ کوئی کیس تھا ہی نہیں۔ لیکن وہ ماضی تھا، آج جمہوری سیٹ اپ ہے، چنانچہ اب کیسز کو دستور کے مطابق، ملزم کے حقوق کا خیال رکھتے ہوئے ، چلایا جاسکتا ہے ، اور پھر جاندار میڈیا کے سامنے کسی کو سیاسی انتقام کا نشانہ بنانا بھی مشکل ہے ۔ سیاسی قیادت ایسی قانون سازی کرسکتی ہے کسی کو سیاسی عناد کا نشانہ نہ بنایا جاسکے ، لیکن دوسری طرف بدعنوانی کرکے بچ نکلنے کے راستے بھی بند کردئیے جائیں۔ اس وقت تبدیلی پاکستان کے دروازے پردستک دے رہی ہے ۔ سیاسی قیادت کو ایسے عناصر کو چلتا کرنا پڑے گا جنہوں نے اقتدار میں آکر صرف دولت ہی سمیٹی ہے ۔ یہ عناصر ہر حکومت کے دستر خوان سے سیر ہونے کی مہارت رکھتے ہیں۔اب وقت آگیا ہے جب ان کی بدعنوانی کا محاسبہ ہو اور قوم کی لوٹی ہوئی دولت اُن کی جیبوںسے نکالی جائے ۔ سیاسی جماعتوں کو اپنا وجود قائم رکھنے کے لئے نوشتہ ٔ دیوار پڑھنا ہوگا اور اپنی صفوںسے بدعنوان عناصر، چاہے وہ جوبھی ہیں، کو نکالنا ہوگا۔ سیاسی قیادت کو تنظیمی ڈھانچے پر نظر ثانی کرنا ہوگی تاکہ سیاسی جماعتیں حقیقی سیاسی ادارے بن سکیں۔ اُنہیں سابق دور میں اقتدار کی گنگا میں ہاتھ دھونے والی اشرافیہ کی بجائے مڈل کلاس سے تعلق رکھنے والے تعلیم یافتہ نوجوانوں کو سیاسی قیادت سونپنی ہوگی ۔ ان تعلیم یافتہ نوجوانوں کو سیاسی تربیت درکار ہے اور یہی وہ نوجوان نسل ہے جس نے نیا پاکستان تعمیر کرنا ہے ۔
چنانچہ جمہوریت کے تحفظ کے لئے سیاسی قیادت کو مستقبل کے طریق ِ کار کو سمجھنا اور اس پر مکالمے کا آغاز کرنا ہوگا۔اپنی ذات کے خول میں بند ہو کر سیاست کرنے کا زمانہ لد چکا۔ماضی کی دلدل سے قدم نکالنے کا وقت آگیا ہے۔ سیاسی قیادت اور سیاسی جماعتوں کے لئے اب کارکردگی دکھانے کے سواکوئی چارہ نہیں ۔ اپنا دامن صاف رکھیں اور عوام پر چھوڑدیں کہ وہ کس جماعت پر اعتماد کرتے ہیں۔ بدعنوانی کے خاتمے کے لئے فوجی قیادت کا اٹھایا گیاقدم سیاسی اشرافیہ کو بھی متحرک ہونے پر مجبو ر کرے گا۔ تبدیل ہوتی ہوئی دنیامیں پاکستان ساکت و جامد نہیں رہ سکتا۔ اب یہ سیاسی قیادت پر ہے کہ وہ کس طرح اس جمود کوتوڑنے کے لئے اپنے اپنے گھروں سے صفائی کے عمل کا آغاز کرتی ہے۔
تازہ ترین